پی آئی اے آرڈیننس کی منسوخی ،سینیٹ کی قرار داد اخلاقی دباؤ کے سوا کچھ نہیں
تجزیہ : سعید چودھری
سینیٹ سے پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنانے اور اس کی ممکنہ نجکاری کے صدارتی آرڈیننس مجریہ 2015ء کومسترد کرنے کی قرار داد کی منظوری کے بعد کیا یہ آرڈیننس منسوخ ہوگیا ہے اور یہ کہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری پالیسی پر عمل درآمد کے لئے کیا آپشنز اختیار کرسکتی ہے ؟آئین کے آرٹیکلز 89اورآرٹیکل 73ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں ۔آرٹیکل 89کے ذیلی آرٹیکل 2(i)کے تحت قومی اسمبلی ایک قرار داد منظور کرکے صدارتی آرڈیننس کو منسوخ کرسکتی ہے تاہم اس کے لئے شرط ہے کہ وہ آرڈینس آرٹیکل 73(2)کے تحت مالی قانون کے زمرہ میں آتا ہو ۔آئین کے آرٹیکل 89کے ذیلی آرٹیکل 2(ii)کے تحت سینیٹ کو بھی ایسی قرارداد منظور کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔آئین میں وضاحت کردی گئی ہے کہ قرار داد کے ذریعے صرف مالی قانون کا آرڈیننس ہی منسوخ کیا جاسکتا ہے ،مالی قانون کے حوالے سے بھی پارلیمنٹ کے اختیارات کو آرٹیکل 73ذیلی آرٹیکل 2تک محدود کردیا گیا ہے ۔آرٹیکل73(2)میں مختلف امورکی 7اقسام بیان کی گئی ہیں جن کے بارے میں جاری کیا گیا صدارتی آرڈیننس پارلیمنٹ کے کسی ایک ایوان کی قرار داد کے ذریعے منسوخ کیا جاسکتا ہے ۔یہ 7امور درج ذیل ہیں ۔ نمبر 1۔کسی ٹیکس کا عائد کرنا ،منسوخ کرنا،ردوبدل کرنا ۔نمبر2۔وفاقی حکومت کی جانب سے رقم ادھار لینا ،مالی ضمانت دینا اور مالیاتی وجوب سے متعلق قانون میں ترمیم کرنا ۔نمبر3۔وفاقی مجتمع سرمایہ کی تحویل ،اس سرمایہ میں رقوم کی ادائیگی یا اس میں سے رقوم کا اجراء۔نمبر4۔وفاقی مجتمع سرمایہ پر کوئی وجوب عائد کرنا یا کسی وجوب کو منسوخ کرنا یا ردوبدل کرنا۔نمبر5۔ وفاق کے حسابات عامہ کی بنا پر رقوم کی وصولی یا ایسی رقوم کی تحویل یا اجراء۔نمبر6۔وفاقی حکومت یا ایک صوبائی حکومت کے حسابات کا آڈٹ اور نمبر 7۔مذکورہ معاملات سے متعلق کوئی بھی ضمنی امر۔دوسرے لفظوں میں صرف یہی وہ مالی امور ہیں جن کے بارے میں جاری کیا گیا صدارتی آرڈیننس پارلیمنٹ کے کسی ایک ایوان کی قرار داد سے منسوخ ہوسکتا ہے ۔پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈکمپنی یا اس کی نجکاری سے متعلق صدارتی آرڈنینس آئین کے آرٹیکل 73(2)کے تابع نہیں ہے اس لئے اسے منسوخ کرنے سے متعلق سینیٹ کی قرارداد کو کسی قانون کا درجہ حاصل نہیں ہے تاہم حکومت پر یہ ایک اخلاقی دباؤ ضرور ہے ۔آئین کے تحت صدر کی طرف سے جاری کیا گیا آرڈیننس 120دن تک نافذ العمل رہتا ہے یا جب تک کہ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری نہ مل جائے۔آئین میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ کسی مسودہ قانون کو مالی بل قرار دینا کس کا اختیار ہے اس کی بھی آئین میں وضاحت کردی گئی ہے ۔پی آئی اے سے متعلق صدارتی آرڈیننس کے مالی قانون ہونے یا نہ ہونے کا کوئی تنازع بھی پیدا ہوجائے تو آئین کے آرٹیکل 73(4)کے تحت اس کا فیصلہ کرنا سپیکر قومی اسمبلی کا اختیار ہے ،اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ "اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ایک مسودہ قانون ایک مالی مسودہ قانون ہے یا نہیں تو اس تنازع پر قومی اسمبلی کے سپیکر کا فیصلہ حتمی ہوگا"۔سینیٹ سے اس قرار داد کی منظوری پروزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ہاؤس عددی برتری سے کسی فیصلے کو بلڈوز کرے تو یہ اچھی روایت نہیں ،سینیٹ کی قرار داد حرف آخر نہیں بلکہ اور بھی کئی راستے ہیں ۔وہ آئینی راستے کیا ہوسکتے ہیں ؟ سینیٹ کے ارکان نے حکومت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ پی آئی اے سے متعلقہ اس صدارتی آرڈیننس کو منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو سینیٹ اسے مسترد کردے گا۔قومی اسمبلی میں حکومتی جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہے جبکہ سینیٹ میں وہ اقلیتی جماعت ہے ۔اس موضوع پر سینیٹ میں موجود جماعتوں کو قائل کرنا حکومت کے لئے انتہائی مشکل ہوگا ،حکومت اس آرڈیننس کو قانون کے ذریعے دائمی شکل دینے کے لئے اسے قومی اسمبلی سے منظور کروالے اور سینیٹ سے مسترد ہونے کے بعد اسے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کئے جانے کا آئینی راستہ موجود ہے ،اگر مشترکہ اجلاس ہوتا ہے تو اس میں حکومتی جماعت کو اکثریت حاصل ہوگی اور اس کے لئے آرڈیننس کوقانون کی شکل میں منظور کروانا مشکل نہیں ہوگا۔