نیا سال، نئی توقعات
پہلی بار نیا سال امیدوں کی آغوش میں نمودار ہوا ہے۔ عوام نے جس جوش و جذبے اور آزادی سے اس کی آمد کا جشن منایا، وہ اس بات کا عکاس ہے کہ انہیں آنے والے دنوں میں ایک روشن اور پُرامن پاکستان کی کرنیں چمکتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پچھلے سال یہ کیفیت نہیں تھی۔سانحہ ء پشاور کا دکھ نئے سال پر مسلط تھا اور خوف کے سائے چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔2015ء اس حوالے سے ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس سال میں ہم نے مکمل یکجہتی کے ساتھ ملک سے دہشت گردوں کو مٹانے کی جنگ لڑی اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے، اسی لئے 2015ء کو امن کے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایک بہت بڑا ہدف حاصل کرنے اور بہت اہم کامیابی پانے کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ منزل ابھی بہت دور ہے، کیونکہ دہشت گردی کو ختم کرنا تو راستے کے کانٹے صاف کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں تو ایک خوشحال، ترقی یافتہ، انصاف پسند اور پُرامن پاکستان چاہیے، اس کے لئے ابھی ہم نے بہت کوششیں کرنی ہیں، بہت سے مراحل طے ہونے ہیں اور بہت سی قربانیاں دینی ہیں، کسی ایک فرد یا طبقے نے نہیں، بلکہ پوری قوم نے۔ انسانوں نے ماہ و سال کی تقسیم شاید اس لئے کی، کہ وہ اپنے سودوزیاں کا حساب لگانا چاہتے تھے۔ ایک باب بند کرکے دوسرا باب کھولنا چاہتے تھے، وگرنہ ایسا نہیں کہ 31دسمبر کے بعد یکم جنوری کی جو صبح طلوع ہوتی ہے، وہ کوئی انوکھی صبح ہوتی ہے، ہاں اس میں جذبے نئے ہوتے ہیں اور ایک ہندسہ بدلنے سے انسان کا پورا نظام فکر بدل جاتا ہے۔
جس طرح نئے سال کے آغاز میں انسان کئی بار تاریخ ڈالتے ہوئے، پرانے سال کی تاریخ لکھ دیتا ہے، کیونکہ اسے عادت پڑی ہوتی ہے، اسی طرح ہمیں ماضی کے رویوں کو بھلانے کے لئے بھی محنت کرنا پڑتی ہے۔ خاص طور پر ایک نظام کہنہ کو بدلنے کے لئے پورے صدق دل سے جدوجہد کرنی چاہیے، کیونکہ اس کے داغ مٹتے مٹتے ہی مٹے ہیں۔ مَیں 2016ء کو ایک روشن سال کے طور پر دیکھ رہا ہوں، اسے آپ میری رجائیت پسندی بھی کہہ سکتے ہیں، تاہم اس رجائیت کے طفیل ہی اچھے دنوں کے خواب آتے ہیں اور امید پیدا ہوتی ہے۔ رینجرز کے حوالے سے گزرے برس میں جس طرح سیاسی مصلحتوں سے بالا ہو کر فیصلے کئے گئے ہیں، اس سے امید بندھی ہے کہ ہم اب مکھی پر مکھی مارنے سے گریز کریں گے۔ جب بھی کوئی اچھی روایت جنم لیتی ہے تو اس کے اثرات کم نہیں ہوتے، بلکہ پھیلتے ہیں، اگر ہم نے قومی مفاد میں فیصلے کرنا شروع کر دیئے ہیں تو امیدکرنی چاہیے کہ اس کے اثرات ہر شعبہ ء زندگی پر مرتب ہوں گے۔ 2016ء کو روایت شکن سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا،جس میں وہ سب کچھ عملی جامہ پہنے گا، جس کی عوام امید لگائے بیٹھے ہیں۔
قوی امیدہے کہ جس طرح وزیراعظم محمد نواز شریف نے صحت کے شعبے میں انقلابی اصلاحات کی ہیں اور مستحق مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے، سرکاری سطح پر ایک سکیم وضع کی ہے، اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی ایسی اصلاحات لائی جائیں گی۔ نظامِ انصاف کا شعبہ بھی ایک ایسا ہی کینسر ہے، جس کا علاج بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے حکومت یہ کہہ کر جان چھڑا لیتی ہے کہ عدل و انصاف کی فراہمی عدلیہ کی ذمہ داری ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، حکومت کو ہی ایسی اصلاحات لانا ہوتی ہیں جو نظامِ انصاف کو سستا اور فلاحی بنا سکیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے ہمارے غریبوں کے دکھوں کی ایک سب سے بڑی وجہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ناانصافی بھی ہے۔ لوگ اس کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں یا خودکشی کر لیتے ہیں، اگر یہ شعبہ ٹھیک ہو جائے تو معاشرے سے ظلم اور جبر کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ اس وقت جو نظام چل رہا ہے، اس میں غریبوں کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے کہ وہ انصاف لینے کے لئے کوئی وکیل کر سکیں۔ سرکاری وکیل نام کی ایک ’’شے‘‘ رکھی گئی ہے، مگر بدقسمتی سے وہ عام وکیلوں سے بھی مہنگی ثابت ہوتی ہے اور کوئی غریب مدعی بن کر سرکاری وکیل پر انحصار کر بیٹھے تو رونا اس کا مقدر بن جاتا ہے۔2015ء کو اس لئے بھی یاد رکھا جائے گا کہ پنجاب حکومت نے سول ججوں کی ریکارڈ اسامیوں کی منظوری دی، جن پر سینکڑوں جج بھرتی ہوئے اور اب وہ کام کر رہے ہیں۔ججوں کی کمی کا رونا ہم کب تک روتے رہیں گے۔ کچھ ذمہ داری عدلیہ کو بھی اپنے سر لینی چاہیے، اگر پولیس کام نہیں کرتی، بروقت چالان نہیں بناتی اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہے تو عدلیہ قانون میں ترمیم کرکے اس کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ اسی طرح دیوانی مقدمات میں دادا کے بعد پوتے کو انصاف ملنے کی روایت کم از کم 2016ء میں ختم ہو جانی چاہیے۔ وکلاء کی طرف سے جو بھی تاخیری حربے آزمائے جائیں، جج صاحبان میں اتنی جرات ہونی چاہیے کہ وہ مجوزہ ٹائم فریم کے اندر مقدمات کے فیصلے کریں، چاہے ان پر کتنا ہی دباؤ ڈالا جائے۔
2016ء میں دفتری نظام کی اصلاح پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ دو ہفتے پہلے مجھے دوبار لاہور سیکرٹریٹ جانے کا موقع ملا، مجھے وہاں کے دفتری عملے سے مل کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ان کا رویہ انتہائی دوستانہ، بلکہ مودبانہ تھا۔ وہ سائل کو اچھوت سمجھنے کی بجائے اس کا مسئلہ حل کرنے کی عادت میں مبتلا نظر آئے جو بڑی حیران کن بات ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ وہاں وزراء، سیکرٹری اور دیگر عمال حکومت ہر وقت بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی دوسرے اہلکاروں کو خلقِ خدا سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنے پر اُکساتی ہے؟ اگر یہ بات درست ہے تو پھر صوبے کے طول و عرض میں بیٹھے ہوئے سرکاری کارندوں کی اکڑ فوں کا سبب سمجھ میں آتا ہے، انہیں کسی کا ڈر خوف نہیں ہوتا، اس لئے آنے والے سائلوں سے ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے، جیسے غلاموں سے مل رہے ہوں۔ خادم اعلیٰ جتنی مرضی وڈیو کانفرنسیں کرتے رہیں، ان کا کیمرہ بند ہوتے ہی ضلعوں میں بیٹھے ہوئے افسران پھر فرعونی لبادہ اوڑھ کر خلقِ خدا پر عذاب ڈھانے لگتے ہیں۔ بیورو کریسی اور سرکاری مشینری کو سیدھا کرنے کے لئے شہباز شریف نے اپنے تئیں بہت کچھ کیا ہے۔ مختلف ادارے بنائے ہیں اور اپنے نمبر بھی دیئے ہیں، مگر ہوتا کچھ بھی نہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو نظام مسلط ہے ،اس میں بیورو کریسی کے پاس اس قدر زیادہ صوابدیدی اختیارات ہیں کہ وہ اپنے کسی بھی اقدام کو درست ثابت کرنے میں کامیاب رہتی ہے اور مظلوم سائل فریاد ہی کرتا رہ جاتا ہے۔ جب تک اختیارات کو سادہ اور دوٹوک نہیں بنایا جاتا اور عوام کو آگاہی نہیں ہوتی کہ ان کے حقوق کیا ہیں، اس وقت تک یہ ظالمانہ و جابرانہ نظام جاری رہے گا۔ توقع کرنی چاہیے کہ 2016ء میں دفتری نظام کی اصلاح اور اسے عوام دوست بنانے کے لئے اہم اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
کوئی مجھ سے ناراض نہ ہو، مَیں یہ توقع بھی ضرور کروں گا کہ 2016ء میں پولیس اصلاحات بھی نافذ کی جائیں گی۔ یہ ادارہ جواب ایک بے لگام ظالم گھوڑا بن گیا ہے، کسی قانون قاعدے کے تحت کام کرنے لگے گا ۔ جب بھی پولیس مظالم کی بات کریں، یہ جواب آ جاتا ہے کہ پولیس کی قربانیاں بھی دیکھی جائیں۔ اس کا مطلب ہے پولیس کے ظلم اور نااہلی کا کفارہ وہ پولیس ملازمین ادا کرتے ہیں جو مختلف مقابلوں میں شہید ہوجاتے ہیں؟اس سوچ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک پولیس کی اصلاح نہیں ہوگی، نہ لوگوں کو انصاف ملے گا اور نہ ہی جرائم کا خاتمہ ہو سکے گا۔ سندھ پولیس اپنی نااہلی اور پنجاب پولیس اپنے مظالم کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے، یہ دونوں ہی قابل قبول نہیں، پولیس کو تو تحفظ اور امن کی علامت ہونا چاہیے۔ جب تک پولیس کو ایک خود مختار محکمے کی شکل دے کر سیاسی دباؤ سے آزاد نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پولیس کلچر میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی، نئے سال میں امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں ضرور پیش رفت ہوگی۔۔۔ آخر میں سب سے بڑی توقع یہ ہے کہ اس سال کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس وقت کرپشن کے خلاف ایک فضا موجود ہے۔ بڑے بڑے کرپٹ افراد کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ سندھ حکومت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کرپٹ افراد کو بچا نہیں پا رہی۔ یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی کرپشن کے خلاف اسی قسم کا آپریشن شروع کیا جائے، جیسے سندھ میں جاری ہے، میری تجویز یہ ہے کہ 2016ء کو کرپشن فری سال کے طور پر منایا جائے اور اس کے لئے رینجرز اور ایف سی کو پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی اگر کراچی جیسے اختیارات دینے پڑیں تو دیئے جائیں۔ نئے سال میں یہ سب کام ہو سکتے ہیں اور ہونے چاہئیں تاکہ جب ہم 2017ء میں داخل ہوں تو ہمیں شرمندہ نہ ہونا پڑے۔