اب پاکستان ناقابل ِ تسخیر بن چکا ہے!
گزارشِ مترجم
اردو زبان میں بالعموم جن موضوعات پر کتابیں شائع ہوتی ہیں، ان میں پالیسی، سٹرٹیجی اور ڈاکٹرین کے موضوعات شاذ و نادر ہی شامل ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ کتاب اپنی طرز کی ایک نئی کوشش ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے انگریزی زبان میں بھی بہت کم پاکستانی مصنفین نے ان بے کیف، مشکل اور پیچیدہ موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔
اس کتاب کا مصنف ڈاکٹر ایس کلیان آرامان (S.Kalyan Araman) نئی دہلی میں ”منوہر پاریکار انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس سٹڈیز اینڈ اینالائسز“ میں ایک نامور ریسرچ سکالر تھا جس کا انتقال اپریل 2021ء میں کووڈ۔19میں چند روز تک مبتلا رہنے کے بعد ہوا لیکن اس سے پہلے وہ اپنی اس آخری تصنیف پر سیر حاصل ریسرچ کر چکا تھا۔ انڈیا کی دفاعی اور سیکیورٹی پالیسیاں اس کا خاص موضوع تھیں۔ وہ کئی برس تک انڈیا کے نیشنل ڈیفنس کالج، آرمی وار کالج، سوشما سوراج انسٹی ٹیوٹ آف فارن سروس اور بھوٹان کے رائل انسٹی ٹیوٹ برائے سٹرٹیجک سٹڈیز میں جا کر لیکچر دیتا رہا۔ اس کی اہلیہ ڈاکٹر پشپیتا داس بھی ان اداروں میں دفاع اور سیکیورٹی کے موضوعات پر جا کر مقالے پڑھتی رہی ہیں۔ ڈاکٹر کلیان آرامان کی اس تصنیف کے علاوہ ان کی اور بھی چند تصانیف، انڈیا کے دفاعی اداروں میں موضوعِ بحث بنتی رہی ہیں اور جیسا کہ کتاب کے عنوان سے ظاہر ہے اس میں نہ صرف یہ کہ انڈیا کی ملٹری سٹرٹیجی پر تفصیلی بحث و مباحثہ کیا گیا ہے بلکہ پاکستان کی طرف سے انڈیا کو جو دفاعی چیلنج 1947ء سے لے کر آج تک درپیش رہے ہیں، ان سے عہدہ برآ ہونے کی انڈین مساعی پر بھی ایک جامع تبصرہ کیا گیا ہے۔
یہ کتاب کوئی اتنی مبسوط اور ضخیم کتاب نہیں۔ اس کے 270صفحات میں سے 70صفحات کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ا س کی وجہ یہ تھی کہ ان 70صفحات میں سے 40صفحات انڈیا اور پاکستان کی دفاعی فورسز کی سال بہ سال ارتقائی منازل کو ایک جدول (Table)کی شکل میں پیش کیا گیا ہے جس سے اردو زبان کے ایک عام قاری کو اتنی زیادہ دلچسپی نہیں اور 30صفحات ایسے ہیں جن میں کتابیات، حوالوں اور حواشی کی تفصیل دی گئی ہے۔ میرے خیال میں اس مواد کی بھی چنداں ضرورت نہ تھی۔یہ ترجمہ میں نے ریسرچ سکالروں کے لئے نہیں بلکہ اردو زبان کے ایک اوسط قاری کی اس موضوع (سٹرٹیجی، ڈاکٹرین اور پالیسی) کے بارے میں معلومات کی عدم رسائی لیکن دلچسپی کو مدِنظر رکھ کر کیا ہے……
ایک توبذاتِ خود یہ موضوع نہائت سنجیدہ بلکہ خشک ہے اور دوسرے اس کی بیشتر لغت، اصطلاحات اور اسلوبِ بیان بہت سے قارئین کے لئے میرے خیال میں بہت حد تک کم دلچسپ ہوگا۔ ہو سکتا ہے میں اس بارے میں غلط ہوں لیکن مجھے بار بار یہ خیال آتا رہا ہے کہ اس کتاب کے اردو ترجمے کو بھی پاکستان آرمی کے موقر تدریسی اداروں میں لائقِ اعتناء سمجھا جائے۔ ہاں البتہ وار کالج یا ایک حد تک کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کے آفیسرز طلباء کے لئے اس میں ایسا مواد ضرور ہے کہ جس کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔ پاکستانی آفیسرز کے لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اگر اردو ترجمے کو بھی دیکھ لیا جائے تو اس میں کیا ہرج ہے؟
فہرستِ مضامین پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ مصنف نے چاروں انڈو۔ پاک جنگوں (1947-48ء، 1965ء، 1971ء اور 1999ء) کو مدنظر رکھ کر انڈیا کے سٹرٹیجک وژن کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان جنگوں میں مصنف نے اگرچہ ایک بڑی حد تک غیر جانبدار رہنے کی کوشش ہے اور پاکستان کے خلاف کسی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ جس جگہ پاکستان نے انڈیا کے خلاف کسی لڑائی (Battle)میں استقلال اور پامردی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کی کھلے لفظوں میں داد دی ہے اور انڈیا کی کمزوری کو بھی کھلے انداز میں موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔تاہم مصنف کا یہ استدلال کہ 1965ء اور 1999ء کی جنگوں میں انڈیا نے ”اٹریشن“ کو بطور ڈاکٹرین استعمال کیا تھا،میری نظر میں نامناسب اور نادرست ہے۔
1965ء کی جنگ میں سیالکوٹ اور لاہور کے محاذوں پر اور 1999ء کی جنگ میں کارگل کی بلندیوں پر پاکستانی ٹروپس نے جس عزم و ہمت کا ثبوت دیا اس کا دبے لفظوں میں اظہار تو کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ ایسا کرنا انڈین آرمی اور ائر فورس کا ایک ”دانستہ اقدام“ تھا جسے مصنف نے ”اٹریشن“سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلیان آرامان نے انڈین آرمی اور ائر فورس کی پاکستان کے مقابلے میں واضح عددی اور اسلحی برتری کا حوالہ دے کر بھی اسے انڈیا کی طرف سے اٹریشن کے ڈاکٹرین کے ”کامیاب استعمال“ کا نتیجہ قرار دیا ہے جو چنداں درست نہیں۔
میرے خیال میں مصنف نے اس کتاب میں سٹرٹیجی اور ڈاکٹرین کی انڈین برتری کو پاکستان کی سٹرٹیجی کے مقابلے میں بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں وہ ناکام رہے ہیں۔
مصنف نے جگہ جگہ بلکہ ہر صفحے پر ”حوالہ جات“ کی بھرمار کر دی ہے۔ انڈین اور غیر ملکی مبصرین اور مصنفین کو جابجا کوٹ کیا گیا ہے۔ لیکن پاکستانی مصنفین کی تحریروں کے حوالے نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہ اس کتاب کی ایک اور بڑی خامی تصور کی جانی چاہیے۔ اردو میں اس کتاب کے ترجمے کی ایک غرض و غایت یہ بھی میرے ذہن میں رہی ہے کہ پاکستانی مصنفوں کو (اردو یا انگریزی زبان میں) ایسے ہی حوالہ جات اور حواشی دے کر یہ ثابت کرنا چاہیے کہ کلیاں آرامان کا استدلال ”چوبی کھڑاؤں“ پر کھڑا ہے اور ناقابلِ اعتبار و اعتماد ہے۔
میں نے اس کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے اس امر کو بالخصوص ملحوظِ خاطر رکھا ہے کہ مشکل الفاظ و مرکبات اور پروفیشنل اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ نہ کروں بلکہ ان کو انگریزی ہی میں املاء کرکے لکھ دوں۔ بہت سے حصوں کا اردو ترجمہ میرے لئے کوئی مشکل نہ تھا لیکن میرے سامنے اردو زبان کے ایک عام قاری کا وہ مبلغِ زبان و بیان تھا جو اس کتاب میں جابجا استعمال کیا گیا ہے لیکن قاری کے لئے چنداں زود فہم بلکہ زود ہضم نہیں۔کئی جگہ میں نے ”بطور مترجم“ اس کی وضاحت تو کر دی ہے لیکن کئی اصطلاحات کو جوں کا توں اردو میں املاء کر دینا، زیادہ مناسب سمجھا ہے۔ اردو زبان میرے نقطہ ء نظر سے تاحال ان مطالب و مفاہیم کو اپنے اندر جذب نہیں کر سکی کہ جو اس کتاب میں بار بار استعمال کئے گئے ہیں۔
خود لفظ سٹرٹیجی کا مروج اردو ترجمہ ”حکمتِ عملی“ بھی نہیں کیا گیا، ڈاکٹرین کا ترجمہ ”اسلوبِ حرب“ نہیں کیا گیا اور پالیسی کو جس مفہوم میں کلازوٹز نے استعمال کیا تھا، اس سے بھی صرفِ نظر کرکے ”پالیسی“ہی لکھ دیا گیا ہے حالانکہ اس لفظ کے معانی میں خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی، اقتصادی پالیسی، اجتماعی پالیسی اور دفاعی پالیسی کے معانی اگرچہ بظاہر پردۂ اخفاء میں ہیں لیکن دفاع اور سیکیورٹی کے موضوعات کو جاننے والوں کے لئے ہرگز کسی ”پردۂ اخفاء“ میں نہیں سمجھے جاتے۔
میرے خیال میں اگر پاکستان نے 1971ء کی جنگ سے پہلے جوہری اہلیت حاصل کرلی ہوتی تو مشرقی پاکستان کبھی بنگلہ دیش نہ بن سکتا۔ بہرحال جب 1980ء کے عشرے میں پاکستان کے پاس نیوکلیئر ویپن ٹیکنالوجی آ گئی تو انڈیا کو (باقی ماندہ) پاکستان کے خلاف سندھ میں دور تک اندر جا کر حملے کرنے کی سٹرٹیجی بھی ترک کرنا پڑی اور جنرل سندر جی نے جو امیدیں لگا رکھی تھیں اور پاکستان کو بالکل دیوار سے لگا دینے کے لئے ایکسرسائز ”براس ٹیکس“ سے جو توقعات باندھ رکھی تھیں، ان کا بھی خاتمہ ہو گیا اور انڈیا کو معلوم ہو گیا کہ وہ اب کسی بھی روائتی جنگ میں پاکستان کو ”ایک اور بنگلہ دیش“ نہیں بنا سکتا۔اس نے اگرچہ 2019ء میں مانسہرہ کے ایک جنگلاتی علاقے میں فضائی حملے کی کوشش کی لیکن اسے فوراً ہی پتہ چلا کہ اب پاکستان ناقابلِ تسخیر بن چکا ہے۔
تاہم جموں و کشمیر کا مسئلہ آج بھی دونوں ملکوں کے درمیان روزِ اول والا معاملہ بن کے رہ گیا ہے۔ انڈیا کا خیال ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے ساتھ جو چار جنگیں لڑیں ان کا واحد مقصد وادیء کشمیر کے اس حصے کا حصول تھا جو اس کے غیر قانونی،غیر اخلاقی اورناجائز قبضے میں ہے۔ اس مسئلے پر مصنف نے ایک پورا باب رقم کیا ہے جو از بس قابلِ خواندگی ہے۔
کتاب کا آخری باب ”سٹرٹیجی اور سول۔ ملٹری روابط“ کے موضوع پر ہے اور میرے خیال میں یہ باب اس کتاب کا گویا پروفیشنل نچوڑ ہے اور قارئین کو دعوت دیتا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو جو انڈین یونین کا حصہ بنا لیا ہے اور اپنے آئین کا آرٹیکل 370تبدیل کر دیا ہے تو یہ گویا انڈو۔ پاک روابط کے ناقابلِ تصفیہ ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ اس کتاب میں بھی مصنف نے اسی مسئلہ کشمیر کو جگہ جگہ پاک۔ بھارت تعلقات کی راہ میں ایک ایسی رکاوٹ سے تعبیر کیا ہے جس کا کوئی حل نہیں۔ دوسرے لفظوں میں انڈین سٹرٹیجی کا مقابلہ اب پاکستان کی جوہری صلاحیت سے ہوگا:
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
1999ء کی کارگل جنگ اگرچہ جوہری ہتھیاروں کے سایہ تلے لڑی گئی لیکن وہ جموں اور کشمیر کی لائن آف کنٹرول تک محدود رہی اور 1965ء کی جنگ کی طرح ایل او سی (LOC) عبور کرکے کھلی جنگ کی طرف نہ نکل سکی۔
نریندر مودی نے 2019ء میں مسئلہ کشمیر کی پھانس کو ایک بڑے کانٹے میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ غزہ اور اسرائیل کی جنگ اور یوکرین اور روس کی جنگ میں ایک فریق کے پاس جوہری بم ہیں تو دوسرے کو جوہری بم والوں کی حمائت حاصل ہے۔ دیکھتے ہیں جوہری جنگ کے اثبات اور نفی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ایک بار اس تمنا کا دوبارہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ جو ایک طویل عرصے سے میرے دل و دماغ کے نہاں خانے میں پوشیدہ ہے اور پاکستان کے اردو جاننے والے طبقے کی آرزو بھی ہے اور جو یہ ہے کہ زیر ِ نظر کتاب جیسی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابوں کے اردو تراجم کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ انگریزی جاننے والے پاکستانیوں کو بھی اردو ترجمہ پڑھ کر موضوعِ زیر بحث کی مشکلات اگر سہل معلوم ہوں تو اس میں کیا برائی ہے؟
غلام جیلانی خان
لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ)
٭٭٭
پیش لفظ اور اظہارِ تشکرّ
اس کتاب میں میرے سورگباشی شوہر، ڈاکٹر ایس کلیان آرامان (S.Kalyanaraman) نے گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان کے بارے میں انڈیا کی روائتی عسکری حکمت عملیوں (Strategies)کا ایک ارتقائی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ عسکری حکمت عملیاں پاکستان کے ان مسلسل چیلنجوں کے جواب میں تھیں جو پاکستان کی طرف سے انڈیا کی زمینی حکومتوں، قومی سلامتی اور برصغیر کی علاقائی لیڈرشپ کو درپیش رہیں۔ اس عمل میں ڈاکٹر کلیان آرامان نے سٹرٹیجی کے اس تصور کے اورجنل اور اساسی عسکری پایہء استحکام سے آغاز کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کی طرف گامزن ہونے کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔انہوں نے طاقت کے استعمال کے سلسلے میں سہ طرفہ فریم ورک کی نشاندہی کی ہے تاکہ خارجہ پالیسی، سٹرٹیجی اور ڈاکٹرین کے تناظر میں ان امورکو سمجھا جا سکے اور طاقت کے استعمال کے بارے میں ایک متوازن تجزیہ پیش کیا جا سکے۔ ان کی یہ تصنیف پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگوں کا سیاسی، سٹرٹیجک اور ڈاکٹرین کی سطح پر روبہ عمل آنے والے مطالعہ کے موضوع پر پہلی کاوش ہے۔
میرے مرحوم شوہر ایک طویل عرصے سے اس مسودے پر کام کررہے تھے۔ انہوں نے ایک کے بعد دوسرے باب کے مسودے کو بارہا لکھا، قلمزد کیا اور پھر از سرِ نو تحریر کیا۔لیکن ان کے سینے میں کاملیت (Perfectionism) کا جو لاوا موجود تھا، اس کی تپش سرد نہ ہو سکی اور وہ اس سلسلے میں پوری طرح کبھی مطمئن نہ ہو سکے۔ میں اکثر ان کو کہا کرتی تھی کہ وہ کتاب کو جلد مکمل کریں اور اسے اشاعت کے لئے بھیجیں لیکن وہ اس امر پر ہمیشہ اصرار کرتے رہے کہ کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ اپریل 2021ء میں ان کو کووڈ۔19کے مہلک مرض نے آن گھیرا۔ اس مرض کے لئے ان کے تمام ٹیسٹ مثبت (Positive) آنے لگے، وائرس ان کے پھیپھڑوں تک پھیل گیا اور ان کو ہسپتال میں زیرِ علاج رہنا پڑا۔ جب وہ ہسپتال میں کرٹیکل کیئریونٹ (CCU) میں تھے تو تب بھی میرے شوہر کو اس کتاب کی فکر رہتی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ ”میں نے ابھی بہت سے کام کرنے ہیں اور ان میں سے سب سے زیادہ اہم اس کتاب کی اشاعت ہے“…… تاہم چند روز کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔
مجھے ان کے آخری الفاظ یاد تھے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کی کتاب شائع کی جائے۔ تاہم مجھے اس امر میں تامل تھا کہ میں ایسا کر بھی سکوں گی یا نہیں کیونکہ کتاب کا موضوع اتنا تخصیصی تھا کہ میرے آرام و سکون کے محدود دائرے سے ”حدود باہر“ تھا۔مجھے اس بات کا بھی کچھ پتہ نہ تھا کہ یہ مسودہ کتنا مکمل ہے اور ہنوز کتنا باقی ہے۔ لیکن میری فیملی اور دوست احباب نے میری ڈھارس بندھائی۔ میں نے آہستہ آہستہ مسودے کو پڑھنا شروع کیا اور مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ اس کے تمام ابواب تقریباً مکمل تھے۔ میں نے مسودہ اپنی بہن کو دکھایا اور انہوں نے اسے پڑھ کر بتایا کہ اس کی اشاعت سرخوشی کا باعث ہوگی۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان کی سوچ مختلف ہوتی۔ وہ اپنے مسودے پر کچھ اضافہ کرنا چاہتے، بعض پیراگرافوں کو نکال دیتے اور بعض نئے پیراگراف شامل کرتے، اپنے دلائل کومزید تقویت دینے کی کوشش کرتے اور بعض فٹ نوٹس (Fot notes)بھی شامل کرتے۔ تاہم میری ہمشیرہ اور میں نے جب اس مسودے کو ازاول تا آخر پڑھ کر ختم کیا تو میں نے بلومز بری (Bloomsbury)انڈیا سے رابطہ کیا اور انہوں نے ازراہِ صد مسرت اسے شائع کرنے کی حامی بھرلی۔ میں نے اپنے سفیر سوجان آرچنائی (Sujan R.Chnoy) ڈی جی ایم پی۔ آئی ڈی ایس اے (DG MP- IDSA)مسٹر چندرسیکھر(Chandra Sekhar) جن کا تعلق بلومز بری سے تھااور پروفیسر کمارا سوامی کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں میری معاونت فرمائی۔
میں اپنے مرحوم شوہر کی طرف سے ان سب دوستوں، رفیقانِ کرام اور احبابِ مکرم کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کے لکھنے میں ان کی مدد کی۔ میں ان اصحاب کی بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اس مسودے کو پڑھا اور اپنی بیش قیمت آراء اور تجاویز سے نوازا۔
مجھے امید ہے کہ قارئین اس کتاب کو بہت معلوماتی اور بصیرت افروز تصور فرمائیں گے۔ میں یہ توقع بھی کرتی ہوں کہ یہ کتاب موضوعِ زیر بحث میں نئے آفاق وا کرے گی کہ جیسا کہ ڈاکٹر کلیان آرامان کا ویژن تھا۔
ڈاکٹر پشپتا داس
(Pushpita Das)