نئی کامیابیوں کی نوید
کچھ کر دکھانے کا جو جذبہ اور ولولہ سال کے آغاز میں ہوتا ہے وہ ابتدائی ماہ گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات و سیاسی گردش دوراں کی دھول میں کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر گزرنے والے سال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو احساس ہوگا کہ یہ سال بھی خوشیاں کم ،مگر غموں کی بھرمار دے کرگذر گیا اگرچہ کراچی کی صورتحال میں ایک خوشگوار تبدیلی تو آئی ہے، مگر کئی خونی واقعات اور حادثات دل پر گہرے نشان چھوڑ گئے ہیں جن میں رمضان المبارک میں شدید گرمی کے عالم میں عوام کی بے بسی ،بجلی کی لوڈشیڈنگ اور ارباب اختیار کی بے حسی ،حج کے دوران بھگدڑ میں شہادتیں ،محرم میں دہشت گردی کا واقعہ اور ابھی 26اکتوبر کو پشاور زلزلے کا ہولناک سانحہ جو 2005ء کے زلزلے کی یاد تازہ کرگیا، جس کے متاثرین آج بھی حکومتی امداد کے منتظر اور اپنی تباہی پر نوحہ کناں ہیں تاریخ گواہ ہے کہ سینکڑوں قومیں ان آفات کے ہاتھوں مٹ گئیں،جبکہ قرآن وحدیث میں قدرتی آفات کو انسانی عمال کا نتیجہ قرار دیاگیا ہے اس روشنی میں ہمیں توبہ استغفار کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر توبہ،استغفار اور شکر بھی اس وقت ادا ہوتا ہے جب انسان اپنی معاشی مجبوریوں سے آزاد ہواسے زندگی کی تمام سہولیات میسر ہوں یا دوسری صورت میں معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں غلط کام پر مجبور ہونے والے جب کبھی کسی کی پکڑ میں آجائیں تب وہ توبہ استغفار کی طرف راغب ہوتے ہیں انسان کو برائی سے روکنا اور اس کی زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لئے اسے معاشی خطرات سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن ہمارے یہاں حکمرانوں کو سیاسی بازار کی سرگرمیوں سے فرصت ملے تو وہ عام آدمی کی طرف توجہ دے یہاں پر انصاف کے حصول کے لئے بھی خود کشی کرنا پڑتی ہے یا پھر جنازوں کو بیچ چوراہے لاکر رکھنا پڑتا ہے پھر کہیں جاکر قانون کے کان پر جوں رینگناشروع کرتی ہے۔
موجودہ حکومت سمیت پچھلی تمام حکومتوں نے ملک اور قوم کے نام پر ایسے ایسے فراڈ کرڈالے عوام کو ناکوں چنے چبوادیے کرپشن ،کمیشن ،اقربا پروری ،لوٹ مار اور عہدوں کی بندر بانٹ نے ملک میں زلزلہ پیدا کررکھا ہے غریب قوم کے اربوں روپے لوٹ لیے گئے امداد ،بھیک اور قرضوں نے جہاں سیاستدانوں کے بنک اکاؤنٹ بھردیے وہیں ہمارے سرکاری افسران نے بھی اپنی جھولیاں بھر لیں میرٹ اور انصاف کے نام پر محنتی ،قابل اور مستحق افراد کو مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت کی دلدل میں دھکیل کر صرف اپنے سے اوپرکے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ہر وہ غیر قانونی اور غیر آئینی کا م کیا گیا کہ ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار اپنے ووٹ کے ذریعے دوسروں کو دینے والا ووٹر آج بھی چند ہزاراجرت کے لئے نوکریوں کی تلاش میں سرکاری دفاترکے چکر کاٹنے پر مجبورہے ہمارے حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے جب ضرورت پڑی بالوں سے پکڑ کر کھینچ لیا اور جب دل بھر گیاتو کسی قید خانے میں دھکا دیدیاحکمرانوں نے تو معذوروں کو بھی نہیں چھوڑا انہیں بھی سڑکوں پر لاکر پولیس کے ڈنڈوں سے نچواتے رہے جو حکمران آئین اور قانون کے مطابق معذوروں کو ان کے حقوق نہیں دے سکتے وہ عام آدمی کا کیا بھلا چاہیں گے حکمران اپنے ذاتی معاملہ میں تو آئین اور قانون کو گھسیٹ کر درمیان میں لے آتے ہیں مگر جہاں پر پاکستان کا آئین آرٹیکل 38 (d) اس بات کی تشریح کرتا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ معذوروں کو عام آدمی کے برابر زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کرے جن میں انسان کی بنیادی ضروریات روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم اور صحت کی سہولیات ہر پاکستانی کو بلاکسی تفریق، رنگ ونسل ،مذہب فراہم کرے ،مگر بات پھر وہیں پر ختم ہوتی ہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون تو حکمرانوں کا کھلونا ہے۔
سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے 1981ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ایک قانون متعارف کروایا تھا کہ سرکاری اور پرائیوٹ اداروں میں معذور افراد کو دو اور تین فیصد کوٹہ کے حساب سے ملازمتیں فراہم کی جائیں گی اور جو ادارے معذور کو ان کے کوٹہ کے مطابق ملازمت نہیں دیں گے وہ ہر ماہ ایک ہزار روپیہ حکومت کوجمع کروائیں گے تاکہ اس طرح اکٹھی ہونے والی رقم کو معذورافراد کی فلاح وبہبود پر لگایا جاسکے اور اب 18ویں ترمیم کے زریعے معذور افراد کی ذمہ داری صوبوں پر آچکی ہے جو انہیں مسلسل نظر انداز کرکے انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کر رہے ہیں ان معذور افراد میں BAاور MAتعلیم تو عام ہے ہی ان میں سے بعض پی ایچ ڈی بھی ہیں، مگر بے روزگاری کا جو طوق حکومت نے ان کے گلے میں فٹ کررکھا ہے وہ اترنے کا نام نہیں لے رہا پاکستان میں اس وقت کل آبادی کا 19.2فیصد طبقہ معذوری کی زندگی گذار رہا ہے جن میں گونگے ،بہرے،جسمانی معذور اور ذہنی معذور افراد شامل ہیں جبکہ ان معذور افراد میں 58.4فیصد مرد اور 41.6فیصد خواتین شامل ہیں اور ان معذور افراد کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں 55.9 فیصد ،28.4فیصد سندھ میں آباد ہے جبکہ ہر سال2.65 فیصد سے ملک بھر میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کے لئے ملک بھر میں کوئی خاص سہولت میسر نہیں ہے اور نہ ہی انکا کوئی والی وارث ہے 2015ء میں جب کلب چوک مال روڈ پر ان معذور افراد پر ڈنڈے برسائے جارہے تھے تو اس وقت مجھے عبدالقیوم بہت یاد آئے جن کی بدولت معذور افراد کبھی بھی وزیراعلیٰ کے دفاتر سے مایوس نہیں لوٹتے تھے اور جن کے اسلام آباد جانے کے بعد معذوروں پر وزیراعلیٰ دفاتر کے دروازے بند کردیے گئے انہیں سرعام سڑکوں پر گھسیٹا گیا ڈنڈے برسائے گئے، مگر انہیں ان کا حق نہیں دیا گیا، جس پر معذور افراد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ وہ قیوم صاحب کے تبادلے کے بعد یتیم ہوگئے ہیں دعا ہے کہ نئے سال میں اللہ تعالی حکمرانوں کو صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔