ڈولفن فورس کا المیہ
پنجاب میں ڈولفن پولیس کا وجود خطرے میں ہے۔ اس فورس کو سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ جہاں کچھ لوگ اس کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں وہاں اکثر اس سے نالاں ہیں۔ ڈولفن پولیس سے غیرمطمئن ہونے والوں میں پنجاب کے آئی جی پولیس جناب امجد جاوید سلیمی بھی شامل ہیں جنہوں نے اس کی تربیت کے احکامات جاری کئے ہیں۔سلیمی صاحب پروفیشنل پولیس افسر ہیں۔ پہلو میں دردمند دل رکھتے ہیں۔ پولیس کی طویل سروس بھی ان کی حس مزاح کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ وہ لطیفہ سن کر زور کا قہقہہ لگاتے ہیں۔ خود اچھا لطیفہ سناتے ہیں اور لوگوں کا لطیفہ بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ چند برس پہلے ہم ان کے ساتھ ماڈل ٹاؤن پارک میں سیر کرتے تھے۔ ہمارے ایک دوست انتہائی زوروشور سے سیر کرتے تھے۔ سیر کرتے ہوئے اتنا زور لگاتے تھے کہ ایڑی سے چوٹی تک پسینے میں شرابور ہو جاتے تھے۔ ان کی ٹی شرٹ پر پسینہ ہی پسینہ ہوتا۔مگر دوستوں کو دیکھ کر محبت سے بے قابو ہو جاتے اور انہیں زور سے گلے لگاتے اور یوں اکثر احباب ان کے پسینہ سے بری طرح متاثر ہو جاتے۔ امجد سلیمی صاحب نے ان صاحب کو چوہدری پسینہ کا نام دے رکھا تھا۔ سیر کرتے ہوئے وہ دور سے ہی چوہدری پسینہ کو دیکھ لیتے اور ٹریک سے اتر کر چل پڑتے۔ ان کی اس ’’دوراندیشی‘‘ کی وجہ سے باقی بھی چوہدری پسینہ کی پسینہ سے شرابور محبت سے محفوظ رہتے۔ سیر کرتے ہوئے انہوں نے ایک مرتبہ ایک صاحب سے پوچھا کیا ہو رہا ہے؟ جواب ملا کہ سیرسور ہو رہی ہے۔ اس پر سلیمی صاحب نے برجستہ کہا ’’شکر ہے سورسیر نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
جسٹس کیانی نے اپنی کتاب کے ٹائٹل میں بتایا تھا کہ جج قہقہہ بھی لگا سکتا ہے۔ امجد سلیمی صاحب سے ملاقات ہوتو پتہ چلتا ہے کہ آئی جی کے قہقہہ لگانے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے اور پولیس کی نوکری چہرے کو ہمہ وقت سنجیدگی اور غصے کی وردی پہنائے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔ ہمارے خیال کے مطابق اچھے دوست وہ ہوتے ہیں جو دوستوں کو گمراہی کے مشورے دینے سے باز نہ آئیں۔ کیونکہ ان مشوروں پر عمل بہرحال دوستوں نے اپنے ’’رسک‘‘ پر کرنا ہوتا ہے۔ چند روز قبل پتہ چلا کہ امجد سلیمی صاحب لندن جا رہے ہیں۔ ہم نے فون کر کے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی غفور رحیم ہے اور انسان کو بار بار لندن جانا نصیب نہیں ہوتا۔ ہمارے زیرلب مشورے پر انہوں نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔ ہمیں یقین تھا کہ لندن میں بھی وہ صرف قہقہہ ہی لگا سکتے ہیں۔ اللہ نے انہیں ہر طرح کے سیکنڈل سے محفوظ رکھا ہے اور ان کے لئے دعا بھی یہی ہے کہ وہ حاسدوں کے حسد سے محفوظ رہیں۔
پنجاب میں ریگولرفورسز کے علاوہ ڈولفن پولیس کی طرز پر متعدد فورسز قائم کی گئی ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ ناکام رہی ہیں۔ ہمارے ایک تجربہ کار پولیس افسر دوست کے مطابق ان فورسز کے اکثر جوانوں کو SOP کا ہی پتہ نہیں ہوتا۔ ان پر یہ واضح نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا؟ عوام کو بھی یہ بتانے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ متعلقہ فورس ان کے لئے کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی۔ لاہور میں ان فورسز کی ناکامی کی وجہ اکثر یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان کے جوان اکثر اپنے اصل فرائض کوبھول کر نوجوان جوڑوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ چند برس پہلے ہمارے ایک دوست کو اپنی ہی فورس کے جوانوں نے اپنی ہی بیوی کے ساتھ ’’غیرشرعی حرکات‘‘ کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ عورت تین دفعہ قبول کہے تو وہ قانونی، اخلاقی اور مذہبی طور پر بیوی بن جاتی ہے۔ مگر اس دن بیوی کے تین درجن مرتبہ بتانے پر بھی فورس کے جوان قائل نہیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ انہیں نکاح نامہ دکھا دیں۔ انہیں بتایا گیا کہ کوئی شخص بھی اپنا نکاح نامہ اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔ اس پر فورس کے اہلکاروں نے کہا کہ وہ ان کے ساتھ گھر چلتے ہیں اور ان کا نکاح نامہ دیکھ لیتے ہیں۔ فورس کے جوانوں کے نرغے میں گھر جانا اور وہاں جا کر اپنا نکاح نامہ دکھانا خاصا واہیات کام تھا۔ انہوں نے جیب سے پرس نکالا اور ایک ہزار کا نوٹ نکال کر متعلقہ اہلکار کو دکھایا۔ متعلقہ اہلکار نے کہا کہ اگر ان نوٹوں کی تعداد دو کر دی جائے تووہ نہ صرف ان کے نکاح کو تسلیم کر لیں گے بلکہ اسے سلامی سمجھ کر قبول بھی کر لیں گے۔
چند ہفتے پہلے ہمارے ایک انتہائی قابل احترام صحافی دوست نے بتایا کہ ایک اعلیٰ ادارے میں زیرتعلیم ان کا بیٹا گھر آ رہا تھا۔ ان کے بیٹے سے غلطی سے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھ گئی اور یوں ایک چھوٹا سا حادثہ ہو گیا۔ کچھ دیر بعد جوان آ گئے۔ بیٹا صدمے کی کیفیت میں تھا۔ جوان اس کی مدد کرنے کی بجائے اس کا منہ سونگھنے پر اصرار کر رہے تھے۔ معاملہ اس وقت طے ہوا جب بیٹے کی جیب سے پانچ ہزار روپے متعلقہ اہلکار کی جیب میں منتقل ہوئے۔ ہمارے دوست کے مطابق ان کا انتہائی متحمل مزاج بیٹا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے بلک بلک کر رو رہا تھا۔چند ماہ قبل ایک یونیورسٹی کی طالبہ بتا رہی تھی کہ اس نے ٹرپ پر جانا تھا۔ علامہ اقبال ٹاؤن سے وہ صبح پانچ بجے یونیورسٹی جانے کے لئے نکلی۔ گھر سے کچھ دور اس کے رکشے کو ڈولفن کے دو جوانوں نے روک لیا۔ ان کا اصرار تھا کہ وہ گھر سے فرار ہو رہی ہے۔ طالبہ کے بقول خاصی زیادہ منت سماجت کے بعد اسے یونیورسٹی آنے کی اجازت ملی۔بدقسمتی سے لاہور میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لوگ شکایت نہیں کرتے کیونکہ ہمارا معاشرہ مدعی کی بجائے اکثر ملزم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
سلیمی صاحب سے ہماری استدعا ہے کہ ڈولفن فورس کے لئے انہوں نے تربیت کے جو احکامات جاری کئے ہیں اس میں فورس کے جوانوں کو بتایا جائے کہ ان کے اصل فرائض کیا ہیں۔ ہمیں بھی جوڑوں کے غیرشرعی حرکات کرنے پر تشویش ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر ڈولفن فورس سے یہی کام کرانا ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ڈولفن فورس کا آئیڈیا ترکی سے آیا تھا۔ ترکی کے مسلمان اکثر سرعام ایسی حرکات بھی کرتے ہیں جو ہمارے ہاں خلاف شرع ہیں۔ ترکی میں ڈولفن فورس اسے نظرانداز کرتی ہے۔ سلیمی صاحب نے ڈولفن فورس کے عوام کے ساتھ رویئے کو بہتر بنانے کے لئے نئی مرحلہ وار تربیت کا آغاز کیا تھا۔ اس تربیت سے یہ امید وابستہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ ڈولفن فورس کے جوان بہتر انداز میں اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔ پاکستان میں اکثر لوگ اپنے آپ کو اپنے کام کی بجائے دوسروں کے کام کے ماہرین سمجھتے ہیں۔ یہ کلچر ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ ڈولفن فورس کی تربیت اس کلچر کے خاتمے کے سلسلے میں ایک اچھا آغاز ثابت ہو سکتی ہے۔