2015ء پر ایک نظر
ہر سال کی طرح 2015ء کا سال بھی کئی طرح کے نقوش چھوڑ کر رخصت ہو گیا۔ عالمی منظر نامے کو دیکھا جائے تو دہشت گردی، روس امریکہ رسہ کشی، مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کے لئے سعو دی عرب اور ایران کی کوششیں، عالمی سطح پر چین کا ابھر تا ہو ا کردار اور گلوبل وارمنگ سمیت بہت سے ایشوز 2015ء میں بھی پوری شدت کے ساتھ چھا ئے رہے۔۔۔ 2015ء کا سال پاکستان کے لئے کیسے رہا؟۔۔۔ اس کے لئے ہمیں 2015ء میں ہونے والے چند ایسے اہم واقعات کو دیکھنا پڑے گا ،جن کے اثرات اس سال، یعنی 2016ء میں بھی موجود رہیں گے۔ جب 2015ء کا سال شروع ہو نے جا رہا تھا اس وقت پا کستان کو دہشت گردی کی صورت میں ایک بہت بڑے چیلنج کاسامنا تھا ۔10سال سے جا ری دہشت گردی کے اس نا سور کو ختم کرنے کے لئے ہی دسمبر 2014ء میں نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا اور 2015میں اس پلان پر عمل در آمد کا آغاز ہوا۔ سزائے موت پر عائد پا بندی کو ختم کیا گیا، 54,376 سے زائد چھوٹے بڑے آپریشنز کئے گئے، انٹیلی جنس کی بنیا د پر 3,019سے زائدآپریشنز کئے گئے ،60,420 افراد کو گر فتار کیا گیا،2ہزار 142 دہشت گرد ہلاک کئے گئے، نفرت انگیز مواد اور تقریروں پر بھی کارروائی کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی میں70فیصد تک کمی آئی۔ پو ری دنیا نے دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے پا کستا ن کو سرا ہا،تا ہم اب2016ء میں نیشنل ایکشن پلان کے ان حصوں پر بھی تیز ی سے عمل درآمد کر وانے کی ضرو رت ہے ، جن حصوں پر کم عمل در آمد ہوا۔
اہم سیا سی واقعات کی بات کی جائے تو اس سال اپریل میں تحریک انصاف نے سات ماہ بعد اسمبلیوں میں واپس آنے کا اعلان کیا ۔ تحریک انصاف کا قومی اسمبلی میں واپس آنا اہم سیا سی واقعہ تھا، کیو نکہ تحریک انصاف نے اسمبلیوں سے با ہر رہ کر اگست 2014ء سے جس طرح کی احتجا جی سیا ست کی ،اس نے پا کستان کے سیا سی ما حول میں زبردست گرمی پیدا کی۔ پشاور سکول میں حملے کے بعد دھرناختم کرنے اور پھر اپریل میں اسمبلی میں واپس آنے کا اعلان کرنے سے پا کستان کا سیاسی درجہ حرارت کافی حد تک نا رمل ہو گیا۔ 2016ء میں تحریک انصاف کی سیاست پر یہی با ت کی جا سکتی ہے کہ اس وقت ملک بھر میں دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے جو عزم پا یا جا تاہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف 2016ء میں کسی بڑی سیاسی افراتفری کا با عث نہ بنے۔2015ء کا سال ایم کیو ایم کے لئے بہت بھا ری ثابت ہو ا ۔الطاف حسین کو جہاں ایک طرف لندن میں منی لانڈرنگ کیس کا سامنا ہے، وہیں دوسری طرف کراچی میں مارچ 2015ء کو ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر 90 پر رینجرز کا چھاپہ، ایم کیو ایم کے عہدیداروں کی گرفتاری ،غیر ملکی اسلحہ کی برآمدگی، جون میں بھا رتی امداد لینے کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ کا منظر عام پر آنا، الطا ف حسین کی تقر یروں اور تشہیر پر پابندی سمیت کئی واقعا ت سے ثابت ہو اکہ ایم کیو ایم اپنی تا ریخ کے سب سے مشکل دور کا سامنا کر رہی ہے۔
ایم کیو ایم کے حوالے سے 2016ء کا سال بھی 2015ء کی طرح مشکل سال دکھا ئی دیتا ہے،کیو نکہ ما ضی کے بر عکس اس مرتبہ عسکر ی قیا دت ہرطرح کی سیا ست کو بالائے طا ق رکھتے ہو ئے ملک کی طرح کر اچی سے بھی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے پُرعزم دکھائی دیتی ہے۔ 2015ء میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اکبر نے کئی مرتبہ واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کراچی سے دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کو جڑ سے ختم کر نے کی با ت کی۔کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں سے بھی اس عزم کی عکا سی ہو رہی ہے۔امید رکھی جا سکتی ہے کہ 2016ء میں کراچی ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا شہر بن جائے گا۔ 2015ء کے آخر میں رینجرز کے اختیارات کے معاملے پر پیپلز پا رٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین اختلافات بھی منظر عام پر آئے،تاہم دونوں جما عتیں جا نتی ہیں کہ اختلا فات کو حد سے زیا دہ طول دینے سے دونوں کا ہی نقصان ہو گا، اس لئے 2016ء میں بھی یہی امید رکھی جا سکتی ہے کہ دونوں جما عتیں اپنے اختلا فات کو ایک دائرے تک ہی محدود رکھیں گی۔2015ء کا سال اس حوالے سے بھی اہمیت کا سال رہا کہ دس سال بعد بلدیا تی انتخابات ہو ئے۔ اگر چہ بلدیا تی اداروں کو انتہائی محدود اختیا رات دےئے گئے، مگر پھر بھی دس سال بعد انتخابات کا انعقاد خوش آئند قدم تھا۔ اسی طرح 2015ء میں این اے246 کراچی، این اے 122لاہور اور این اے 154 لودھراں میں انتہائی اہمیت کے حامل ضمنی انتخابات ہوئے۔ یہ ضمنی انتخابا ت ایم کیو ایم(246) مسلم لیگ (ن) ((122 اور پی ٹی آئی (154) کے لئے ایک طرح سے زندگی اور موت کا مسئلہ تھے۔
2015ء کا سال پا کستان کی خارجہ پا لیسی کے حوالے سے بھی بہت اہم رہا ۔پا ک بھا رت تعلقات میں اس سال بھی مسلسل اُتا ر چڑھا و دیکھنے میں آیا۔ 10جو لا ئی کو روسی شہر اوفا میں نواز، مودی ملا قات ہو ئی، جس میں قومی سلامتی کے مشیروں کے ما بین مذاکرات بحال کرنے کی بات کی گئی، تا ہم اگست میں مذاکرات شروع ہو نے سے پہلے ہی نا کا م ہو گئے۔ 30نومبر 2015ء کو پیرس میں نواز شریف اور مودی کے مابین چند لمحوں کی ملاقات کا نتیجہ7دسمبر 2015ء کو بنکاک میں سامنے آیا، جب دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے مابین بیک ڈور ڈپلومیسی کے تحت مذاکرات کا دور ہوا۔اسی ماہ سشما سوراج کے دورۂ پا کستان نے بھی برف پگھلانے میں اہم کردار ادا کیاتاہم پاک بھارت تعلقات میں اس وقت انتہا ئی مثبت موڑ آیا، جب 25دسمبر کو مودی نے افغانستان سے بھارت واپس جاتے ہو ئے انتہائی ڈرامائی انداز میں پاکستان کا دورہ کرنے کا اعلان کیا اور لاہور پہنچ کر نواز شریف سے ملاقات کی۔یوں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے 2015ء کا سال انتہا ئی مثبت نوٹ پر ختم ہوا۔ رجحانات کو دیکھتے ہو ئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ2016ء میں پاک بھارت تعلقات میں حائل رکا وٹوں جیسے کشمیر، سیا چن ، سرکریک اور دیگر اہم مسائل پر کو ئی بڑی پیش قدمی تو نہیں ہو گی، مگر پھر بھی اگر ممبئی حملوں یا سمجھوتہ ایکسپریس کی طرز پردہشت گردی کا کو ئی بڑا واقعہ نہ ہوا تو امید رکھی جا سکتی ہے کہ 2016ء کا سال پا ک بھا رت تعلقات میں ایک اور برا سال نہیں ہو گا۔ 2015ء میں ہی ہماری خارجہ پا لیسی میں ایک انتہائی مثبت رویہ اس وقت دیکھنے کو ملا ، جب 10اپریل کو پاکستانی پا رلیمنٹ نے متفقہ طور پر یمن کی جنگ میں سعودی عرب اور عرب مما لک کے بلاک میں شامل ہو نے سے انکار کر دیا۔ یمن کی جنگ میں شامل ہونے کے لئے سعودی عرب اور عرب ممالک کی جانب سے پا کستان پر کس قدر شدید دباؤ تھا، اس کی ایک جھلک متحدہ عرب امارت کے وزیر خارجہ کے اس بیان میں موجود ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں عربوں کا ساتھ نہیں دیا، پاکستان کو اس فیصلے کی قیمت چکانا ہو گی۔2015ء میں پاک افغان تعلقات میں سردی گرمی دیکھنے میں آئی ، تاہم افغانستان میں امن کے لئے پا کستان کے کردار کو اس وقت بہت سراہا گیا، جب جولائی کے آغاز میں پاکستان کی معا ونت سے مری میں افغان طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات کا پہلا دور ہوا،تاہم ملا عمر کی موت کی خبر اور طالبان کی اندرونی پھوٹ کے باعث مذاکراتی عمل مکمل طور پربے نتیجہ ہی رہا۔
معیشت کے میدان میں 2015ء کی سب سے بڑی اور اہم ترین خبر پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی رہی۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے اپریل میں دونوں ممالک کے مابین معا ہدہ ہوا۔ 45ارب ڈالر سے زائد کے ان منصوبوں کو پاکستانی معیشت کے لئے انتہا ئی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ عملی طور پر پاکستان کو ان منصوبوں سے کتنا فا ئدہ ہو تا ہے اس کا ایک حد تک اندازہ 2016ء کے آخر تک ہو ہی جائے گا۔ 2015ء کے چند اہم واقعات کا انتہائی سرسری جائزہ لینے کا مقصدیہی ہے کہ ماضی کے رجحانا ت کو سامنے رکھتے ہو ئے یہ دیکھا جا سکے کہ آنے والے کل کو کیسے بہتر بنا یا جا سکتا ہے؟2015ء میں پاکستان کو بہت سے چیلنج درپیش رہے۔ پا کستان نے سب سے بڑے چیلنج، یعنی دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پا کر دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ پا کستانی قوم میں اتنی صلاحیت مو جود ہے کہ وہ اتفاق رائے اور عزم کے ساتھ چیلنجوں سے نمٹ سکتی ہے۔ پاکستان کو ابھی بھی دہشت گردی سمیت معاشی بدحالی، غربت، بے روزگا ری، افراط زر، توانا ئی بحران، کرپشن، اقربا پروری، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم سمیت بہت سے اہم چیلنجوں کا سامنا ہے۔ان چیلنجوں سے نمٹنا کسی بھی قوم کے لئے ایک آدھ سال کی بات نہیں، مگر ہم یہ امید تو رکھ سکتے ہیں کہ 2016ء میں ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پہلا قدم ہی اٹھا یا جا ئے۔