سینیٹ، متعدد ترمیم بل متعلقہ کمیٹیوں کے سپرد، پیمرا ترمیمی بل مسترد ہونے کیخلاف صحافیوں کا واک آؤٹ
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر، نیوز ایجنسیاں) ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت تلاوت قران پاک سے شروع ہو ا سینیٹ سے گزشتہ ہفتے کارکن صحافیوں کی تنخواہوں اور کنٹریکٹ سے متعلق پیمرا ترمیمی بل 2020ء مسترد ہونے کیخلاف صحافیوں کا احتجاجا پریس گیلری سے واک آؤٹ،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پی آر اے کے مطالبہ پر صحافیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قانون سازی کے معاملہ پر پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی رولنگ دیدی،اس موقع پر چیئرمین قائمہ کمیٹی انسانی حقوق سینیٹرمصطفی نواز کھوکھر نے دوران تفتیش جاں بحق ہونیوالے افراد سے متعلق بل پیش کیا،سینیٹر مہرتاج کے بل کوشیریں مزاری نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سلسلہ میں ایک کمیٹی بن چکی ہے اور اگر کمیٹی اس پر فیصلہ کرے تو آسان ہو گا۔سینیٹر پروفیسر مہرتاج نے کہا کہ کمیٹی میں بل گیا تھا اور میرا تجربہ ہو چکا ہے کہ کمیٹی سے بل واپس بھی آجائے تو ایوان میں مخالفت کر دی جاتی ہے،جبکہ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ یہ بل کمیٹی میں گیا ہی نہیں تو فیصلہ کیسے آ گیا۔ایوان بالا کے پیر کو اجلاس میں سینیٹر جاوید عباسی نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ معمولی جرائم کے حامل افراد کو بھاری ضمانت کے عوض بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے اور وہ مقدمہ کا فیصلہ آنے تک وہ بھاری رقم پڑی رہتی ہے اور یوں کئی کئی سال تک رقم عدالت میں جمع رہتی ہے،میرے بل میں کہا گیا ہے کہ اگر بینک گارنٹی رکھ لی جائے تو وہ بہتر ہے،جبکہ دوسرے بل پر سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ چیک ایک بطور گارنٹی رکھا جاتا ہے اور پولیس بلیک میل کرتے ہوئے ایسے افراد کو پابند سلاسل کر دیا جا تا ہے اور بل میں کہا گیا کہ ایسے چیک کو پولیس سات دن تک شامل تفتیش کرے اور اس کے بعد مقدمہ کا فیصلہ کیا جائے،تاہم بل کو وزیر مملکت پارلیمانی امور نے کہا کہ اس بل کو متعلقہ کمیٹی میں بھیجا جائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے ایک اوربل پیش کیا کہ کسٹم قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے اور ایسے متعدد کیس ہیں جو نارکوٹیکس کنٹرول میں کیس زیر سماعت ہے اور ایک مقدمہ دو دو عدالتوں میں چلتا ہے اور ایسے قوانین بنائے جائیں کہ تاکہ ایک ہی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ لگتا یوں ہے کہ معزز سینیٹر بل کسی اور کا لیکر آئے ہیں یہ بل ان کا نہیں ہے،اور یہ قانون میں موجود ہے کہ کسٹم ایکٹ کا کیس نارکو ٹیکس عدالت میں ہی چلتا ہے اور وہ کسٹم عدالت میں نہیں ہوتا۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ مجھے خوف رہتا ہے کہ یہاں سے باہر نکلوں تو میری گاڑی سے چھ کلو منشیات نکال لیں،اس موقع پر ایوان میں قہقہ لگا،سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ اس بل کو کمیٹی میں بھیجا جائے۔سینیٹر جاوید عباسی نے سول سرونٹ سے متعلق بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ سرکاری ملازم ایک سیٹ پر کام کرتا ہے اور پھر پروموشن کے سلسلہ میں وہ اپنے ادارہ سے رجوع کرے،لیکن وہ ڈائریکٹ عدالت چلا جاتا ہے اور اس طرح عدالتوں میں بوجھ بڑھتا ہے،وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ میرے خیال میں اس بل کوکمیٹی میں بھیجا جائے تاکہ مزید بہتری کے لیے بات کی جا سکے،چیئرمین سینٹ نے مذکورہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا۔بھٹوں اور فیکٹریز میں بچوں کو مشقت پر رکھنے والے مالکان کے خلاف سزاؤں میں اضافے کا بل پیش،سینیٹ میں بچوں کوبھٹے یا فیکٹری میں مزدوری کے لئے دینے والے والدین اور بچوں کو مزدوری کے لئے رکھنے والوں کے لئے سزائیں بڑھانے کے بل سمیت 5نئے بل پیش کر دیئے گئے، اطفال(لیبر معاہدہ)(ترمیمی) بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ والدین اگر بچے کو مزدوری کے لئے کسی فیکٹری یا بھٹے والے کو دیتے ہیں تو ان پر 25ہزار روپے جرمانہ ہو گا، جو شخص معاہدہ کرائے گا اس پر بھی 25ہزار روپے جرمانہ ہوگا ، فیکٹری والے کو 25ہزار روپے جرمانہ اور اور چھ مہینے سزا ہوگی اور یہی خلاف ورزی دوبارہ کرنے پر دولاکھ جرمانہ اور چھ مہینے سے دو سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔سینیٹر سراج الحق کے بل کو ایک بار پھر ڈیفر کر دیا گیا،چیئرمین سینٹ نے کہا کہ آج بھی تعداد کم ہے کہ اس لیے بل پیش اگر کیا گیا تو پاس نہ ہو سکے گا،میری رائے ہے کہ اس بل کو موخر کر دیا جائے تاکہ جس دن تعداد پوری ہو گی اس دن اس بل کو پیش کیا جائے گا،اور اس موقع پر چیئرمین سینٹ نے کہاکہ ہر سوموار کو سینیٹرز ضرور تشریف لائیں تاکہ زیرالتوا بل پاس کیے جا سکیں۔
سینیٹ
اسلام آباد(آئی این پی)وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے بٹن دبانے سے نہیں ہوتے،سیاست پر بات کروں گا تو بات دور تلک جائے گی،ہم اقتصادی سفارتکاری پر توجہ دے رہے ہیں، آج افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو افغانستان سمیت دنیا تسلیم کررہی ہے،ہم جانتے ہیں کہ کون چاہتا ہے کہ افغانستان سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہوں،کوئی سوچ سکتا تھا کہ آج اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کریں گے،اسرائیل کے وزیراعظم عنقریب یو اے ای کا دورہ کریں گے،سفارتکاری ہر معاملہ میں اپنی من مانی نہیں ہے،کوئی مائی کا لعل کشمیر کا سودا نہیں کرسکتا،سمجھائیے میرے بچے کو ایسے جملے مت ادا کریں جس سے کشمیریوں میں مایوسی پھیلے،،بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوشش کررہا ہے،اپوزیشن ارکان خارجہ پالیسی پر اپنی کہانی سنا کر چلے جاتے ہیں،اپوزیشن ارکان میں ہمیں سننے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے،بھارت کی لائن آف کنڑول پر بلا اشتعال فائرنگ کا معاملہ تمام فورمز پر اٹھایا ہے۔پیر کو سینیٹ میں خارجہ پالیسی پر جاری بحث سمیٹتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے اثرات طویل المعیاد ہوتے ہیں،ہم جہاں آج کھڑے ہیں ہم سے زیادہ وہ ذمہ دار ہیں جو چار چار بار حکومت کر چکے ہیں،ہمارے ایشوز پرانے ہیں، دیکھنا ہوگا کہ خارجہ پالیسی کے مسائل ڈھائی سال میں پیدا ہوئے یہ اس سے پرانے ہیں،خارجہ پالیسی کے فیصلے بٹن دبانے سے نہیں ہوتے،سیاست پر بات کروں گا تو بات دور تلک جائے گی۔
شاہ محمود قریشی