میرے کپتان تھوڑی سی توجہ چاہئے
حال ہی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن میں شعبہ زچہ وبچہ، طب کے انٹرویو ہوئے۔ ان کا نتیجہ حسب ِ معمول وہی نکلا جو سب امیدواران کو پہلے سے ہی معلوم تھا۔ پولیس، کسٹم کے بڑے افسران کی بیٹیوں اور بالخصوص میڈیسن کے ایک پروفیسر کی بیٹی کو سلیکٹ کرلیا گیا جو کسی طور میرٹ پر پورا نہیں اترتی تھی۔ صرف یہی نہیں۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار جان بوجھ کر ایک امیدوار کو خوش کرنے کے لئے شعبہ امراض چشم وومن کوٹہ کے تحت پروفیسر کی ایک سیٹ پر انٹرویو کرکے پرائیویٹ میڈیکل کالج کے تجربہ کی حامل ڈاکٹر کو 20ویں گریڈ کی سیٹ طشتری میں رکھ کر پیش کردی گئی۔سرکار کے اسپتال میں ایک دن بھی کام نہ کرنے والی ڈاکٹر کو 20ویں گریڈ میں ریگولر پروفیسر آف آفتھلمولوجی تعینات کر دیا گیا۔
ایک بات یہ ناچیز سمجھنے سے قاصر ہے جب پنجاب کے میڈیکل کالجوں میں اوپن میرٹ ہے اور کسی بھی پرائیویٹ ادارے کے امیدوار کا تجربہ سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے کے برابر نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی ہاؤس جاب کے لئے پرائیویٹ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اہل ہوتے ہیں تو پھر یہاں پبلک سروس کمیشن میں یہ کھلا تضاد کیوں؟ کیسی اندھیر نگری ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں سرکار کے اسپتالوں کے مقابلے میں ڈبل تنخواہ لے کر کم وقت، کم مریض، کم کام، کم آپریشن کرنے والے لوگوں کو سرکار کے ہسپتالوں میں ریگولر جاب دینا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ تو کئی سال سے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے فرنٹ لائن وارئیرز کے ساتھ سرا سر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔یہ حق تلفی اور ان کے ارمانوں کا خون نہیں تو اور کیا ہے؟ لیں جی اس زیادتی کے بعد ایک اور کہانی بھی سن لیں۔ کچھ عرصہ پہلے شعبہ جراحی میں پنجاب پبلک سروس کمیشن اور محکمہ صحت کا 30 لیڈی ڈاکٹروں کو سینئر رجسٹرار و اسسٹنٹ پروفیسر سلیکٹ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ حیرت ہے۔ مرد ڈاکٹر جو ہمیشہ بہترین سرجن کے طور سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ایک خاص سکیم کے تحت ان کو ڈی گریڈ کیا جا رہا۔ سوال یہ ہے؟ کیا مرد ڈاکٹروں کو نکمے نکھٹو قرار دے دیا جائے؟ کیسا دور آ گیا ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں اوپن میرٹ پر بھی خواتین سلیکٹ اور وومن کوٹا پر بھی خواتین سلیکٹ۔
ویسے خاکسار اس اڑائی گئی بے پرکی کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں کہ کورونا جیسی خدائی آفت میں دیوانہ وار کام کرنے والی سینئر ترین پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ وزیر صحت پنجاب خاتون ہونے کے ناتے خواتین ہی کو آگے لانا چاہتی ہیں: کیونکہ خواتین ڈاکٹر کسی بھی ہڑتال یا منفی سرگرمی کا حصہ نہیں بنتیں۔ ان کے خیال میں مرد ڈاکٹر انارکی پھیلانے کا موجب ہیں۔ خواتین کو زیادہ سے زیادہ آگے لانے سے حکومت سکھی ہو جائے گی۔ اس طرح آئے روز ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی ہڑتال کے باعث ہسپتالوں کو بند کرنے والے عناصر کا قلع قمع کرنا بھی ممکن ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا اس بات میں کوئی صداقت ہے اور اگر ہے تو پھر اس منصوبے کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بات یہ نہیں کہ لیڈی ڈاکٹر نکمی ہوتی ہیں۔ بات اصول اور حقائق کی ہے۔
خواتین ڈاکٹرامن و امان اور سیکیورٹی کی وجہ سے رات کی ڈیوٹی کرنے سے اجتناب کرتی ہیں۔ و ہ شعبہ جراحی کے مرد مریضوں کو چیک کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی ہیں۔ آئے دن خواتین کے بچوں اور والدین کا بیمار ہونا لگا رہتا ہے اس کے ساتھ 3 ماہ کی میٹرینٹی لیو بھی ضروری ہے۔ اب ہو کیا رہا ہے۔ خواتین کے لامتناہی مسائل سے انتظامی امور متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات ہر شعبے کا ڈاکٹر جانتا ہے کہ کون کتنا قابل ہے۔ کون کتنے پانی میں ہے۔ کس کی کتنی تعلیمی قابلیت ہے۔ کس نے کہاں کام کیا۔ وہ کس عہدے کے لئے اہل ہے۔ اگر پنجاب پبلک سروس کمیشن میں کوئی نکما، نااہل سلیکٹ ہو کر آجائے تو سب ہی حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ جی یہ تو فلاں صاحب کے سفارشی ہیں۔ اس سارے کھیل میں اہل ڈاکٹر تو ہر طرف سے دکھ جھیل ہی رہے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ مریض سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر ایک طرف تو پنجاب پبلک سروس کمیشن کے زیر عتاب ہیں تو دوسری طرف وہ ایڈہاک ازم کی بھینٹ چڑھ کر 10،10 سال سے ڈیلی ویجز کی طرح نوکری کررہے ہیں۔ ان کا تجرباتی سرٹیفکیٹ کوڑے میں پھینکنے کے مترادف ہے۔ ان کا ریگولر ہونا تو اب ایک خواب سا ہے۔اور جو ریگولر ہو کر اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر کورونا سے نبرد آزما ہیں ان کا بھی کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ ڈاکٹروں کی اکثریت 19 ویں گریڈ میں ریٹائر ہو جاتی ہے۔ ان کے پروموشن کے DPC اجلاس ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مجال ہے کسی کو بھولے سے بھی خیال آئے۔ بڑی عجیب بات۔ جب ڈاکٹروں کی فائل دفتر داخل کرنے والے آفیسرز ہسپتال کی ایمرجنسی میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا ہو کر پہنچتے ہیں تو یہی بدبخت ڈاکٹر ہی ان کے کام آتے ہیں وہ کبھی نہیں پوچھتے۔ سر آپ نے میری ترقی کے کیس میں ایسا کیوں کیا؟ میری فائل کو کیوں روکا؟ او جی! یہ اپنا پیارا دیس ہی ہے، جہاں ہمارے ہر دلعزیز سرکاری بابوز 22 ویں گریڈ میں ریٹائر ہوتے ہیں اور ڈاکٹر بیچارے ہیلتھ سیکرٹریٹ کے پھیرے لگاتے لگاتے اگلے جہان سدھار جاتے ہیں اور یہ بات بھی 100 فیصد سچ ہے۔ ملک کی 74 سالہ تاریخ میں شاید ہی کوئی خوش قسمت ڈاکٹر ہو، جس نے 22ویں گریڈ کو چھونا تو درکنار اس کا خواب بھی دیکھا ہو، حالانکہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ دنیا کے تمام کورسز میں MBBS سب سے پیچیدہ ترین کورس ہے۔
اب کون جاکر بتائے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے کرتا دھرتاؤں کو جنہیں مرنا یاد نہیں جو مچھر کے پر کے برابر اس زندگی کے لئے ناانصافی کررہے اور آفرین ہے ان ارسطووں کی فوج ظفر موج پر جو ڈاکٹروں کی 15 سالہ محنت کو 15 منٹ کے انٹرویو میں پرکھتے ہیں اس بات میں کوئی شک نہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کا شعبہ صحت میں نئے ہسپتالوں کی تعمیر کا بیڑا اٹھانا۔ ایم ٹی ایکٹ اور پاکستان میڈیکل کمیشن کا قیام۔ پنجاب کے ہر شہری کی ہیلتھ کارڈ تک دسترس ایسے انقلابی اقدام ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے کم، مگر دوسری طرف اس نیک نامی کا دھڑن تختہ کرنے کے لئے پنجاب پبلک سروس کمیشن روز بروز پنجاب حکومت کی بدنامی کا باعث بن رہا۔ہونا تو یہ چاہئے۔ اقربا پروری کے ناسور سے جان چھڑا کر وومن کوٹا کو فی الفور ختم کیا جائے۔تمام تعیناتیاں اوپن میرٹ پر کی جائیں۔ پچھلے 3 ماہ میں ہونے والے انٹرویوز کالعدم قرار دے کر میرٹ کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں اصلاحات لائی جائیں۔عوام اور ماہرین سے اس ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے تجاویز طلب کی جائیں۔ ایسے اصول وضع کئے جائیں کوئی اس ادارے پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ علاوہ ازیں پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ڈاکٹروں کے التوا کا شکار پروموشن کیسز کو جلد نمٹانے کا نظام وضع کیا جائے۔ یاد رہے یہ کریم آف دا نیشن ڈاکٹر ہی ہیں جو نامراد کورونا سے لڑتے لڑتے اپنی جانوں پر کھیل گئے، مگر اُف تک نہ کی۔ اب سوال بڑا سادہ سا ہے۔ یہ تمام دبنگ کام کون کر سکتا ہے؟ میرے خیال میں میرے کپتان عمران خان کی بس تھوڑی سی توجہ چاہئے ان کے لئے یہ کام کوئی کام نہیں۔