اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملکی سا لمیت کی حفاظت کرتے ہوئے  چند روز قبل خیبر پختونخوا کے علاقہ شاگئی میں جرأت اور بہادری کے ساتھ سولہ دہشت گردوں کو جہنم واصل کرتے ہوئے اپنے ایک سپاہی کو ریسکیو کرتے کرتے ایک زخمی دہشت گرد کے فائر سے جامِ شہادت نوش کرنے والے کیپٹن حافظ زوہیب الدین چغتائی کے والدین سے ملا قات کیلئے میں اپنی بیگم کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پارک ویو سوسائٹی ملتان روڈ پر شہید کیپٹن کے گھر پہنچا اور ان سے شہید کی باتیں اور زندگی کے حالا ت جاننے کا موقع ملا۔ کیپٹن شہید کے والد احسام الدین چغتائی میرے تایا زاد بھائی ناصرالدین چغتائی کے صاحبزادے ہیں۔ انہوں نے زوہیب الدین کے بچپن سے لیکر شہادت تک کے تمام واقعات بڑے حوصلے اور صبرو تحمل کے ساتھ سنائے۔ پچیس سالہ جوان بیٹے کی شہادت سے میرے بھتیجے اور ان کی اہلیہ کا مسلمان ہونے اور فلسفہ ئ  شہادت پر پختہ یقین کا بے حد غلبہ محسوس ہوا اور انہوں نے بتا یا کہ ہمیں رات کو پہلے ان کے زخمی ہونے کی اطلا ع ملی، تھوڑی دیر بعد ہی پشاور سے اس کی فرنٹیئر کور سے شہادت کی اطلا ع بھی مل گئی۔احسام الدین نے بتایا کہ فوج میں یکدم شہادت کی خبر نہیں دی جاتی تاکہ لواحقین اچانک شہادت کا سن کرکسی اور حادثہ کا شکار نہ ہوجائیں۔ شہادت کی خبر تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات پر لیڈ سٹوری کے طور پر ہم سب نے سنی اور دیکھی۔
 پاکستان آرمی کے چیف آف سٹاف جنرل عاصم منیر، صدرِ پاکستان اور وزیراعظم شہباز شریف صاحب کے تعزیتی بیانات بھی نشر ہوئے۔ اگلے روز شہید کی نمازِ جنازہ پارک ویو کے قبرستا ن میں ادا کی گئی جس میں وزیراعظم اور کور کمانڈر لاہور سید عامر رضا اور دیگر پنجاب حکومت کے اہلکار شریک ہوئے۔ اگلے روز گورنر پنجاب بھی تعزیت کیلئے ان کے گھر گئے۔ احسا م الدین کی باتوں سے صبرو تحمل اور ایمان کی مضبوطی نے انہیں ایک چٹان کی طرح مضبوط بنا دیا ہوا ہے۔ انہوں نے بتا یا کہ کئی روز تک ان کے ملنے والے آتے رہے  مگر ہم نے کسی طرح کی پڑھائی اور مرحوم کی مغفرت کیلئے کوئی رسم قل یا قرآن خوانی نہیں کرائی۔ شہید کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب اللہ خود قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں کہ شہید زندہ ہیں تو اس پر افسوس کیوں کیا جائے۔ انہیں فوجی وردی میں ہی بغیر غسل کے صرف وضو کر وا کے دفن کر دیا جاتا ہے تو ہم کیو ں روائتی رسومات کی ادائیگی کر کے اللہ کی ناراضگی اختیا ر کریں۔ جب اللہ شہید کو سیدھا ہی اپنے پاس جنت میں لے جاتا ہے تو پھر ایصالِ ثواب وغیرہ اور قل چہلم کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ احسام الدین کے بیٹے نے مزید بتا یا کہ چہلم پر بھی محفل ِ میلا د ہی کرائیں گے۔ جو باہر سڑک پر منعقد کی جائیگی۔ ان کے گھر کے باہر ایک یاد گاری دیوار بھی بنا ئی گئی ہے اور ان کے گھر والی دو میل لمبی سڑک کا نام بھی کیپٹن زوہیب الدین روڈ نہ صرف رکھ دیا گیا ہے بلکہ سرکاری بورڈ بھی لگا دیا گیا ہے۔
 کیپٹن حافظ محمد زوہیب الدین شہید ولد احسام الدین بائیس فروری 1999 ء میں لاہور کے علا قہ چوہان روڈ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دارِ ارقم سکول سے حاصل کر نے کے ساتھ دس سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔ 2018 ء میں انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد پاکستان آرمی LC 143 میں شمولیت اختیار کی اور 10۔ اپریل 2021 ء کو کاکول اکیڈیمی ایبٹ آباد سے بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ پاس آؤٹ ہوئے اور بلوچستان میں 63 میڈیم رجمنٹ آرٹلری میں اپنی خدمات انجام دیں اور بعد ازاں 23 مارچ 2024ء کو کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 5 ستمبر 2024ء سے فرنٹیئر کور 101 ونگ کے پی کے میں تعینات ہوئے۔ 30 نومبر کو شاگئی ضلع خیبر پختونخوا میں سولہ دہشت گردوں کے ساتھ لڑتے ہوئے آٹھ دہشت گرد وں کو جہنم واصل کرنے کے بعد اپنے سپاہی کو ریسکیو کرتے ہوئے ایک زخمی دہشت گرد کی گو لی کا نشانہ بننے سے کیپٹن حافظ محمد زوہیب الدین نے جامِ شہادت نوش کیا۔ مرحوم ایک نیک قابل،ایماندار،شریف، بہادر اور ملنسار آفیسر تھے۔ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور قریبی عزیز و اقارب سے بھی بڑی محبت اور بڑوں کی عزت کرتے تھے۔ جلد ہی اس کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ ان کیلئے لڑکی کا انتخاب بھی کرلیا گیا تھا اور منگنی کے بعد شادی کا ارادہ تھا۔ شہید کی والدہ شبانہ احسام نے اپنے بیٹے کے کئی واقعات سنائے۔  ان کا صبر و تحمل قابلِ دید تھا۔ انہوں بتایا کہ زوہیب جب آخری بار لاہور ملا قات کیلئے آیا تو اس کا انداز ہی عجیب تھا اور مجھ سے اس طرح لپٹ رہا تھا جیسے چھوٹا سا بچہ ہو۔ جب ہماری شہید کی فیملی سے ملاقات ہوئی تو ان سب کا حوصلہ قابلِ دید تھا اور اس کے حالا ت زندگی کے واقعات بڑے فخر سے بیان کرتے ہوئے والدہ کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ ہم سے افسوس کرنے کی بجائے مبارکباد دے رہے تھے۔ لوگوں نے ہمارے حوصلے اتنے مضبوط کردیئے ہیں کہ اب ہمیں یہی لگتا ہے کہ زوہیب ہمارے پاس ہی ہے۔ 
                 ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -