سانحہ ساہیوال ۔۔۔لمحہ فکریہ
ساہیوال کا دلخراش سانحہ اپنی نوعیت کا ایک ایسا سانحہ ہے جس نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو دکھی کردیا ہے ،ایسا سانحہ جس کا خیال آتے ہی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ،ایسا سانحہ جس میں زندہ بچ جانے والی بچیوں اور بچوں کی تصاویر دیکھ کر اپنے بچوں کی صورتیں نظروں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں،ایسا سانحہ جس نے دنیابھر میں پاکستان کو تماشا بنا کر رکھ دیا ،سنگدلی کی ایسی واردات جس پر انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتاہے ،نہ درد وغم کے اظہار کے الفاظ ملتے ہیں ،نہ تسلی کے کلمات سمجھ میں آتے ہیں ۔کئی دنوں سے اس سانحہ پر کچھ لکھنے کا سوچ رہا ہوں، لیکن مَیں جب قلم کاغذہاتھ میں لیتا ہوں تو ہمت جواب دے جاتی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔اس واقعہ کی چونکہ ویڈیوز بن گئیں،اس واقعہ میں بچے اور فیملی ساتھ تھی اور خوش قسمتی سے دو بچے زندہ بچ گئے، اس لئے اس واقعہ نے سب کی توجہ حاصل کرلی،ورنہ ہزاروں ایسے لوگ ہیں،جنہیں جعلی مقابلوں کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
کتنے ایسے گھرانے ہیں، جن کے چراٖغ گل کردئیے گئے، لیکن نہ کوئی صدائے احتجاج بلند ہوئی نہ کوئی تحقیق وتفتیش ہوئی ،خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا۔اس میں دورائے نہیں کہ اگرکوئی شخص کسی بھی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے،دہشت گردی کی کارروائیوں کا حصہ ہے ،کسی ملک دشمن نیٹ ورک سے تعلق رکھتاہے تو اسے سزاملنی چاہیے، کڑی سزا ملنی چاہئے، لیکن کسی ثبوت کے بغیر ،کسی قسم کی عدالتی کارروائی کے بغیر ،جرم ثابت کیے بغیر جعلی پولیس مقابلے کرکے لوگوں کو مار ڈالنا ،مہینوں مہینوں لاپتہ رکھنا ایسا جرم ہے،جس کا تصورکرکے ہی انسانیت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔بدقسمتی سے یہ اندھیرنگری عرصے سے جاری ہے۔ ساہیوال کے سانحہ کے بعد قومی سلامتی کے اداروں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ اندھیر نگری اب ہر قیمت پر ختم ہونی چاہئے ،ظلم وجبر کا یہ انداز کسی طور پر بھی ملک وملت کے حق میں نہیں ،یہ ملکی سلامتی کی ضمانت نہیں،بلکہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازش ہے۔یہ انداز ملک کے بہتر اور محفوظ مستقبل کا عنوان نہیں،بلکہ لوگوں کو بغاوت اور سرکشی پر اکسانے کا سبب ہے۔
سی ٹی ڈی ہو یا قومی سلامتی کے دیگر ادارے، ان اداروں اور عوام کے درمیان عدم اعتماد ،دوریوں کی خلیج اور نفرتوں کی دیواروں کا کھڑا ہونا بہت بڑا المیہ ہے، جس کے بطن سے کئی سانحات جنم لیتے ہیں، جن میں سے بہت سے ہم بھگت چکے اور مزید ایسے کسی سانحے کے متحمل نہیں، اس لئے جس قدر جلدی ہوسکے اداروں پر عوام الناس کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں اس وقت عدم تحفظ،خاص طور پر اداروں کے باے میں شکوک وشبہات اور گلے شکووں کی جو فضا پیدا ہوگئی ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے۔ہم مذہبی لوگ ،مساجد ومدارس سے تعلق رکھنے والے اورداڑھی پگڑی والے عرصے سے ساہیوال جیسے سانحات کا شکار ہورہے ہیں اور کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے مختلف علاقوں سے ہمیں ایسی اطلاعات اور شکایا ت موصول نہ ہوتی ہوں۔ ساہیوال جیسے سانحات کا شکار ہونے والوں کو جن کا سامنا کرناپڑتا ہے ،کسی کا بچہ لاپتہ ہوگیا ،کسی کے عزیز کو جعلی مقابلے میں مار دیا گیا ،کسی کو گمنام نمبر سے کال آئی او راپنے فلاں عزیز کی گولیوں سے چھلنی نعش وصول کرنے کا کہہ دیا گیا۔
جو مار دئیے جاتے ہیں وہ تو چلو غمِ زندگی سے ہی نجات پاتے ہیں ،لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ بعض اداروں میں تعینات ہونے والے اہلکار بعض اوقات رشوت کے لئے ، مسلکی او رفرقہ وارانہ اختلاف کی بنیاد پر اور کبھی کسی اور وجہ سے لوگوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ان کے نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیتے ہیں،ابھی حال ہی میں ہمارے اسلام آباد میں مقیم ایک دوست،جو ملک وملت کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں، محض باریش ہونے کے جرم میں جائیداد وزمین کے تنازعہ اور مالی لین دین کی بنیاد پر ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا۔اسی طرح کتنے مدارس ایسے ہیں جن پر محض اس لئے چھاپے مارے جاتے ہیں کہ اہل علاقہ کی نظروں میں انہیں مشکوک ثابت کیا جائے ،ان پر لوگوں کا جو اعتماد ہے،اسے مجروح کیا جائے ،کئی شخصیات کے خلاف محض اس لئے پرچے درج کیے جاتے ہیں اور دیگر انتقامی کارروائیاں کی جاتی ہیں تاکہ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جاسکے ۔یہ ایک ایسا معاملہ اور ایسا مسئلہ ہے جس کا ہر پہلوافسوسناک ،جس کی ہر داستان دلخراش اورجس سے جڑی ہرواردات قابل مذمت ہے ۔
سانحہ ساہیوال کے بعد جو چیز سب سے زیادہ درد والم اور دکھ درد کا باعث بنی، وہ حکومتی طرز عمل ہے ۔ایک طرف بعض وزیر جھوٹی پریس کانفرنسیں کررہے ہیں ،مضحکہ خیز الزامات لگا رہے ہیں ،مقتولین کا داعش اور دہشت گردی سے تعلق جوڑ نے کی کوشش کررہے ہیں اور دوسری طرف متاثرین کو امدادی رقوم دی جارہی ہیں۔ان بچوں کو جن کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیاگیا،ان کو پھولوں کے گلدستے پیش کرکے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے۔ہر وزیر کا بیان دوسرے سے جدا ہے،صدر اور وزیر اعظم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کے بجائے روایتی رد عمل دینے سے کام لے رہے ہیں اور محض صدمے کااظہار کرکے جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ساہیوال کے سانحہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اگر اس معاملے کو اب بھی سنجیدگی سے نہ لیاگیا ،
عدل وانصاف اور قانون کی بالا دستی کو یقینی نہ بنایا گیا،آئے روز عوام الناس اور اداروں کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریوں کو کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی ،جزا وسزا کا متوازن نظام تشکیل نہ دیا گیا ، کسی بھی قسم کی وردی والوں اور کسی بھی عہدے پر فائز لوگوں کے ا حتساب کا کوئی پیمانہ نہ بنا تو ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ جن شدید خطرات سے دوچار ہوجائیں گے،ان کا تصور تک نہیں کرسکتے،اس لئے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ،عسکری ادارے ،پولیس ،سی ٹی ڈی ،اپوزیشن ،مذہبی جماعتیں اور زندگی کے تمام شعبوں کے وابستگان کوئی ایسا ضابطہ اخلاق تشکیل دیں جس کے ذریعے ملکی سلامتی کا تحفظ بھی یقینی بنایا جاسکے،دہشت گردی کا قلع قمع بھی کیا جاسکے ،جرائم پیشہ عناصر کو بھی کوئی رعایت نہ ملے،کسی کوبیرونی قوتوں کا آلہ کار بننے کی چھوٹ نہ ملے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگوں کی زندگیاں، عزتیں اور ساکھ بھی کسی خطرے سے دوچار نہ ہو اور خوف وہراس ،عدم تحفظ اور عدم اعتماد کی جو فضا ہے یہ بھی اعتماد،یکجہتی اور سکون میں تبدیل کی جاسکے۔