شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 19
حقیقت یہ ہے کہ انگریز اپنے شکار کے واقعات مبالغے کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور ان کی کتابیں شائع ہوکر ساری دنیا میں کہتی ہیں۔ پاکستانی یا بھارتی شکاری عام طور سے مصنف یا ادیب ہوتے ہی نہیں اور اگر کسی میں یہ وصف ہوا بھی تو وہ اردو یا کسی مقامی زبان میں بے کم و کاست واقعات لکھ دیتا ہے اور مغرب زدہ قارئین اس کے شکار نامے کو کوئی وقعت نہیں دیتے، بلکہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر مساوی حیثیت کے دو شکار نامے، جن میں ایک انگریزی میں ہو اور دوسرا اردو میں، انگریزی والا قارئین کے سامنے پیش کئے جائیں تو وہ اردو میں لکھے ہوئے شکارنامے کو لغو لایعنی اور دروغ بیانی پر بینی قرار دیں گے اور انگریزی میں لکھے ہوئے شکارنامے کو حرف بحرف درست اور بجا تسلیم کریں گے۔ خواہ وہ ساری کتاب من گھڑت ہی کیوں نہ ہو۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 18 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں نے اسی وقت ایک آدمی کو بلا کر بیل گاڑی تیا رکرنے کا حکم دیا تاکہ صبح سویرے کراریہ سے روزانہ ہوکر بارہ میل کے فاصلے پر جھولا بن چلا جاؤں۔ کراریہ سے جھولا بن تک کا راستہ وادیوں، نالوں او رندیوں کے علاوہ گھنے جنگل اور دشوار گزار علاقوں سے گزرتا ہے۔ جھولا بن خود ایک گھنے جنگل کا نام ہے، جس کے ایک کنارے پر اسی نام کی مختصر سی آبادی ہے۔ اس جنگل میں بعض مقامات اتنے گھنے ہیں کہ درختوں کی ایک دوسرے سے ہم آغوش شاخوں اور پتیوں نے سورج کی حیات بخش کرنوں کو زمین تک پہنچنے سے قطعی روک دیا ہے۔ ان درختوں کے نیچے کانٹے دار جھاڑیاں پھیل ہوئی ہیں۔ یہاں سانپوں کی بھی کثرت ہے اور سانپ بھی ایسے زہریلے کہ ان کا کاٹا پانی نہیں مانگتا۔ جھولا بن گاؤں اور جنگل کے درمیان ایک ندی شمالاً جنوباً حد فاصل بناتی گرزتی ہے اور شاید اس ندی کی وجہ سے ہی گاؤں کے لوگ سانپوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ ویسے بھی میں نے گاؤں کی جانب ندی کے کنارے کبھی سانپ نہیں دیکھا۔ اس کے برعکس ایس اکبھی نہیں ہوا کہ میں جھولا بن والے کنارے پر گیا ہوں اور دوچار سانپ یا ایک دو ناگ نظر نہ آئے ہوں۔
دورسے دن صبح سویرے میں اپنی جیپ گیرج میں لے جارہا تھا اور بیل گاڑی تیار کھڑی تھی کہ وہ تینوں انگریز آگئے۔
’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
میں نے جواب دینے سے پہلے جیپ گیرج میں رکھی، دروازے بند کرکے قفل لگوایا اور پھر ان کی طرف متوجہ ہوا:
’’یہاں سے بارہ میل دور ایک دوسرے گاؤں میں قیام کروں گا۔‘‘
’’اگر آپ چاہیں تو شکار کے لئے یہیں ٹھہرے رہیں‘‘ وہ بولا ’’ہم لوگ دوچار روز آرام کریں گے۔ آپ آدم خور کی ہلاکت کے لئے کوشش دیکھیں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔شکریہ۔۔۔‘‘
میں نے اپنی بندوقیں گاڑی پر رکھوائیں۔ ملازم کو گاڑی پر پشت کی طرف منہ کرکے بٹھایا اور خود گاڑی بان کے بالکل پیچھے سامنے کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔ کراریہ سے نکل کر بیل گاڑی جھولار بن کی طرف چل دی، مجھے لوگ بتاچکے تھے کہ ان شیروں نے ایک دفعہ ایک ساتھ بیلوں پر حملہ کرکے بیلوں اور گاڑی پر سوار ایک شخص کو کھالیا تھا اور یہ بات بعید ازقیاس بھی نہیں، کیونکہ ظاہر ہے کہ چار شیروں کی شرکت ان کی ہمت اور جرأت میں غیر معمولی اضافے کا باعث ہوئی ہوگی لیکن دن کے وقت ان شیروں کے نکل کر گاڑی پر حملہ آور ہونے کا مجھے قطعی یقین نہیں تھا ۔تاہم آدم خور شیروں کی کسی عادت یا کسی حرکت کا یقینی طو سے تعین ممکن نہیں بلکہ اکثر آدم خور شیر بالکل خلاف عادت و امید حرکات ہی کرتے ہیں اور یہی ان کی کامیابی کا باعث ہوتاہے۔ اگر ان کی حرکات ایک عام شیر کی سی ہوں تو آدم خوروں کو ہلاک کرنا کوئی مشکل بات نہ ہو اور ان کا انسان کو مارلینا دشوار ہوجائے۔
کراریہ سے چار پانچ میل دو رجانے کے بعد گاڑی کا راستہ ایک عمیق پہاڑی نالے کے کنارے کنارے کئی میل تک چلا گیا ہے اور پھر مشرق کی طرف گھوم کر نالے سے علیحدہ ہوگیا ہے۔ نالے کے کنارے کنارے انجیر اور شہتوت کے درخت سایہ کئے ہوئے ہیں۔ ان درختوں کے سائے میں ہی کنارے سے کوئی تین چار گز ہٹا ہوا بیل گاڑی کا راستہ ہے۔ راستے کے دوسری جانب بھی انجیر، شہتوت اور آدم کے درخت ہیں اور کوئی سو گز اسی طرح درختوں اور جھاڑیوں کے سلسلے کے بعد پہاڑ ہیں، جن کا سلسلہ خدا جانے کہاں تک پھیلا ہو اہے۔ گاڑی کے راستے دونوں طرف جھاڑیاں تو ضرور ہیں لیکن اتنی گھنی نہیں کہ کوئی جانور چھپ سکے۔(جاری ہے )