افغان سیاسی اور عسکری قیادت سے جنرل قمر جاوید باجوہ کا رابطہ
چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور آرمی چیف جنرل قدام شاہ رحیم کو فون کیا، افغان قیادت کو نئے سال کی مبارک باد دی اور خطے میں امن و استحکام پر زور دیا اور دہشت گردی کے خلاف تعاون پر بات چیت کی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان سے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک میں امن خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ افغان قیادت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو دورۂ افغانستان کی دعوت دی۔
اس امر میں تو ذرہ بھر شبے کی گنجائش نہیں کہ امن و امان نہ صرف دونوں ملکوں کی بنیادی ضرورت ہے بلکہ خطے میں پائیدار امن سے ہی ترقی و خوشحالی کا سفر شروع ہو سکتا ہے۔ افغانستان کئی عشروں سے بد امنی کی آگ میں جل رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ اُمید تھی کہ یہ آگ بجھ جائے گی اور افغانستان اور خطے کے لوگ سکھ کا سانس لیں گے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسرے ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں، جو ملک میں امن نہیں ہونے دیتے۔ افغان طالبان جن حالات میں نمایاں ہوئے اور ان کی قوت میں اضافہ ہوا وہ بھی بدامنی کی پیداوار تھے، روسی افواج کی رخصتی کے بعد امید تو یہ تھی کہ ملک میں امن قائم ہو جائے گا لیکن متحارب فریق آپس میں اُلجھ پڑے جن مجاہد تنظیموں نے سوویت یونین کو اپنے وطن سے نکالنے میں کردار ادا کیا تھا وہ بھی باہم دست و گریباں ہو گئیں، یہ سلسلہ جب پھیلنے سے نہ رک پایا اور بڑھتا ہی چلا گیا تو طالبان کی ایک نئی مسلح قوت افغانستان میں اُبھر کر سامنے آئی، جس کا پہلے سے چرچا نہ تھا اور اگر کہیں تھا تو بہت ہی محدود علاقے میں، جب افغانستان کے شہر اور قصبے ان کی قوت کے سامنے یکے بعد دیگرے سپر انداز ہونے لگے تو طالبان نے اپنی حکومت قائم کر لی۔
افغان طالبان کی یہ قوت روائتی سیاسی اور عسکری قوتوں سے مختلف تھی اور ان لوگوں کا طرزِ حکمرانی بھی جداگانہ تھا، کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ امور جہانبانی میں تو زیادہ تربیت یافتہ نہ تھے لیکن یہ عوامی ضروریات کے تقاضوں کو کماحقہ سمجھتے تھے۔ عوامی نفسیات کا گہرا شعور رکھتے تھے جب اقتدار سنبھال کر یہ امن و امان کی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہوئے تو مجموعی طور پر ان کی حکومت کا خیر مقدم کیا گیا۔ جو مجاہد تنظیمیں آپس میں لڑ جھگڑ کر اپنی فوجی قوت کا کباڑہ کر چکی تھیں وہ اس صورت میں طالبان کی مزاحمت کے قابل نہ تھیں، چنانچہ انہوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور دُنیا ان کے سادہ انداز حکمرانی کو موجودہ ادوار کی حکومتوں کی روائتی شان و شوکت کے پیمانے سے پرکھتی تو اُسے مایوسی ہوتی۔ لیکن یہ لوگ اپنے فہم و شعور کے مطابق اپنے ملکی امور چلانے لگے تو ملک کے اندر ان کے نئے حامی بھی پیدا ہونے لگے، خاص طور پر جن علاقوں کے لوگ ہتھیاروں کی بو سے تنگ آ کر امن کے گوشے تلاش کر رہے تھے انہوں نے طالبان کی حکومت کا خیر مقدم کیا، البتہ دنیا میں اس حکومت کو مختلف زاویوں سے دیکھا گیا، عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پروپیگنڈے اور حقیقت کا ملغوبہ اس طرح دُنیا کے سامنے لایا گیا کہ روشن خیال دُنیا والے افغانوں کی اس حکومت کو ماضی کے تاریک ادوار کی حکومتوں سے ملا کر دیکھنے لگے، طالبان نے اپنے دور میں نہ صرف امن بحال کیا بلکہ افغانستان سے پوست کی کاشت کا بھی خاتمہ کر دیا جو اس سے پہلے اور بعد میں بھی کبھی ممکن نہ ہوا تھا۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کا خیال تھا کہ جن لوگوں نے یہ حملہ کیا وہ اس کی پلاننگ افغانستان میں بیٹھ کر کر رہے تھے اور اُسامہ بن لادن ان سب کا سربراہ تھا چنانچہ افغانستان سے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر امریکہ نے نیٹو ملکوں کے ساتھ مل کر افغانستان پر حملہ کر دیا۔ طالبان کی حکومت ختم کر کے ، حامد کرزئی کا اقتدار قائم کر دیا گیا، امریکی اور نیٹو افواج افغانستان میں آکر بیٹھ گئیں، ملک میں جو امن طالبان نے قائم کیا وہ عنقا ہو گیا اور افغان عوام کی آزمائش کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا۔فوری طور پر تو افغان طالبان کی طاقت بکھر گئی تاہم یہ قوت چونکہ افغانستان کے اندر سے اٹھی تھی حالات کے تقاضے کے تحت یہ دوبارہ مجتمع ہو گئی اور امریکی افواج کی موجودگی کو چیلنج کردیا، نتیجہ یہ نکلا کر افغانستان کے خراب حالات سے پاکستان بہت زیادہ متاثر ہونے لگا اور 15 سال قبل دہشت گردی کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز ہوا جو اب تک ختم ہونے میں نہیں آ رہا، خودکش بمبار بھی اسی دور میں متعارف ہوئے اور پھر یہ سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔
پاکستان نے دہشت گردی کے اس سلسلے سے بڑے صدمے اُٹھائے ہیں ہزاروں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں جن کا کوئی نعم البدل میسر نہیں، پاکستان کی معیشت کو 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا جھٹکا لگا جس کی تلافی کے لئے آئندہ کئی برس لگیں گے اس کے باوجود پاکستانی قوم اور اس کی سیاسی و عسکری قیادت نے حوصلہ نہیں ہارا، دو برس قبل ایک نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی کے ایسے مقابلے کا سلسلہ شروع کیا جس سے پوری دنیا حیران و پریشان ہو گئی، محدود وسائل کے باوجود پاکستان کی افواج نے زبردست نتائج دکھائے دہشت گردوں کے ٹھکانے، کمین گاہیں، فیکٹریاں، اسلحہ اور بارود کے ذخیرے تباہ کر دیئے اور ان علاقوں سے جہاں دہشت گرد ریاستی قوت کو چیلنج کر رہے تھے انہیں نکال دیا، دہشت گردوں کے جو لوگ بچ کر چلے گئے انہوں نے افغانستان میں جا کر نئے سرے سے اپنے ٹھکانے بنا لئے اور وہاں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف نئی سازشیں کرنے لگے،
وزیر اعظم نوازشریف نے حکومت سنبھال کر افغان حکومت کو یہ پیغام دیا کہ دونوں ملکوں کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہئے کہ اس سے خطے کا بھی فائدہ ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی یہی پیغام دیا لیکن افغانستان میں یہ تاثر بظاہر پختہ ہو گیا تھا کہ افغان طالبان کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے اور وہ اس کے ایما پر افغانستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں اگرچہ پاکستان نے صدق دل سے افغانستان میں امن کے لئے کام شروع کر دیا تھا لیکن بھارتی پروپیگنڈے کے زیر اثر صدر اشرف غنی پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہتے ہیں بلکہ امرتسر کی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھی انہوں نے پاکستان پر نکتہ چینی کا موقع ضائع نہ کیا، حالا نکہ روس کے مندوب نے پاکستان کی خصوصی طور پر تعریف کی کیونکہ انہی دنوں پاکستان اور روس کی مشترکہ فوجی مشقیں ہو رہی تھیں جن کا مقصد دہشت گردی کا مقابلہ کرناہے۔ ان مشقوں کے دوران روسی فوجی افسروں اور جوانوں نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی جس کا روس معترف تھا، چین اور ترکی نے بھی اس الزام تراشی کا جواب دیا۔
اب نئے سال کے آغاز پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو مبارک کا جو پیغام دیا ہے وہ خوش آئند ہے اور توقع ہے کہ افغان قیادت اس خیر سگالی کا جواب خیر سگالی کے جذبے سے دے گی۔ اگر کوئی غلط فہمیاں اب بھی موجود ہیں تو انہیں بیٹھ کر تبادلہ خیال کے ذریعے رفع کیا جا سکتا ہے پاکستان میں دہشت گردی کی بنیادی وجہ افغانستان کے حالات ہیں اگر افغانستان میں سیاسی صورت حال مستحکم ہوتی اور وہاں نان سٹیٹ ایکٹرز حکومت کے کنٹرول میں ہوتے تو کبھی ایسی صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔ پاکستان نے ہر موقع پر افغان امن کی کوشش کی ہے اور افغان قیادت کے ساتھ اظہار خیر سگالی کیا ہے تازہ ترین رابطہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہوا ہے۔ توقع ہے کہ اس طرح بد گمانیوں کے بادل چھٹیں گے اور افغانستان کو بالآخر یہ یقین آ جائے گا کہ پاکستان اس کا دوست ہے دشمن نہیں ہے۔ غلط فہمیوں کی دھند کو اب چھٹ جانا چاہئے۔