پاک۔ ایران تعلقات: ایک جائزہ (1)

        پاک۔ ایران تعلقات: ایک جائزہ (1)
        پاک۔ ایران تعلقات: ایک جائزہ (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

   حالیہ ایام میں ایران کی طرف سے جنوب مغربی بلوچستان پر جو ڈرون/ میزائل حملہ کیا گیا اور جس میں پاکستانی شہریوں کی اموات بھی ہوئیں اور چند لوگ زخمی بھی ہوئے، یہ شاید ایک لمٹس تھا یہ ٹیسٹ کرنے کے لئے کہ پاکستان اس کا کیا جواب دیتا ہے۔

ایرانی اربابِ اقتدار کا خیال تھا کہ پاک فوج چونکہ آج کل سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اس لئے وہ اس کا فوری جواب نہیں دے سکے گی یا شاید اس ردِعمل میں متامل ہو۔ لیکن ایرانی انٹیلی جنس (ملٹری اور سویلین) کا یہ خیال، خام نکلا اور پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اس پاکستانی حملے میں ایران کے سیستان / بلوچستان علاقے پر پاکستانی میزائل حملے میں 9افراد مارے گئے۔ مارے جانے والے وہ لوگ تھے جو بلوچ علیحدگی پسند کہلاتے تھے۔ ان کو جن قوتوں کی حمائت اور ہمہ جہتی امداد حاصل تھی ان کا علم ہم سب پاکستانیوں کو ہے۔ کلبھوشن کیس تاحال حادثہء فراموش شدہ نہیں بن سکا اور اس حادثے میں ایران کا جو حصہ تھا وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان نے سیستان کے علاقے پر جو فضائی حملہ کیا وہ کسی بھی اعتبار سے ناقابلِ یقین نہیں تھا۔ اس حملے میں جو 9افراد مارے گئے، ان کے بارے میں ایران کے ابلاغی ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایرانی شہری نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں ایران کہہ رہا تھا کہ ہم نے جو حملہ پاکستانی بلوچستان پر کیا اور اس میں جو پاکستانی بچے / لڑکے مارے گئے، وہ پاکستانی شہری تھے۔

جس طرح ہمارے بلوچستان میں ایران کی یہ دراندازی ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں تھی اسی طرح ایرانی علاقے میں پاکستانی جوابی حملے کو بھی ناقابلِ قبول سمجھا گیا۔تاہم ایران کو جو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ اگر شام اور عراق پر حملے کرکے وہاں ایرانی مفادات کو زک پہنچانے والوں کا پیچھا کر سکتا ہے تو پاکستان میں بھی ایسا کر سکتا ہے، وہ بڑی حد تک دور ہو گئی۔ فوراً ہی سفارتی محاذ پر ٹوٹے تعلقات کو جوڑنے کا عمل شروع ہو گیا۔

یہ معاملہ بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ پاکستان اور ایران جو دو برادر مسلم ریاستیں ہیں اور جن کی زمینی سرحدات ایک دوسرے سے ملحق ہیں وہ اگر مثالی دوست نہ بھی بنیں تو مثالی غیر جانبداری کا اتباع تو کرتی رہیں گی۔

ایران اور پاکستان کی تاریخ گزشتہ 76برسوں میں جس نشیب و فراز سے گزری ہے اس کا علم کسی نہ کسی حد تک ہم پاکستانیوں کو ہے۔ جس طرح ایران 1979ء کے اسلامی/ خمینی انقلاب کے بعد اب تک بہت سی گفتنی اور ناگفتہ بہ منازل سے گزر چکا ہے اسی طرح پاکستان بھی 1947ء کے بعد اسی طرح کے مراحل سے گزر کر حالتِ امروز کو پہنچا ہے۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ایک بڑا نقص یہ بھی رہا ہے (اور ہے) کہ اسے مقتدر حلقوں کی وہ پذیرائی حاصل نہیں رہی جو ہونی چاہیے تھی۔ ہم لوگ جہاں اپنے داخلی معاملات میں الجھے رہے ہیں، وہاں ہمارا فرض یہ بھی تھا کہ اپنے علاقائی حالات پر نقد و نظر کرنے کی طرف توجہ دیتے…… نجانے ایسا کیوں نہیں کیا گیا…… اس کے لئے پاکستان کی وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات تینوں قصوروار ہیں۔ حد یہ ہے کہ آج بھی ہمارے ذرائع ابلاغ وہ سیاسی اور عسکری معلومات افشاء کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں جن کے بارے میں ایک عامِ لکھا پڑھا پاکستانی محض ”اندازے“ ہی لگا سکتا ہے، اس سے آگے کچھ نہیں۔ متعلقہ وزارتیں اپنے حال میں مست رہتی ہیں۔ وہ اپنے عوام کو وہ کچھ بتانے سے اجتناب کی پالیسی پر گامزن ہیں جو بتانا چاہیے…… اس روبی کان کو عبور کرنا ایک بات ہے لیکن اس کے بعد جو پیش منظر (Fore front) سامنے کھلتا ہے اس کو دکھانا بھی تو آج کا اولین ابلاغی تقاضا ہے…… ہم بہرکیف اس پر زیادہ کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتے، اس لئے:

گدائے گوشتہ نشینی تو حافظا مخروش

لیکن اِس حافظِ گوشہ نشین کو ”خروش“ کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اسے پاک۔ ایران تعلقات کے ماضیء بعید سے لے کر زمانہء حال تک کے اُن معاملات کی کچھ نہ کچھ خبر ہے جو کبھی براہِ راست وسیلے سے حاصل ہوئے تو کبھی بالواسطہ ذرائع ابلاغ سے……

یادش بخیر، یہ 1960ء کے عشرے کے اواخر کا ذکر ہے مجھے پاک آرمی میں کمیشن ملا تو پہلی پوسٹنگ پنجاب رجمنٹ سنٹر مردان میں ہوئی۔ وہاں ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ ایران کی طرف سے پاک آرمی کے کچھ افسروں کو فارسی زبان پڑھائی جا رہی ہے۔ ملٹری سیکرٹری برانچ GHQکو ٹاسک دیا گیا کہ اُن آفیسرز کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کی زبانِ فارسی سے کچھ آشنائی ہو۔ چنانچہ فوج کے تمام لڑاکا صیغوں (Fighting Arms)اور خدمات (Services) میں سے ایسے 25آفیسرز کی لسٹ بنائی گئی جن کو ایف اے یابی اے میں فارسی زبان کو بطور ایک اختیاری (Elective) مضمون پڑھنے کا تجربہ ہوا ہو۔ اس طرح 25افسروں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا جن کو کراچی میں منعقدہ ایک کورس پر مامور (Detail) کیا گیا جس کا دورانیہ 6ماہ کا تھا۔

اس کی ضرورت فوج کو اس لئے پیش آئی کہ ان ایام میں پاکستان کی آرمرڈ کور میں M-48 اور M-64 ٹائپ کے ٹینکوں کی رجمنٹیں جو امریکہ سے ملی تھیں ان کے انجن پٹرول سے چلتے تھے۔ یہ ٹینک اس دور کی ایرانی آرمی (ارتش) کو بھی سپلائی کئے گئے لیکن تب تک ان کے انجن ڈیزل سے چلنے لگے تھے۔ڈیزل، پٹرول کے مقابلے میں بہت سستا تھا اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے ٹینکوں کے انجن، پٹرول کی بجائے ڈیزل پر شفٹ کر دیئے جائیں۔ یہ ایک ٹیکنیکل ضرورت تھی۔ چنانچہ فوج نے فیصلہ کیا کہ آرمی کے کچھ افسروں کو جدید فارسی زبان کی شُد بُد دے کر ایران روانہ کیا جائے۔ شیراز جو خواجہ حافظ کا مولد و مدفن ہے وہ ایرانی ٹینکوں کا رجمنٹل سنٹر بھی تھا۔ اس سنٹر میں پاکستانی افسروں کو بھیجنے سے پہلے ان کی لسانی تربیت کی ضرورت تھی۔

ہمارے افسروں نے جو فارسی سکولوں اور کالجوں میں پڑھی تھی اس کے لب و لہجہ اور ذخیرۂ الفاظ میں جدید فارسی کے مقابلے میں خاصی تبدیلی آ چکی تھی۔ فردوسی، رومی، سعدی اور حافظ کی زبان جدید فارسی زبان کا سرمایہء ماضی ضرور تھی لیکن مرورِ ایام سے اس میں تبدیلی ناگزیر تھی اور ٹینک تو ایک بالکل جدید ہتھیار تھا اس کی تمام اصطلاحات بھی نئی تھیں جن کا تلفظ ”فارسی زدہ“ بنا دیا گیا تھا۔ لہٰذاGHQ نے فیصلہ کیا کہ پہلے پاکستان میں چند آرمی افسروں کو جدید فارسی اور اس کے جغرافیائی اور تاریخی آثار سے روشناس کروایا جائے  اور بعد میں ان کو ایران بھیج کر M-48قسم کے ٹینکوں کے حصوں پرزوں پر آگہی دی جائے……ان 25افسروں کو پہلے بیچ (Badge) میں انفنٹری، آرٹلری، آرمر، انجینئر، سگنلز اور آرڈننس کے آفیسرز شامل کئے گئے اور اس کورس کے اساتذہ ایرانی ارتش کے حاضر سروس آفیسرز تھے۔

دوسرا بیج بھی 25افسروں پر مشتمل تھا جن میں راقم السطور کا نام بھی شامل کیا گیا۔ چھ ماہ کے دورانیے کا یہ کورس بھی کراچی میں چلایا گیا۔(ستمبر 1969ء تا فروری 1970ء)…… میں اس کورس کا جونیئر ترین آفیسر (سیکنڈ لفٹین) تھا۔ فروری 1970ء  میں جب یہ کورس اختتام پذیر ہوا تو اس کے اختتامی امتحانات (تحریری اور زبانی) میں راقم کو اول آنے کا اعزاز حاصل ہوا۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -