علامہ اقبال کا یہ مجسمہ بنانے والے کاریگروں کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا، لیکن کاریگر کون ہے؟ جان کر آپ بھی جذبے کو داد دیں گے

علامہ اقبال کا یہ مجسمہ بنانے والے کاریگروں کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا، ...
علامہ اقبال کا یہ مجسمہ بنانے والے کاریگروں کا سوشل میڈیا پر مذاق بن گیا، لیکن کاریگر کون ہے؟ جان کر آپ بھی جذبے کو داد دیں گے
سورس: Twitter

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سوشل میڈیا پر شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا ایک مجسمہ بنانے والے کاریگروں کا مذاق بنایا جارہا ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ کسی ماہر مجسمہ ساز کا تخلیق کیا گیا شاہکار نہیں بلکہ مالیوں کی مفکر پاکستان سے عقیدت کا اظہار ہے۔

لیلیٰ طارق نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے گلشنِ اقبال پارک میں نصب علامہ اقبال کے مجسمے کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس مجسمے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے لیکن یہ علامہ اقبال جیسا بالکل بھی نہیں لگتا۔

لیلیٰ طارق کی یہ پوسٹ چند گھنٹوں میں ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ۔ کچھ لوگ اقبال کے مجسمے پر کی گئی ناقص کاریگری پر تنقید کرنے لگے تو بعض نے کاریگروں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔

عوامی تحریک کے صدر خرم نواز گنڈا پور یہ مجسمہ دیکھتے ہی غصے میں آگئے اور فوری طور پر اس کو ہٹانے کا مطالبہ کردیا۔

خاتون پولیس آفیسر آمنہ بیگ نے مزاحیہ انداز میں کہا کہ انہیں صرف اس بات پر اعتراض ہے کہ اقبال کا ہاتھ ان کے کندھوں کی بجائے سینے سے باہر آرہا ہے۔ اس پر چوہدری مصطفیٰ نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ میری بہن چادر لینے کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہاتھ چھاتی سے نکل رہا ہے۔‘

کامیڈین مصطفیٰ چوہدری نے اقبال کے اس مجسمے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس مجسمہ ساز کے ہاتھ غلطی سے مجسمہ بنانے سے پہلے ہی کاٹ دیے گئے تھے۔

اسد نے کہا ’ جو حال لاہور کے ایک پارک میں اس مجسمہ ساز نے علامہ اقبال کے ساتھ کیا ہے وہی حال خان صاحب اس ملک کے ساتھ کر رہے ہیں، علامہ صاحب ہم شرمندہ ہیں۔‘

بلاگر عدنان خان کاکڑ نے لکھا ’ علامہ اقبال اپنے مبینہ خواب کی تعبیر دیکھ کر دم بخود رہ گئے، غالباً یہ تباہ کن تعبیر دیکھنے کے بعد اب وہ شاہین اور گھوڑوں کے چکر سے نکل کر مہاتما بدھ کی تعلیمات سے متاثر ہو چکے ہیں، گندھارا ہیئر کٹ سے تو یہی لگ رہا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کے اس مجسمے پر تنقید اور مزاح کا طوفان بپا ہے لیکن یہ مجسمہ آج نصب نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کے 73 ویں یوم آزادی پر لگایا گیا تھا۔ یہ مجسمہ پارکس اینڈ ہارٹیکلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) کے مالیوں نے علامہ اقبال سے اظہار محبت کیلئے اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ اس حوالے سے اگر آپ گوگل پر اردو میں ’علامہ اقبال مجسمہ‘ سرچ کریں گے تو 14 اگست 2020 کی خبریں آپ کے سامنے کھل جائیں گی جن میں اس مجسمے کا حوالہ ملتا ہے۔

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ مالیوں نے اس مجسمے کی تیاری میں کوئی سرکاری فنڈز استعمال نہیں کیے بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت سکریپ وغیرہ سے یہ مجسمہ تخلیق کیا تھا۔ اگر یہ کسی ماہر مجسمہ ساز نے تخلیق کیا ہوتا تو اس کی کاریگری پر تو اعتراض اٹھایا جاسکتا تھا لیکن درجہ چہارم کے ملازمین کی علامہ اقبال سے اس عقیدت کو داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔