ایل ڈی اے کی زمین پر تھانہ لیاقت آباد کا قبضہ ،واپڈا حکام کی ملی بھگت سے کنڈے بھی ڈال لئے
لاہور(وقائع نگار) لیاقت آباد میں کئی سالوں سے ایل ڈی اے کی سرکاری زمین پر تھانہ لیاقت آباد نے قبضہ کیا ہوا ہے، تاہم آج تک ان کے کے خلاف کو قانونی کارروائی نہیں کی گئی ۔صوبائی دارالحکومت میں "خادم اعلی پنجاب "کے حکم پر شہر بھر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری و ساری ہیں ۔ تھانہ لیاقت آبادکے علاوہ گرد و نواح میں قائم تمام تجاوزات کوتوڑ پھوڑ کر ملیا میٹ کر دیا گیا ہے لیکن ایل ڈی اے اورنشتر ٹاؤن کے افسران سمیت دیگر عملہ پولیس پرمہربان ہوگیا ہے جبکہ غیر قانونی طور پر قائم تھانہ لیاقت آباد ایل ڈی اے کی سرکاری زمین پر واقع ہے اورتھانے کا مین دروازہ ،حفاظتی چبوترہ، حوالات،ایس ایچ اوز اور محررصاحبان کے کمرے بھی غیر قانونی تجاوزات میں آتے ہیں ۔ تھانہ لیاقت آباد کی باری آتے ہی ایل ڈی اے کے عملہ نے پولیس کی غیر قانونی عمارت کو گرانے پر گھٹنے ٹیک دیے ہیں جو کہ ارباب اختیار کی جانب سے غریب اور بے کس عوام کے ساتھ ناانصافی اورکھلم کھلاتضادہے ۔ کیوبلاک فلیٹوں میں واقع تھانہ لیاقت آباد میں آج تک بجلی کا میٹر نہیں لگ سکا ہے ۔شیر جوانوں نے بجلی کی تاروں کے ساتھ ڈائریکٹ کنڈے ڈال کر قومی خزانے کو لاکھوں روپے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تھانہ لیاقت آباد کے نڈر سپاہیوں نے حکام کی ملی بھگت سے ایل ڈی اے کی درجنوں دکانوں پرناجائزقبضہ کیا ہواہے اوروہاں پر بھی بجلی کے میٹر وں کانام ونشان تک نظر نہیں آتاہے۔اسکے علاوہ ڈائریکٹ بجلی کی تاریں فلیٹوں میں لگاکر بھی بجلی کا بے دریغ اورکھلم کھلا استعمال کیا جا رہا ہے ۔قریبی دکانوں میں بھی یہ ہی حال ہے ان تمام دکانوں پر بجلی کے میٹر وں کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی کیونکہ پولیس کی ملی بھگت کی وجہ سے بجلی چوری کر کے فری استعمال کی جاتی ہے تاہم واپڈا ملازمین پولیس کا نام سنتے ہی کارروائی کرنے سے مارے خوف کے کانپنے لگتے ہیں۔لیاقت آباد میں 1978میں قائم ہونیوالے ایل ڈی اے کے فلیٹوں میں نامعلوم افراد نے4جواں سالہ دوشیزاؤں کو بداخلاقی کے بعد قتل کردیا تھا جس کے بعد مقامی رہائشی لال شاہ نامی شخص نے اپنی کاوشوں کے بعد ایل ڈی کے فلیٹوں میں 1983کی دہائی میں پولیس چوکی قائم کروادی جسے 1992میں لیاقت آباد تھانے کا درجہ دے دیا گیا۔واضح رہے کہ یہ ایل ڈی اے کے فلیٹس اور اس سے ملحقہ دکانیں جس میں اب تھانہ لیاقت آباد قابض ہو چکا ہے میو ہسپتال کے ملازمین کو الاٹ ہوئی تھیں اور آج تک انہی کے نام پر الاٹمنٹ چل رہی ہے۔ تھانہ لیاقت آباد کے علاقہ میں سروے کے دوران معلوم ہوا کہ پولیس نے ایل ڈی کے متعدد فلیٹوں اوردکانوں پر قبضہ کرکے وہاں نجی ٹارچر سیل قائم کر رکھے ہیں جہاں پر پولیس خطرناک ملزمان کو منتقل کرکے اپنی روایتی تفتیش کا آغاز کرتے ہیں ۔واضح رہے کہ کچھ ایسے خطرناک ملزمان بھی یہاں پر موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مقامی باسیوں کو سنگین خطرات کا سامنا رہتا ہے کیونکہ انہیں چھڑوانے کے لیے ان کے دیگر ساتھی کسی بھی وقت وہاں پر حملہ کرسکتے ہیں ۔جس کے باعث شہریوں کی جان ومال کو انتہائی خطرات لاحق ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بڑا سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔لیاقت آباد کے علاقہ میں سروے کے دوران شہریوں ناصر،جمیل،احمد علی،رضوان علی،شاہد طفیل،نذیرباجوہ،اخلاق،سرمد،کاشف اور متعدد افراد نے کہا کہ شہر بھر میں تجازوات کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے لیکن ہمارے ملک میں انوکھاقانون ہے کہ ہمیشہ غریب طبقہ ہی اس طرح کے حکومتی فیصلوں کے زیر تاب آتا ہے اور جوسرکاری لوگ ہیں ان کا ایک تنکابھی نہیں توڑا جاتااس کی زندہ مثال تھانہ لیاقت آبادہے جسے نشتر ٹاؤن کے افسران ودیگر عملہ نے تھانے کو گرانا تو دور کی بات اسے آنچ تک نہیں آنے دی ہے جبکہ ایل ڈی کے عملے نے پورے علاقے کو تجازوات سے پاک کرنے کی "قسم "اٹھا رکھی ہے ۔اس دوہرے معیار کی وجہ سے مقامی رہائشیوں نے اپیل کرتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے کہ ایل ڈی اے کی اس شرمناک دوغلی پالیسی اپنانے پران کرپٹ افسران جو کہ پولیس "مافیا"کے ساتھ ملے ہوئے ہیں کے خلاف سخت ایکشن لے کر کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ غریب عوام کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کا کچھ توازالہ ممکن ہو سکے ۔تھانہ لیاقت آباد اور ملحقہ دکانوں پر بجلی چوری کے حوالے سے جب تھانہ میں رابطہ کیا گیا تو محرر نے بتایا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں کہ یہاں پر میٹر لگا ہوا ہے کہ نہیں جب سے میں یہاں پر تعینات ہوا ہوں میں نے بجلی کا میٹر نہیں دیکھا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ بجلی کا بل باقاعدگی سے آتا ہے پر میٹر کبھی نظر نہیں آیا۔