شوہر اور بچے تحریک ِ آزادی کے لئے قربان
تحریک آزادی کشمیرکو بھارتی افواج کے مظالم کمزور کر سکے نہ موسم کی سختیاں
یہ لہو چھپائے نہ چھپے گا
آزادی کی یہ تحریک دبائے نہ دبے گی
تحریک آزادی کو بھارتی افواج کا ظلم کمزور کر سکا نہ ہی موسم کی سختیاں اس کے آڑے آسکیں۔ کشمیر ی عوام اس صدی کے سب سے بڑے ظلم کا شکار ہیں۔پوری دنیا اس وقت کورونا وبا کی زد میں ہے، مہلک وائرس کی دوسری لہر شدت کے ساتھ جاری ہے۔ کورونا وبا کے باعث دنیا کو تحریک آزادی کشمیر کا احساس ہوا ہے کیونکہ دنیا کے کئی ممالک کو اس وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔دنیا بھر میں کورونا وائرس سے 20لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ایسے میں مقبوضہ جموں کشمیر میں بھی صورتِ حال کچھ مختلف نہیں اور مقبوضہ وادی میں بھی لاک ڈاؤن جیسی صورتِ حال ہے۔
5اگست 2019ء کے بھارتی اقدام اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے تحریک آزادیِ کشمیر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی۔ یہ اقدامات تحریک کو کچلنے اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے کو مزید مستحکم کرنے کی عملی کوششوں کا حصہ ہیں، لیکن جس طرح کشمیریوں نے اس کی سخت مزاحمت کی ہے اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بھارت کے یہ اقدامات اس کے گلے کا طوق بن کر رہ جائیں گے۔
5فروری پاکستان میں قومی تعطیل کا دن ہے۔ اور اس دن یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے۔ پانچ فروری کے یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت جاننے کے لئے تحریک آزادی کے پس منظر کو جاننا ضروری ہے۔
13جولائی 1931ء کو سری نگر جیل کے احاطے میں کشمیریوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں 22مسلمان شہید اور 47زخمی ہوئے۔اس واقعہ پر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے کشمیر کمیٹی قائم کی اور کمیٹی کی سربراہی شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو سونپی گئی۔ نومبر 1931ء کو تحریک احرار نے مسلح جد وجہد اور سول نافرمانی کے ذریعے جموں و کشمیر کو آزادی دینے کا مطالبہ کیا۔ 1934ء میں پہلی بار ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ 1946ء میں قائد اعظمؒ نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سری نگر کا دورہ کیا، جہاں قائد نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔
جولائی1947ء کو سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی گئی، لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو مولانا فضل الٰہی وزیر آباد کی قیادت میں 23اگست 1947ء کو نیلا بٹ کے مقام سے مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دیا اور ہندوستان کی فوجوں کو کشمیر میں آنے کی دعوت دی، کیونکہ ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت گورداس پور کا علاقہ ہندوستان کو دے دیا گیا جو ہندوستان کو کشمیر سے ملانے کا واحد راستہ تھا،لہٰذا ہندوستان نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں،چنانچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بہت سے مسلح مجاہدین بھی کشمیر پہنچ گئے، جنہوں نے کشمیریوں کی مدد سے موجودہ آزاد کشمیر کا علاقہ آزاد کروایا۔ممکن تھا کہ مجاہدین سارا کشمیر آزاد کروا لیتے، لیکن بھارت جنگ بندی کے لئے فوراً یو این او پہنچ گیا۔
اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروا دی، بھارت نے مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے سے حل کرنے کا وعدہ کیا،لیکن بھارت اپنے وعدے سے مسلسل مکرتا رہا اور ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان دو بڑی جنگیں 1965ء اور 1971ء میں لڑی گئیں، جن کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی بازو ہم سے جدا ہو گیا۔ کشمیریوں نے اپنی آزادی کی جدو جہد جاری رکھی اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب کشمیریوں نے مسلم متحدہ محاذ کے نام سے ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تا کہ اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد بھارت سے علیحدگی کی قرار داد پاس کر سکیں، لیکن بھارت نے مسلم متحدہ محاذ کی واضح انتخابی جیت کو دیکھتے ہوئے الیکشن کو سبوتاژ کر دیا، نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیری عوام نے سیاسی محاذ کو چھوڑتے ہوئے 1989ء میں مسلح جد و جہد کا آغاز کر دیا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان گزشتہ 73 برس سے بھارت کے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر میں بے شمار شہداء کا لہو شامل ہے۔خواتین نے اپنے شوہر اور بچے اس آزادی کی تحریک کے لئے قربان کر دئیے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کو ان کا حق ِ خود ارادیت نہیں ملا جو ان کا حق ہے، جس کو بھارت نے بھی تسلیم کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 5جنوری 1989ء کو لاہور میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لئے ایک ماہ کا وقفہ دے کر 5فروری 1989ء کو ہڑتال کی اپیل کر کے یوم کشمیر منانے کا فیصلہ کیا۔ پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد نواز شریف اور بعد میں وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس کی تائید کی۔ 1989ء کو یوم یکجہتی کشمیر پہلی بار اور1990ء کو تمام سیاسی اختلافات کو پس ِ پشت ڈال کر پوری قوم نے یہ یوم بھرپور انداز میں منایا۔
پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت اپنے عوام کو ساتھ لے کر ہر سال 5فروری کو یوم یکجہتی منا کر دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جموں کشمیر کے عوام اپنا حق…… حق ِ خودارادیت مانگ رہے ہیں، جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ پیغام صاف الفاظ میں پہنچایا جا رہا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ انصاف کے حصول میں اس جدوجہد میں اکیلے نہیں، بلکہ پاکستان اور پاکستانی عوام کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یوم یکجہتی کشمیر پر سیمینار منعقد کئے جاتے ہیں انسانی زنجیر بنا کر عالمی قیادت کے ضمیر کوجھنجھوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھارت کے سفارت خانے میں یادداشت پیش کی جاتی ہے، جس میں جموں کشمیر میں جاری بھارتی ظلم و جبر کو اُجاگر کیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں کو 73 سال سے جاری غاصبانہ تسلط کے بارے میں آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989ء سے اب تک بھارت نے تقریباً 1لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا، ہزاروں خواتین کے سہاگ اجڑ گئے، لاکھوں بچے یتیمی کی زندگی بسر کر رہے ہیں،لاکھوں لوگوں کے سر سے چھت چھن گئی، سات لاکھ بھارتی افواج مسلسل کشمیریوں کا قتل عام کر رہی ہیں، حریت کانفرنس کی قیادت کو اکثر نظر بند کیا جاتا ہے، خواتین کی عصمت دری اورانسانی حقوق کی پامالی کی جاتی ہے۔
کشمیری عوام اس وقت مشکل ترین حالات سے گزر رہے ہیں ایک طرف کرفیو ہے اور دوسری جانب کورونا وبا کی تلوار لٹک رہی ہے۔کرفیو کے باعث لوگ گھروں میں محصور ہیں۔خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ اس کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلہ پہلے سے بھی زیادہ بلند ہیں۔
تاہم وہ دن دور نہیں جب مقبوضہ وادی کے مسلمانوں کو بھارتی تسلط سے آزادی ملے گی۔
کیونکہ بقول شاعر
یاراں جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت
جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی
٭٭٭