تھر کا مسیحا
اس دنیا میں ہر کوئی اپنے کام میں مصروف ہے۔ غربت، افلاس، دکھ اور محرومی کسی کو بھی پسند نہیں۔ سب ان سے بچنا چاہتے ہیں …… سب کو زندگی کی دوڑ میں آگے بھاگنا ہے لیکن اس تیز رفتار معاشرے میں ایک عظیم اور حیرت انگیز شخصیت ایسی بھی ہے،جس نے اپنی زندگی کی دوڑ کے ساتھ ساتھ اوروں کو بھی سہارا دیا۔ ایدھی کے بعد میری نظر میں یہ وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے اپنی زندگی غریبوں اور مساکین کی خدمت میں صرف کی اور ابھی بھی دن رات ان کی زندگیوں میں بہتری لانے کی بھرپورکوششش کر رہے ہیں۔ یہ اور کوئی نہیں، پاکستان کی نامور سماجی شخصیت ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہیں۔
ڈاکٹر صاحب چیف کلکٹر کسٹم ہیں، انہوں نے 23 کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان کی نئی کتاب“حادثہ مسیحا اور زندگی ”چند دن پہلے ہی شائع ہوئی ہے۔ ان کا انسانیت کی فلاح کے لیے جذبہ یقیناً قابل تعریف ہے۔ڈاکٹر صاحب ایک خوش اخلاق شخصیت کے مالک ہیں،ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے، ان کے چہرے پر ایک مسکراہت ضرور ہوتی ہے۔
پانی کو ترستے تھر کے لوگوں کیلئے کنویں بنوانے والے وہ واحد سرکاری افسر ہیں جو مخیر حضرات کی مدد سے خدمت خلق کر رہے ہیں۔ تھر کی قسمت بدلنے کے لیے ان کا سماجی خدمت کا کام بھی ایک دلچسپ واقعے کے ساتھ شروع ہوا۔ جون 2014ء میں تھر میں ایک خوفناک قحط آیا تھا۔ اس قحط کے باعث بہت ہلاکتیں ہونا شروع ہوئی تھیں، کبھی بچے تو کبھی بوڑھے …… ہلاکتوں کی خبریں تیزی سے آ رہی تھیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بہت ساری این جی اوز نے تھر کا رخ کیا۔ انسانیت کی خاطر ڈاکٹر آصف محمود جاہ بھی اپنے ساتھ چند لوگوں کو لے کر تھر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنا کیمپ لگایا اور لوگوں کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت جو بھی این جی اوز آئی تھیں، انہوں نے آ کر گنتی کے لوگوں میں راشن تقسیم کیا، ان کی تصویریں لیں، اپنا فوٹو سیشن کیا اور چلتے بنے۔
اسی دن ظہر کے وقت ڈاکٹر صاحب ہندوؤں کے گوٹھ میں اپنا میڈیکل کیمپ لگا رہے تھے۔ نماز پڑھنے کے بعد انہیں پانی کی طلب ہوئی۔ جب پانی کی تلاش شروع ہوئی تو انہوں نے تین چار لوگوں سے پانی کا پوچھا کہ اتنے میں ایک بوڑھا ہندو ان کے پاس آیا اور کہنے لگ گیا کہ سائیں پانی نہیں ہے۔ یہاں سے دس کلومیٹر دور ایک کنواں ہے، ہماری عورتیں صبح سے گئی ہوئی ہیں،پانی بھر کر لائیں گی تو ہم پانی پئیں گے۔ گاڑیاں کیونکہ ان کے پاس موجود تھیں تو انہوں نے سوچا عورتوں کا کیا انتظار کرنا، جا کر خود کنواں دیکھتے ہیں۔ جب وہ اس مقام پر پہنچے تو واقعی تقریباً دس کلومیٹر دور ایک میٹھے پانی کا کنواں تھا۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے دل ہی میں دعا کی کہ یا اللہ لاہور سے یہاں تک فلاح کے کام کے لیے آئے ہیں، اگر یہاں دو تین کنوئیں بھی بنا لیں تو بہت بڑی بات ہوگی۔ اسی وقت ڈاکٹر صاحب نے اپنے ایک دوست کو کال کی، انہوں نے بھی فوری طور پر دو کنوؤں کے پیسے بھیج دیئے، بس پھر ڈاکٹر صاحب کی محنت اور اللہ کا کرم کچھ ایسا ہوا کہ دو سے چار، چار سے پچاس، پچاس سے سو، سو سے پانچ سو کنوئیں ہو گئے۔ پچھلی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے ایک ہزار کنوؤں کی خوش خبری بھی سنا دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سے جب بھی پوچھیں کہ اتنا زبردست کام آپ نے کیسے سرانجام دیا ہے تو وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں اللہ نے کرا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کام میں اتنی برکت دی کہ ان کے تقریباً 95 فیصد کنوؤں میں سے میٹھا پانی نکلا ہے۔
2018ء میں جب ڈاکٹر صاحب تھر گئے، وہ ایک ریسٹ ہاؤس میں رکے ہوئے تھے۔ تو صبح صبح ایک مسجد کے مولوی صاحب آئے اور انہوں نے عرض کی کہ سائیں میری دس ایکڑ زمین ہے اور ہمارے پاس پانی نہیں ہے۔ اگر آپ پانی کا بندوبست کر دیں تو یہ زمین آباد ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا خرچہ معلوم کر کے کام شروع کر دیا۔ اسی نیک عمل کے ساتھ انہوں نے تھر گرین پروجیکٹ شروع کر دیا۔ گرین فارم کچھ ایسے شروع ہوئے کہ جس بندے کی زمین ہے، اس سے یہ لوگ ایک معاہدہ لکھواتے ہیں کہ تیس سے چالیس فیصد جو گندم، سبزیاں یا چارہ ہوگا وہ خود رکھے گا اور بقایا سارا وہ اسی گوٹھ کے لوگوں میں تقسیم کر دے گا۔ اس سے یہ ہوا کہ ایک پورا گوٹھ غذائی ضروریات میں خود کفیل ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بلا تفریق کام کیا ہے۔ تھر کی آبادی میں 60 فیصد ہندو ہیں اور 40 فیصد مسلمان، لیکن ڈاکٹر صاحب نے کبھی کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا۔
ان کا اس بات پر ایمان ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی، اس نے گویا ساری انسانیت کو بچایا۔ میری دل سے دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر آصف جاہ کے کام میں اور برکت ڈالے اور انہیں سماجی خدمات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے۔ ڈاکٹر صاحب کو “ستارۂ امتیاز“تو مل گیا ہے اور اب 23 مارچ کو“ہلال امتیاز”بھی مل جائے گا۔ڈاکٹر آصف جاہ کی سماجی خدمات کا دائرہ کافی عرصے سے بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا ہے۔ویسے تو اس مرد درویش کیلئے کوئی دنیاوی اعزاز زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، پھر بھی دنیا بھر میں ان کے مداح اس بات کے متمنی ہیں کہ ان کی خدمات کا عالمی سطح پر بھی اعتراف ہونا چاہیے، ویسے وہ وقت دور نہیں جب ڈاکٹر آصف جاہ نوبل پرائز جیسے اعزازات کے لیے نامزد کیے جائیں گے، ان شاء اللہ۔