حکومتی پالیسی سازوں سے سوال

حکومتی پالیسی سازوں سے سوال
 حکومتی پالیسی سازوں سے سوال

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اسلام آباد میں چھتیس لاکھ کم وسیلہ خاندانوں کے لئے صحت کارڈ کے اجراء سے دو، تین روزقبل ایوان وزیراعلیٰ لاہور میں خدمت کارڈ جاری کرنے کی تقریب تھی۔ خدمت کارڈخصوصی افرادکو جاری کئے جا رہے ہیں جو معاشرے کے دیگر ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند افراد کی طرح اپنا روزگار نہیں کما سکتے۔ کسی نے کہا کہ بارہ سو روپے مہینہ دے کر تو پنجاب حکومت نے حاتم طائی کی قبر کو لات ماری ہے اور میر اجواب تھا کہ کھاتے پیتے لوگوں کو مہینے کے ان بارہ سو روپوں کی اہمیت کا علم نہیں، جن سے کم از کم گھر کا ایک، آدھ بل ہی ادا ہوجائے گا۔ میں اس تقریب میں موجود تھا اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے دل کے درد کو ان کے الفاظ میں محسوس کر رہا تھا۔وزیراعلیٰ حافظ آباد میں اس نوجوان کے پاس بھی پہنچے جس کے ہاتھ مبینہ طور پرچارہ کاٹنے والی مشین میں ڈال کر کاٹ دئیے گئے تھے، مانانوالہ کے بااثر افراد اورپولیس کی طرف سے اسے اتفاقی حادثہ قرار دیا جا رہا تھا مگر وزیراعلیٰ کی عیادت نے معاملے کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کو یقینی بنا دیا۔ کچھ دوست وزیراعلیٰ کی طرف سے ایسے معاملات کے نوٹس لئے جانے یا تحقیقات کے لئے کمیٹیاں بنائے جانے پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس کے باوجود ان معاملات کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جس کی توقع کی جا رہی ہوتی ہے۔کیا اس امر کی حمایت کی جا سکتی ہے کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کسی معاملے کا نوٹس ہی نہ لیں ، اس نوٹس لینے سے جامد اور بدعنوان افسرشاہی میں حرکت پیدا ہوتی ہے مگر بہرحال انصاف اورعدالتی فیصلوں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جیسے ہی الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا پر کوئی معاملہ اٹھے، مبینہ ملزم کو اسی وقت عوامی رائے پر انتہائی سزا بھی سنا دی جائے۔ دوسرے ہم سب اپنا اپنا سچ بولتے ہیں۔ اصل حقیقت تک پہنچنے کے لئے تحقیقات از حد ضروری ہیں۔ آج تنقید برائے تنقید کے شوق میں ہم اس مثبت کام کو منفی بنا کے پیش کر رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر پنجاب کو کوئی ایسا چیف ایگزیکٹو مل جائے جو معاملات کا دنوں تک نوٹس نہ لے، مظلوموں کوبیوروکریسی کے روایتی ہتھکنڈوں کے سامنے تنہا اور بے بس چھوڑ دے، پھرہم کیا کہیں گے؟


موضوع تو فلاحی ریاست کی طرف بڑھتے ہوئے قدم ہیں، فلاحی ریاستیں کم وسیلہ لوگوں کے لئے خصوصی منصوبے تیار کرتی ہیں اور شہباز شریف کی حکومت سستی روٹی سے خود روزگار تک ایسی ڈھیر ساری سکیمیں چلاتی رہی ہے ۔ ان میں سے بعض کو فلاپ بھی کہا جا سکتا ہے مگر اس کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان سے بہت ساروں کی مدد بھی ہوئی۔خدمت کارڈ کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے تقریب میں ایک سے زائد مرتبہ کہا کہ اس کے لئے انہوں نے اور ان کی ٹیم نے بہت محنت کی ہے اور یہ کہ اس میں شفافیت کوخصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔ تفصیلات بیان کی گئیں کہ دو لاکھ سے زائدخصوصی افراد کو دو ارب روپوں کی خطیر رقم سے ماہانہ بارہ سو روپے ہی نہیں دئیے جائیں گے بلکہ مصنوعی اعضا، وہیل چئیرز اور دیگر معاون آلات بھی فراہم کئے جائیں گے،اس کے ساتھ ساتھ کام کرنے کی اہلیت رکھنے والوں کوبلا سود کاروباری قرضے اور مفت فنی تربیت بھی فراہم کی جائے گی۔ سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کا صحت کارڈ ہو یا وزیراعلیٰ کا خدمت کارڈ، کیا یہ سکیمیں کامیاب ہوں گی۔خدمت کارڈ کے اشتہار میں درج ہے کہ دو لاکھ سے زائد افراد کی سہ ماہی مدد ہو گی جبکہ ایک دوسری جگہ بریفنگ میں پونے دولاکھ کا ذکر تھا۔ ہم تصور کر لیتے ہیں کہ یہ تعداد دو لاکھ ہی ہے۔ دولاکھ افراد کو ماہانہ بارہ سو روپے ملنے کامطلب یہ ہے کہ ہر مہینے چوبیس کروڑ اور ہر سال دو ارب اٹھاسی کروڑ یعنی تین ارب کے قریب رقم صرف ماہانہ امداد کے لئے درکارہوگی۔مصنوعی اعضاء، قرضوں اور فنی تربیت پر اخراجات اس سے الگ ہو سکتے ہیں لہذا سوال یہ ہے کہ جب آپ دو ارب مختص کریں گے تو تین ارب سے زائد کی سکیم کیسے چلاسکیں گے۔ یہ سادہ سی جمع تفریق ہے اور مجھے علم نہیں کہ اس تفاوت پر وزیراعلیٰ کے مطابق بہت زیادہ محنت کرنے والی بیورو کریسی نے غور کیوں نہیں کیا۔اعداد و شمار کے یہ ہیر پھیر ایسے منصوبوں کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں، اس قسم کی خامیاں سکیم کے بہترین انداز میں چلنے میں رکاوٹ پیدا کرتیں اوراپنے زیادہ سے زیادہ اثرات دکھاتے ہوئے اسے ناکام بھی بنا دیتی ہیں۔


وزیراعظم نے صحت کارڈ کا اجراء کیا، یہ طویل عرصے سے زیر غور سکیم تھی اور مسلم لیگ نون کے منشور میں بھی شامل ہے۔ یہ پریکٹس بہت ساری جدید اور کامیاب ریاستیں اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے پنجاب حکومت تعلیم کے نظام میں اس سے ملتا جلتا ماڈل اپنائے ہوئے ہے۔ یہاں ایجوکیشن فاونڈیشن اور انڈوومنٹ فند کے ذریعے غریب اورمستحق خاندانوں کے قابل بچوں کی مدد کرتے ہوئے انہیں مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ میں ان سکیموں کی حمایت کرتا ہوں مگر یہاں میرا سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ نون کے حکومتی پالیسی سازوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ ان کے لئے سرکاری سطح پر صحت اور تعلیم کے ادارے چلانا سردردی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جہاں ایک طرف وائے ڈی اے جیسی تنظیموں نے ہسپتالوں میں ناطقہ تنگ کر رکھا ہے تو دوسری طرف نااہل اور عدم دلچسپی کے حامل اساتذہ نے سرکاری تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کا بیڑہ غرق رکھا ہے ۔مجھے ایک مرتبہ ایک فیصلہ ساز نے بتایا تھا کہ سرکاری سکولوں میں ایک بچے پر حکومت جتنا خرچ کرکے جس معیار کی تعلیم دیتی ہے، پرائیویٹ سطح پر اتنے ہی خرچ میں تین سے چار طالب علموں کو اس سے کہیں بہتر معیار کی تعلیم فراہم کی جا سکتی ہے۔ اگر حکومت واقعی یہ سمجھتی ہے کہ وہ غریب اور مستحق لوگوں کی صحت ، تعلیم اور روزگار سمیت دیگر شعبوں میں براہ راست مدد کر کے اپنے ہسپتال اور تعلیمی ادارے چلانے کی سردردی سے بچ سکتی ہے اور لوگوں کونجی شعبے کے ذریعے کہیں بہتراورمعیاری سہولتیں بھی فراہم کر سکتی ہے تو باقاعدہ اعلان کردے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ نجی شعبہ آگے بڑھے گا مگر فی الوقت اعتراض یہ ہے کہ اس طرح حکومت آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ کر رہی ہے۔ وہ وقت نہ آئے کہ ہماری حکومت نہ تواس سکیم کو چلا سکے اور نہ ہی اس نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ہسپتال اور تعلیمی اداروں جیسی عمارتیں بنائی ہوں۔ مجھے پنجاب حکومت کا وہ وقت یاد ہے جب ڈاکٹرز اس سوچ کے تحت کنٹریکٹ پر بھرتی کئے جانے شروع کر دئیے گئے کہ اس کے نتیجے میں پرفارمنس بہتر ہو گی مگر عملی طور پرنتیجہ یہ نکلا کہ ہیلتھ ڈپیارٹمنٹ میں پورے کا پورا سروس سٹرکچر ہی تباہ ہو کے رہ گیا۔مسلم لیگ نون کے پالیسی سازوں سے جواب درکار ہے کہ وہ ان بنیادی سوالوں پرکیا حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں۔ انہیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ دو کشتیوں کے سوار ڈوب جاتے ہیں۔

مزید :

کالم -