ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا میچ

ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا میچ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پنجاب کی سیاست کو باریکیوں کے ساتھ سمجھنے والی ایک اہم شخصیت، جس کی برطانیہ میں گہری جڑیں ہیں، نوازشریف کی سیاست کے صدقے واری جارہی ہے، حالانکہ وہ مخالف پارٹی میں ہیں، ان کے دل سے نکلی آواز کانوں کو بجاکر گزرگئی۔ گویا ہوئے: ”نوازشریف نے آرمی ایکٹ کی بلامشروط حمایت کرکے اپنی سیاست اور خاندان دونوں کو بچالیا ہے“۔ وہ کیسے؟ ”وہ ایسے کہ اب دونوں بھائیوں کی اولاد خوش ہے، چھوٹا بھائی واری واری جارہا ہے۔ اس شخصیت سے ملاقات کے بعد لندن میں اور رابطہ کاروں سے بات چیت ہوئی۔ وہاں سے مخبر کی خبریں کچھ یوں ہیں: شہبازشریف ایک ہوٹل میں بہت مصروف دن رات گزار رہے ہیں۔ ہرکارے آجارہے ہیں اور پیغام رسانی جاری ہے۔ حتمی منظوری ایون فیلڈ سے آئے گی۔گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ نوازشریف سے ایک اہم ترین شخصیت کی ملاقات کے بعد معاملات کو حتمی شکل مل جائے گی، پھر شہبازشریف کو مکمل با اختیار کردیا جائے گا…… اِدھر وطنِ عزیز میں کھلبلی مچ چکی ہے۔

لڑنے والے ذمہ لینے سے معذوری ظاہر کرچکے اور یہ بات بہت سے باریک کانوں نے سْن بھی لی ہے۔ اب وہ اپنی اپنی راہ لینے لگے ہیں۔ تحریک انصاف سے بھی کچھ اونچی نیچی آوازیں سنائی دینے لگی ہیں۔ ایک ہرجائی (فواد چودھری) نے تو خیر ہر حد پار کرلی اور اپنی سی بات کردی ہے۔ کل کلاں وہ بہت آرام سے دو قدم پیچھے ہٹ کر کہہ سکتا ہے: ”مَیں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا“…… کچھ ایسے ہی اور ہیں جو دل وجان سے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں، لیکن ”کواکب ہیں کچھ نظر آتے ہیں کچھ“۔ اتحادیوں میں ایم کیو ایم نے تو شاید آخری حدیں بھی عبور کرلی تھیں،مگر اب سنا ہے کہ کچھ شرائط مان لی جائیں گی۔ بی این پی مینگل والے پوری طرح علیحدہ نہیں ہوں گے، چھوٹے موٹے کام کرواتے اور منہ بسورتے نظر آئیں گے۔


سب سے اہم اور توانا اتحادی مسلم لیگ (ق) نے تو ابھی ”پارٹی“ شروع کی ہے۔ فروری میں معاملات کامل علی آغا کی خبر کے مطابق طے ہونے جارہے ہیں۔ لندن میں کسی کی ملاقات ہوسکتی ہے، جس میں معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ پنجاب کی حکمرانی کا فیصلہ فروری مارچ میں حتمی صورت اختیار کرسکتا ہے اور مسلم لیگ(ق)، مسلم لیگ(ن) کی مستقبل میں اہم اتحادی جماعت بنتی نظر آرہی ہے۔ لندن سے مخبر کے مطابق نوازشریف، پرویز الٰہی کو شاید وزیراعلیٰ نہیں دیکھنا چاہتے، لیکن دونوں جماعتوں کے مستقبل میں سیاسی اتحاد پر انہیں کوئی اعتراض نہیں، اس صورت حال میں چودھری نثار ایک بار پھر منظر پر آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میاں نوازشریف نے شہبازشریف کو وفاق کی بجائے پنجاب سنبھالنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

وفاق میں وہ شاہد خاقان عباسی کے حق میں ہیں، لیکن شہبازشریف، بھائی جان کو منانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں ……مخبر کے مطابق چودھری نثار مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) اور ”اْن“ کے لئے قابل قبول ہوسکتے ہیں، تاہم چودھری نثار کی طرف سے ابھی تک کوئی اشارہ نہیں ملا۔ اگر چودھری نثار پر اتفاق نہ ہوا تو پھر کوئی تیسرا، جس پر چودھری پرویز الٰہی کو بھی اعتراض نہ ہو، وزیراعلیٰ کا امیدوار ہوگا…… ملک کے دو صوبے آئندہ سیاسی منظر میں بہت فعال اور متحرک ہوں گے…… کراچی اور پنجاب…… یوں سمجھئے عمران خان کی حکومت کے خلاف سرگرم محاذ اِن دو علاقوں سے اْبھریں گے۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی والے شاید اس قدر فعال نہ ہوں، جتنے ایم کیو ایم اور جی ڈی اے والے ہوسکتے ہیں۔


پنجاب میں پی ٹی آئی کے اندر بھی بہت بڑی پھوٹ کروٹیں لے رہی ہے۔ تحریک انصاف فروری اور مارچ کے دوران ایک کٹے ہوئے کیک کی صورت میں نظر آئے گی۔ علیم خان اربوں روپے کی سرمایہ کاری سے بنائے ہوئے اپنے سیاسی اثاثے کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں، ان کے پاس ڈیڑھ درجن کے قریب لوگ موجود ہیں، وہ ان دنوں پنجاب کے ”حکومت گھر“ میں بھی ملاقاتیں اور صلاح مشورے کرتے نظر آرہے ہیں، ساتھ ہی چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ملاقاتیں بھی کررہے ہیں، اْدھر ان کا رابطہ لندن میں بھی ہے۔ اب یہ ”اثاثہ“ کس کی گود میں جائے گا؟ مہینے ڈیڑھ مہینے میں فیصلہ ہوجائے گا…… مولانا فضل الرحمان مارچ کے قریب پھر سے نمودار ہوں گے، وہ اپنی طاقت مجتمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ملین مارچ کے تسلسل کو بڑھائیں گے، حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ میں ان کا بھی کردار بھاری بھرکم ہوگا، لیکن ”بارگیننگ“ کا کردار اب ان کے پاس نہیں ہوگا، وہ بھی شہبازشریف کی طرف ہی دیکھیں گے……اگر اتنا کچھ ہونے والا ہے اور اس کی خبر راقم دے رہا ہے تو کیا وزیراعظم پاکستان اس سے بے خبر ہیں ……؟ نہیں! ہرگز نہیں۔ بہت کچھ ان کے علم میں ہے، بلکہ کچھ زیادہ ہی ہے، کیونکہ لانے والوں نے کہہ دیا ہے کہ”بس بھئی بس“ اب آگے کا سفر آپ کو اپنے بل بوتے پر کرنا ہے، اگر سنبھل گئے تو ساتھ چلے گا، ورنہ مشکل ہوجائے گا۔ اس وقت سے وزیراعظم کے ہاتھوں کے توتے اْڑے ہوئے ہیں اور عالمِ پریشانی میں بہت کچھ بول بھی جاتے ہیں۔ واقفانِ حقیقت سب دیکھ رہے ہیں، اسی لئے اپنی اپنی راہ بھانپنے میں مصروف ہیں۔


عمران خان چونکہ کہتے ہیں کہ وہ ہار ماننے والے نہیں، اس لئے انہوں نے اندر کی بجائے اب باہر کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ کچھ تو محض بھرم کے لئے، لیکن بہت کچھ وہ مدد کے حصول کے لئے کررہے ہیں، یعنی ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔اپنے برادر نسبتی کے ذریعے برطانیہ دورے کے لئے رابطے کررہے ہیں اور اس میں کامیابی کے بھی قوی امکان ہیں۔ بورس جانسن کے ساتھ ملاقاتیں بھرم دکھانے کے لئے بھی ہوں گی اور ساتھ کچھ کردار ادا کرنے کا بھی کہا جائے گا۔ڈیووس میں بھی وہ کوشش کر چکے ہیں کہ اپنا بھرم رکھ سکیں اور ساکھ کو بحال کرسکیں، لیکن مخبر کا کہنا ہے کہ کوئی بیرونی امداد شاید کام نہ آئے۔ اندرونی حالات اس قدر خرابی کی طرف گامزن ہیں کہ کسی کا سہارا کام آنا شاید بہت مشکل ہو…… لانے والوں نے نفسیات پر خصوصی توجہ دی ہے اور نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرسٹریشن میں عمران خان کوئی انتہائی اقدام اٹھانے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں، اس لئے اردگرد کے ماحول کو زیادہ سے زیادہ گرم کردینے سے حبس بڑھ جائے گا،پھر محض سانس لینے کی خاطر کچھ دھڑام سے ٹوٹ بھی سکتا ہے…… اور یہ طریقہ بہت کارگر ہوگا۔ بدانتظامی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، جس کے نتیجے میں عوامی غیظ وغضب ایک فطری تقاضا ہوگا،پھر اس صورت حال کو ہوا بھی دی جائے گی۔ پارٹی کے اندر پریشانی دن بدن بڑھے گی۔ یہی ماحول درکار ہوگا جس کا آغاز ہوگیا ہے۔ ٹوئنٹی ٹوئنٹی کا میچ شروع ہوا چاہتا ہے۔ کون ہوش اور کون جوش سے کھیلے گا، کس کی شارٹ سب سے اونچی ہوگی اور کون پہلی یا پھر تیسری بال پر آؤٹ ہوجائے گا؟ آئندہ تین مہینے بہت اہم ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -