ڈپریشن:خاموش قاتل،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علاج!
دنیا بھر میں ڈپریشن حیرت انگیز حد تک ایک عام بیماری کی صورت اختیار کر چکا ہے۔دوسری خطرناک بات یہ ہے کہ اس بیماری سے متعلقہ ادویات بھی تیزی سے ناکام ہو رہی ہیں۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے جس میں عمرکی کوئی قید نہیں، کوئی بھی فرد کسی بھی عمر میں اس مرض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔اس مرض کو جانچنے کے لیے ابھی تک کوئی ٹیسٹ یا آلہ ایجاد نہیں ہوا جو اس کی درست تشخیص کرکے یہ جان سکے کہ مریض اب کس حال میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مریض کو اندر سے اس قدر کمزور کر دیتا ہے کہ جس کے سبب انسان مستقل افسردگی کی حالت میں رہتا ہے۔ ایسے افراد بعض اوقات لوگوں کے سامنے زیادہ ہنس رہے ہوتے ہیں تاکہ اپنی اداسی اور اندر کی کیفیت کو چھپا سکیں۔
ڈپریشن ایک طرح کا ماسک ہے، جسے آپ آسانی سے پہچان نہیں سکتے۔اسے اگر خاموش قاتل کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس بیماری نے دنیا بھر میں 350 ملین سے زیادہ لوگوں کو متاثرکیا ہوا ہے۔ ڈپریشن سے متاثرہ افراد دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح اپنا کردار ادا نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے خودکشی جیسے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ مرض چونکہ اتنی آسانی سے سامنے نہیں آتا اسی لیے اس کی تشخیص بھی نہیں کی جا سکتی جس کی وجہ سے آنے والے ہر دن میں یہ مرض سنگین صورت اختیار کرتاجا رہا ہے۔ اس کی علامات کی اگر بات کی جائے تو ڈپریشن میں مبتلا شخص ہمیشہ اداس رہتا ہے۔ گھر، سکول اور دفتر میں اس کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے جبکہ مرض کی سنگینی ایسے افراد کو غیر محسوس طریقے سے خودکشی کی جانب لے جاتی ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ صرف ڈپریشن کی وجہ سے دنیا بھر میں سالانہ 10 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔اس لئے ڈپریشن کی علامات کو جاننا بہت ضروری ہے، تاکہ آپ اپنے خاندان اور دوستوں کو اس موذی مرض سے نجات دلا سکیں۔
علامات: اچانک موڈ میں تبدیلی، عام طور پر بہت اداس ہونا،یک دم خوش ہونا یا پھر پُرسکون دکھائی دینا۔ چڑچڑاپن یا پریشانی میں اضافہ، توجہ مرکوز کرنے میں دشواری،بھول جانا،موت کے بارے میں مسلسل بات کرنا،سوچتے رہنا،اپنے آپ کو مارنے کے بارے میں باتیں کرنا،گہری اداسی، نیند میں خلل، سونے میں دشواری کا سامنا ہونا، کسی بھی چیز میں دلچسپی نہ لینا، کھانے میں مسائل کا سامنا کرنا، ایسے خطرات مول لینا جو موت کا باعث بن سکتے ہیں، جیسے بہت تیز گاڑی چلانا، بے کاری کا احساس وغیرہ، ایسی علامات جس کسی میں بھی موجود ہوں، اسے چاہئے کہ اپنے اہل ِخانہ اور قریبی دوست احباب سے رابطہ کرے، انہیں اپنی کیفیات سے آگاہ کرے، خود کو تنہائی یا الگ تھلگ کرنے کے بجائے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرے اور ساتھ ہی طبی مدد بھی طلب کریں۔ ڈپریشن کا علاج موجود ہے۔ اس مقصد کے لیے کسی مستند معالج سے رابطہ قائم کرنا چاہئے تاکہ وہ مریض کی علامات کو دیکھ کر ادویات تفویض کر سکے۔ڈپریشن دراصل ایک موڈ سے متعلقہ بیماری ہے جو روز مرہ کے امور مثلاً کھانا، پینا، سونا، جاگنا اور معاشرتی رویوں کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔
ڈپریشن کئی اقسام کا ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قسم کے ڈپریشن میں پیدا ہونے والی ناامیدی کی شدید لہر انسان کو تباہ کن حد تک متاثر کرتی ہے۔زیادہ تر لوگ اپنے دل کی باتیں دل میں رکھتے ہیں جس کے باعث وہ دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی سوچیں مزید الجھ کر انہیں ڈپریشن کا مریض بنا دیتی ہیں۔ایک حالیہ طبی تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے علاج کے لیے ورزش کرنے کی عادت ادویات یا تھراپی سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ورزش کرنے سے ڈپریشن، انزائٹی یا دیگر ذہنی امراض کی شدت میں کمی آتی ہے یا ان سے بچنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔اس تحقیق میں ایک لاکھ 28 ہزار سے زیادہ افراد پر ہونے والی ایک ہزار سے زائد تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے شکار افراد کی ذہنی صحت کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ ذہنی صحت میں مثبت تبدیلی کے لیے بہت زیادہ ورزش کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ محققین کے مطابق12ہفتوں تک جسمانی سرگرمیوں کو اپنے معمولات کا حصہ بنانے والے افراد میں ڈپریشن، انزائٹی یا دیگر دماغی امراض کی شدت میں کمی آنے کا امکان ادویات یا تھراپی کے عمل سے گزرنے والے مریضوں کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ سخت جسمانی ورزشوں سے ڈپریشن اور انزائٹی کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ان کے مطابق زیادہ دورانیے کی بجائے مختصر وقت تک ورزش کرنے سے ڈپریشن کی روک تھام میں زیادہ مدد ملتی ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ ہم نے دریافت کیا کہ ہر طرح کی جسمانی سرگرمیاں اور ورزش ڈپریشن اور انزائٹی سے نجات کے لیے مفید ہیں۔ آپ چہل قدمی اور یوگا سے بھی اس مرض کی روک تھام کر سکتے ہیں۔
یہ بات صحیح ہے کہ آج کا مسلمان اللہ کے ذکر سے دور ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں میں بھی مبتلا رہتا ہے۔ترجمان القرآن میں ڈاکٹر زبیر احمد لکھتے ہیں کہ اللہ سے مسلسل رابطہ انسان کو روحانی علاج پر آمادہ کرتا ہے۔ انسان تنہائی میں، بے کاری اور روحانی خلا سے بچ جاتا ہے۔اسے ذاتِ برتر سے تعلق کی نسبت حاصل ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق قائم کرنے کے چار ذریعے ہیں:
1- نماز: یہ بندۂ مومن اور اس کے رب کے درمیان رابطہ ہے۔ نماز عقل، شعور اور وجدان کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسا روحانی علاج ہے جو مومن کو سکونِ قلب اور طمانیت ِنفس مہیا کرتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی پریشان ہوتے تو نماز پڑھتے اور فرماتے کہ اے بلالؓ! نماز کے ذریعے ہمیں راحت پہنچاؤ۔ آپؐ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان ہیں جو خشوع و خضوع سے اس طرح نماز ادا کرتے ہوں کہ اپنے ارد گرد سے بے خبر ہو جاتے ہوں اور صرف اللہ کے ساتھ ان کا رابطہ رہ جاتا ہو۔
2- اللّٰہ کا دائمی ذکر: ہر وقت اللہ کا ذکر کرنے سے نفس ِانسانی میں اللہ سے تعلق کا احساس پیداہوتا ہے۔ اس کی ذات پر توکل کرنے سے انسان احساسِ تنہائی سے بچ جاتا ہے۔ ارشاد ہوا: ”ایسے ہی لوگ ہیں وہ جنھوں نے (اس نبیؐ کی دعوت کو)مان لیا ہے اور ان کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے“۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب بھی کچھ لوگ اللہ کو یاد کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ رحمت ان پر چھا جاتی ہے۔ ان پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں یاد کرتا ہے“۔ ذکر کے ساتھ ساتھ پریشانیوں سے نجات کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے۔ پریشان حال اور غم زدہ کے لیے اللہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ ارشاد فرمایا: تمھارا رب کہتا ہے: ”مجھے پکارو، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے“۔
3- تلاوتِ قرآن: قرآن کی تلاوت سے نفس کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ مشرکینِ مکہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ وہ قرآنِ کریم کی تلاوت کے دوران شور مچایا کریں تاکہ ان کے دل قرآن کے بیان سے متاثر ہو کر ایمان کی طرف مائل نہ ہوں۔ تلاوتِ قرآنِ کریم سے بندے کا اپنے پروردگار کے ساتھ تعلق مضبوط ہوتا ہے اور انسان اپنی پریشانیوں اور تکلیفوں کا مداوا پا لیتا ہے۔ قرآن اہلِ ایمان کے لیے شفا اور رحمت ہے۔
4- اللّٰہ کا تقویٰ: درجِ بالا سب اعمال نفس میں اس وقت سکون و اطمینان پیدا کرتے ہیں جب ان کے ساتھ ساتھ نیک اعمال اور پاکیزہ گفتار کو بھی اپنایا جائے۔ ارشاد ِالٰہی ہے: ”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر، ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے“۔
5- خود کو پہچانیے: روحانی علاج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنے آپ کو بھی پہچانے۔ اس پہچان سے وہ ڈیپریشن کے اسباب جاننے اور پھر ان کا تدارک کرنے میں کامیاب ہوگا۔ کسی دانش ور کا قول ہے: ”جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے پروردگار کو جانا“۔مگر یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ خود کوپہچاننے اور اپنی ذات میں مستغرق رہنے میں بہت فرق ہے۔
ڈیپریشن کا ایک اور سبب انسان کا اپنی عملی زندگی میں افراط و تفریط سے کام لینا ہے۔زندگی اعتدال و توازن سے ہی قائم رہتی ہے جیسے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اوردنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔
قرآنِ کریم نے ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ ہم گناہ گار ہونے کے احساس کو ختم کریں کیونکہ گناہ گار ہونے کا احساس ہی انسان کو غم،بے چینی اور تشویش سے دوچار رکھتا ہے۔ گناہ سرزد ہونے کی صورت میں فوراً توبہ کرنی چاہیے، پھر یہ یقین کر لینا چاہیے کہ اللہ نے گناہ معاف فرما دیا ہے۔ ارشاد ہوا: جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے اس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔
قرآنِ مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے حسد نہ کریں۔ حسد نفسیاتی اضطراب پیدا کرتا ہے۔ اگر حسد کرنے والا یہ سمجھ لے کہ دینے والا اور عطا کرنے والا اللہ ہے تو وہ حسد سے باز رہے اور اپنے نفس کو حسد کی مشقت میں نہ ڈالے۔انسان کو چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر اپنے اوپر بوجھ نہ ڈالے۔ قرآنِ مجید ہمیں تلقین کرتا ہے کہ ہم اپنی آرزوؤں اور استطاعت میں توازن رکھیں تاکہ ہم نفسیاتی بے قراری اور بے چینی سے بچ سکیں۔٭
final