دوحہ معاہدے کا احترام، امن کے لئے ضروری
نیٹو حکام نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج مئی کی ڈیڈ لائن کے بعد بھی افغانستان میں رہیں گی کیونکہ انخلا کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ نئی امریکی انتظامیہ کے غور کے بعد انخلا کی زیادہ بہتر حکمت عملی آ سکتی ہے۔ فروری کے اجلاس میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلا کی صورت حال پر بات ہو گی۔ دوسری طرف ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ افغان انتظامیہ دوحہ معاہدہ ختم کرانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کے لئے افغان حکومت نے بھارت سے بھی رابطے کئے ہیں جو نہیں چاہتا کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد ہو اور اس نے معاہدہ منظر عام پر آتے ہی سپائلر کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا۔ افغان حکومت معاہدے کے خاتمے کا سارا الزام طالبان پر لگانے کی تیاری کر رہی ہے اور کابل میں تشدد کے جو واقعات ہو رہے ہیں ان کا ذمے دار طالبان کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں طالبان نے خبردار کیا ہے کہ اگر ڈیڈ لائن کے بعد بھی غیر ملکی افواج افغانستان میں موجود رہیں تو غیر ملکی فوجیوں پر حملے بھی ہو سکتے ہیں۔ طالبان صرف اس وقت تک حملے نہ کرنے کے پابند ہیں جب تک ڈیڈ لائن موجود ہے اس کے بعد اگر حملے ہوں گے تو ذمہ داری ان عناصر پر ہو گی جو افغانستان میں اپنی افواج کے قیام میں توسیع کے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔
دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے نے افغانستان میں قیام امن کے جو امکانات روشن کئے تھے، اب ان پر شکوک و شبہات کے سائے پھیلنا شروع ہو گئے ہیں اور جب سے نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے امورِ مملکت کی باگ ڈور سنبھالی ہے ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ وہ معاہدے پر نظرثانی چاہتے ہیں اور افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کے لئے اس امر کی یقین دہانی کے خواہاں ہیں کہ ملک میں تشدد کی وارداتیں کم ہو جائیں لیکن کیا کابل میں تشدد روکنا طالبان کی ذمہ داری ہے یا حکومت کو بھی اس سلسلے میں کوئی اقدامات کرنے ہیں؟افغان انتظامیہ نے بین الافغان مذاکرات کے آغاز میں غیر معمولی تاخیر کی اور یہ کسی نہ کسی بہانے سے ٹالے جاتے رہے جو امور ان مذاکرات میں طے ہونے ہیں وہ نہیں ہو سکے لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ افغانستان میں جو لوگ برسراقتدار ہیں وہ ملک کے وسیع تر مفادات کی بجائے اپنے آپ کو پیشِ نظر رکھ رہے ہیں اور آئندہ تشکیل پانے والے سیٹ اپ میں اپنے اقتدار کی ضمانت ان کی اولین ترجیح معلوم ہوتی ہے لیکن طالبان کا خیال ہے کہ جو قوتیں اپنے ملک سے غیر ملکی فوجیں نکالنے کے لئے برسرِ پیکار تھیں اور جو غیر ملکی افواج کی سرپرستی میں اقتدار کے تخت پر بیٹھی تھیں وہ برابر کیسے ہو سکتی ہیں اور آئندہ انہیں اقتدار کی ضمانت کیونکر دی جا سکتی ہے؟ افغان انتظامیہ کو یہ تو بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اسے اپنی حکومت برقرار رکھنے میں مشکلات پیش آئیں گی اس لئے ان کی بھی کوشش ہے کہ جو فوج افغانستان میں موجود ہے وہ اپنی روانگی میں تاخیر کر دے۔ بظاہر افغان انتظامیہ کو اسی میں کامیابی نظر آتی ہے اور اس منصوبے میں (مبینہ طور پر)بھارت بھی اس کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ طالبان کی حکومت میں اس کے لئے افغانستان میں کھل کھیلنے کے مواقع دستیاب نہیں ہوں گے۔
اس وقت بھارتی قونصل خانے ان دہشت گردوں کی کمین گاہیں بنے ہوئے ہیں جنہیں تربیت دے کر پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔ ان کے بارے میں تفصیلی معلومات پاکستان نے اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی فورموں کو مہیا کر دی ہیں جن چینلوں سے فنڈز اور اسلحہ ان دہشت گردوں کو پہنچایا جاتا ہے ان کی نشاندہی بھی ہو چکی ہے، یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ داعش اور بھارتی حکومت بھی اس معاملے میں ایک صفحے پر ہیں۔ بھارت کو معلوم ہے کہ اگر افغانستان میں حالات نے پلٹا کھایا اور جو لوگ آج برسراقتدار ہیں وہ منظرِ عام سے ہٹ گئے تو طالبان کے اقتدار میں ان کے لئے پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے وہ یہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی بھی طریقے سے افغانوں کو اپنے باہمی معاملات طے کرنے کے قریب نہ پہنچنے دیا جائے اور کسی نہ کسی طرح اس مرحلے کو طول دیا جائے تاکہ امریکہ کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ تشدد کے ذمہ دار طالبان ہیں اور اگر امریکی افواج واپس چلی گئیں توا س میں اضافہ ہوگا۔
طالبان کا موقف ہے کہ وہ دوحہ معاہدے پر ہر صورت عمل چاہتے ہیں اور افغانستان میں ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ غیر ملکی افواج پروگرام کے مطابق واپس جا سکیں۔ طالبان اس عرصے میں غیر ملکی افواج پر حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں البتہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر غیر ملکی فوجیں پروگرام کے مطابق واپس نہ گئیں تو پھر اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ ان پر حملے نہیں ہوں گے۔ اس لئے اگر غیر ملکی افواج اپنے قیام میں توسیع کرتی ہیں تو کابل میں تشدد بڑھے گا تاہم بہت سے ایسے عناصر بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ افغان انتظامیہ کا مفاد اسی میں ہے کہ غیر ملکی افواج اپنے قیام میں توسیع کر دیں اور وہ اس کے لئے راہ ہموار کر رہی ہے۔ بھارت کی مدد بھی اس کے لئے طلب کی گئی ہے لیکن خطے کا مفاد اس میں ہے کہ غیر ملکی افواج انخلا کی ڈیڈ لائن کا احترام کریں اور افغانوں کو اپنے امور خود طے کرنے دیں۔ بیس سال طویل مدت ہوتی ہے اس عرصے میں اگر غیر ملکی افواج وہاں امن قائم نہیں کر سکیں تو اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ اگلے دوچار سال میں ایسا ہو جائے گا اس لئے بہتر طرزِ عمل یہی ہے کہ سارے فریق دوحہ امن معاہدے کا احترام کریں اور اس پر پوری طرح عمل کریں اپنی کوتاہ نظری سے ملک کا امن داؤ پر نہ لگائیں ورنہ امن کا قیام خواب و خواہش ہی رہے گا اور خون پہلے کی طرح بہتا رہے گا۔ غیر ملکی اگر اس پہلو پر غور نہیں کرتے تو افغانوں کو بہرحال اپنا مفاد عزیز ہونا چاہیے۔