روشنی  طبع کی سزا

روشنی  طبع کی سزا
روشنی  طبع کی سزا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا کہ بے حسی شرط ہے جینے کے لئے اور ہم کو احساس کی بیماری ہے، جینا شرط ہے اور احساس جینے نہیں دیتا اور انسان ساری عمر اِسی ایک ذہنی عذاب کا شکار رہتا ہے ہمارا معاشرہ اخلاقی لحاظ سے انتہائی پستی کا شکار ہے اس کا اظہار ہر جگہ ہوتا ہے اس لئے احساس اور شعور کی سزا سے بچنا کافی مشکل ہے۔ فارسی کے ایک شاعر نے کہا تھا کہ اے روشنیئ طبع توبر من بلاشدی۔ میں طالب علم تھا تو کچھ خاندانی الجھنوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گیا۔ علاج کیلئے ممتاز ڈاکٹر عالمگیر سے مشورے کے لئے لاہور پہنچا۔ ڈاکٹر عالمگیر میو ہسپتال میں سینئر سپیشلسٹ تھے اور صدر کے معالج بھی رہے انہوں نے ہی بھٹو دور میں وزیر صحت شیخ رشید کو دواؤں کی جنرک سکیم کا آئیڈیا دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے فزیکل معائنے کے بعد پوچھا کہ آپ فارسی جانتے ہیں میں نے کہا کہ جی ہاں کچھ شُد بُد ہے۔ انہوں نے روشنی ئ طبع والا مصرح پڑھا اور پوچھا کہ اس کا مطلب سمجھتے ہیں میں نے اثبات میں سر ہلایا تو انہوں نے کہا کہ یہی آپ کی بیماری کی تشخیص ہے آپ کو کوئی جسمانی بیماری نہیں لہٰذا سوچنا بند کریں اور اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیں۔ 


جوں ہی آپ گھر سے نکلتے ہیں تو اذیت کا یہ معاملہ پوری شدت سے سامنے آتا ہے ٹریفک میں جس بدتہذیبی اور قانون کی خلاف ورزی سے واسطہ پڑتا ہے اس سے انسانی ذہن پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے۔ میڈیکل سائنس میں ڈرائیونگ میں گزارا ہوا وقت صحت کیلئے منفی کے زمرے میں آتا ہے۔ ٹریفک بہت بڑھ چکی ہے اور اس کے ساتھ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی بھی۔ایسے لگتا ہے اس معاملے کو سنبھالنے والا کوئی نہیں۔ اگر آپ اشارے پر کھڑے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ کئی لوگ سرخ اشارے کی خلاف ورزی کرکے نکل رہے ہوتے ہیں جب اشارہ کھلتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ بائیں ہاتھ چوتھی لائن میں کھڑی گاڑی آپ کے سامنے سے گزر کر دائیں ہاتھ مڑ جاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ انتہائی دائیں لین میں جانے والا پیچھے سے آنے والوں کی کوششوں سے بالکل متاثر نہیں ہوتا حتیٰ کہ آپ خود بائیں جانب سے نکل جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹریفک پولیس اس معاملے میں بالکل غیرجانبدار ہے کیونکہ ٹریفک ریگولیٹ کرنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ 


آجکل اُردو زبان کی جو درگت بنائی جا رہی ہے وہ بھی بڑی اذیت ناک ہے۔ ہماری نئی نسل تو انگریزی پڑھتی ہے اُردو سے وہ تو ویسے ہی دور ہو چکی ہے لیکن اُردو میڈیم لوگ بھی اُردو کے ساتھ جو سلوک کر رہے ہیں وہ حیران کن اور افسوسناک ہے۔ ٹیلی ویژن چینلز پر آپ گفتگو سنیں تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں لیکن صرف ٹی وی چینلز تک معاملہ محدود نہیں پارلیمنٹ میں چلے جائیں یا کسی اور فورم پر اس پر اتفاق رائے ہے کہ اُردو کا کوئی جملہ صحیح نہیں بولنا چیدہ چیدہ اینکر ایسے ہیں جو زبان میں مونث مذکر یا جمع تفریق کا خیال رکھتے ہیں اگر آپ سیاستدانوں کو سنیں کہ امریکہ کہتی ہے، الیکشن کمیشن کہتی ہے، سپریم کورٹ کہتا ہے، اس طرح کے جملے سُن کر آدمی سر پکڑ لیتا ہے۔ایک اور لفظ ”اندر“  بہت مقبول ہے۔ مثلاً پارلیمنٹ میں یہ مسئلہ زیربحث نہیں آیا۔ اس کی جگہ کہا جاتا ہے پارلیمنٹ کے اندر یہ مسئلہ زیربحث نہیں آیا۔ کلاس میں استاد نے سوال پوچھا۔ یہ ہو گا کلاس کے ”اندر“ استاد نے سوال پوچھا غرض ”میں“ کا لفظ متروک ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ”اندر“استعمال ہو گا۔ پھر ”جو ہے“ کا استعمال شروع تو غالباً خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ نے کیا تھا لیکن اب یہ ایکسپریشن بہت مقبول ہو گیا ہے۔کوئی جملہ ”جو ہے“ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا بعض لوگ تو ایک جملے میں دو یا تین دفعہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ 


ہم سب الحمدللہ مسلمان ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نماز اور داڑھی کے علاوہ عملی زندگی میں اسلام کے کسی اصول کا سراغ نہیں ملتا۔ جھوٹ اور بددیانتی ہماری قومی شناخت بن چکی ہے لیکن کسی پارٹی یا تنظیم نے ان چیزوں کے خلاف کبھی کوئی مہم نہیں چلائی اب تو ماشاء اللہ وزیراعظم ریاست مدینہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن معاشرتی زوال دیکھ کر یہ دعویٰ کچھ مذاق لگتا ہے۔ سیاسی میدان میں جتنا جھوٹ آجکل بولا جا رہا ہے شاید پہلے کبھی نہیں بولا گیا۔ سب پارٹیوں کے لوگ بڑی تعداد میں صبح شام پورے خلوص اور جوش و خروش سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بدلنے اور ریکارڈڈ خیالات سے بالکل متضاد مؤقف رکھنا قطعاً معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ سیاسی مخالفت میں کسی مذہبی یا اخلاقی اصول کا قطعاً خیال نہیں رکھا جا رہا اور المیہ یہ ہے کہ ہمارا سیاستدان یا تاجر نہیں بلکہ دانشور اور مذہبی طبقہ بھی اِسی رنگ میں رنگا جا چکا ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ ہمارے نبی ؐ کی پہچان ہی صادق اور امین تھی لیکن اُن کی اُمت میں جھوٹ اور بددیانتی اس قدر کیسے سرائیت کر گئی ہے۔


غرض کس کس بات کا رونا روئیں میں اکثر کہتا ہوں کہ ملک چھوڑ کر باہر جا بسنے  والوں کو کافی قیمت دینی پڑتی ہے اپنے ملک میں زندگی آرام سے گزرتی ہے لیکن اب میں سوچنے لگا ہوں کہ اپنے ملک میں رہنے کی بھی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے البتہ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ملک چھوڑنے والا زیادہ قیمت ادا کرتا ہے یا ملک میں رہنے والا۔کسی نے صحیح کہاتھا کہ Life is an Incureable disease.
پچھلے دنوں یکے بعد دیگرے دو دوستوں ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور رؤف طاہر کا اچانک انتقال ہو گیا۔ ڈاکٹر مغیث الدین سے یونیورسٹی کے زمانے سے دوستی تھی۔ رؤف طاہر صاحب سے اگرچہ تعلق پرانا نہیں تھا لیکن اُن میں یہ خوبی تھی کہ وہ ملنے والوں کو جلد اپنا بنا لیتے تھے۔تقریباً سال پہلے انہوں نے میری کتاب ”پی ٹی وی میں مہ و سال“ پر بڑا خوبصورت کالم لکھا پھر اُن سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آئندہ جب آپ لاہور آئیں گے تو ظفر علی خان ٹرسٹ کی تقریب میں آپ کو خطاب کی دعوت دی جائے گی لیکن اس سے پہلے وہ چل بسے اب اُن کی کمی محسوس ہوتی رہے گی۔

مزید :

رائے -کالم -