عمران خان مایوس نہ کریں

عمران خان مایوس نہ کریں
 عمران خان مایوس نہ کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمیں ان بچوں اور خواتین پر ترس آتا ہے جنھوں نے اپنی محدود سیاسی سوجھ بوجھ اور ناپختگی میں عمران خان کو پاکستان کے مسائل کا نجاب دہندہ مان کر پانامہ مقدمے اور انتخابات کے دوران ٹی وی ٹاک شوز دیکھ دیکھ کر اپنے آپ کو ہلکا ن کرلیا تھا ۔ آج حکومت کے 100 دن مکمل ہونے پر ان کے چہروں پرموجود امیدو ناامیدی کے ملے جلے تاثرات کو بآسانی پڑھاجا سکتا ہے اور اب انہوں نے اپنی ساری امیدیں آہستہ آہستہ چیف جسٹس ثاقب نثار سے لگانا شروع کردی ہیں اور معصومیت سے پوچھتے نظر آتے ہیں کہ کیا چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع ہو سکتی ہے ۔ ہم وزیر اعظم عمران خان سے گزارش کریں گے کہ ان خواتین اور بچوں کو مایوس مت کریں جنھوں نے اپنے خوابوں کے شہزادے سے پاکستان کے مسائل کے حل کی امیدیں باندھ لی تھیں کیونکہ ان کی مایوسی کا مطلب آئندہ کئی نسلوں کی مایوسی ہوگی جس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس طرح سے مایوسی پر قابو نہیں پا سکتے،جس طرح جہاندیدہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے مر د حضرات پا سکتے ہیں۔


یاد آیا کہ عمران خان اپنی انتخابی مہم کے آخری راؤنڈ میں لاہور تشریف لائے تو پتہ چلا کہ وہ اندرون شہر مختلف جگہوں پر خطاب کریں گے جس کا آغاز داتا دربار کے سامنے ایک جلسے سے خطاب سے ہونا تھا۔ شام کو عمران خان وہاں پہنچے تو سامنے ان کے سامعین میں اکثریت بچوں کی تھی۔ کامیڈین افتخار ٹھاکر نے تاریخی جملہ کہا تھا کہ پتہ نہیں چلتا کہ خان صاحب جلسے سے خطاب کرنے آئے ہیں یا بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے آئے ہیں ۔ خیر تب عمران خان نے مسکراتے ہوئے تقریر کا اختتام اس تاکید پر کیا تھا کہ بچو اپنے گھر کے بڑوں کو تحریک انصاف کو ووٹ ڈالنے کے لئے مجبور کرنا !۔۔۔ان بچوں نے ایسا ہی کیا،مگر اب خان صاحب ان کی امیدوں پر پورا اُترتے ہوئے پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔


ادھر یونیورسٹی میں نوجوانوں سے پوچھا کہ ان کے نزدیک حکومت کے 100دن کیسے رہے تو انہوں نے اپنے اپنے انداز میں تاثرات بیان کئے ، تاہم ان میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ عمران خان تو پوِتر ہیں البتہ ان کے وزراء پاپی ہیں ۔ مثال کے طور پر ان کا خیال تھا کہ اعظم سواتی نے اگر غلط کیا تو اسے سپریم کورٹ سے سزا مل رہی ہے اور ضرور ملنی چاہئے ، اسی طرح اگر قانون دان ڈاکٹر بابر نے ٹھیک نہیں کیا تو اسے بھی سزا ملنی چاہئے وغیرہ وغیرہ ۔

ہم نے ان سے کہا کہ یہ رویہ تو ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کپتان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے کھلاڑیوں کو کوس رہے ہیں اور عمران خان کو ایسے ہی کچھ نہیں کہہ رہے ہیں جیسے نکڑ میں بیٹھے دہی سے روٹی کھانے والے بچے کو ماں کچھ نہیں کہنے دیتی۔ اگر اعظم سواتی نے غلط کیا تو بطور وزیر داخلہ عمران خان نے آئی جی اسلام آباد کو ٹرانسفر کیا ، اگر پاکپتن میں خاتون اول کے سابق شوہر کو پولیس نے تنگ کیا تو ڈی پی او رضوان کے بارے میں آئی جی سے فون کرکے عمران خان نے معلومات لیں اور بعد میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں جو کچھ ہوا وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس پر وہ نوجوان کہنے لگے کہ سرہم نے تو پہلی بار تجربہ کیا ہے ، آپ ہی بتائیں کہ اگر عمران خان کامیاب نہیں ہوتا تو باقی کے سیاستدانوں کو تو میڈیا اس قدر کرپٹ اور گندے دکھاتا ہے کہ ان کو ووٹ ڈالنے کو دل ہی نہیں مانتا۔ یہ ہے وہ مایوسی جو معاشرے کے بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو گھیرے ہوئے ہے ، اگر مزید 100دنوں میں وہ اس مایوسی سے باہر نہ آئے تو انہیں دوبارہ سے راغب کرنا ممکن نہ ہوگا۔


وہ جو مسحور رہتے تھے تری خوش کن اداؤں میں
مسلسل گھورتے رہتے ہیں بیٹھے اب خلاؤں میں
یہ بازو لڑ نہیں سکتے ہیں پانی کے تھپیڑوں سے
انہیں وہ باندھ رکھتا ہے ، چلاتا ہے ہواؤ ں میں
گئے وہ دن کہ کہتے تھے ستارے توڑ لائیں گے
سجھائی کچھ نہیں دیتا پھنسے ہیں کن گھپاؤں میں
جسے کچھ بھی نہیں آتا اسے حاکم بناتے ہیں


ہمارا ملک چلتا ہے تو آ جا کر دعاؤں میں
ولید اس ملک پر آسیب کا سایہ مسلسل ہے
ہمیں مارا مصیبت نے ، گھرے ہیں ہم بلاؤں میں
یہی وجہ ہے کہ مریم نواز ایک مرتبہ پھر بغاوت کا علم اٹھانے کو تیار نظر آتی ہے اور اگر آصف زرداری کو بھی نواز شریف جیسا سلوک سہنا پڑا تو بلاول بھٹو بھی طبل جنگ بجادیں گے ۔ پھر ادھر سے وہ نکلے گی تو ادھر سے وہ آئے گا اور یہ نوجوان قیادت مل کر عمران خان کے بڑھاپے کو ایکسپوز کردے گی۔


بغاوت کا علم اس نے اٹھایا، طبل جنگ بجایا ہے
ادھر دیکھو وہ نکلی ہے،لو دیکھو وہ بھی آیا ہے!
پھر ایک ہی للکار ہوگی جو سندھ اور پنجاب سے بیک وقت اُبھرے گی ، تب عمران خان کے پھٹے ڈھولوں کی ڈم ڈم کوئی نہیں سنے گا!
بلاول ہے مقابل میں کوئی زرداری نہیں !
وہ بہادر ماں کا بیٹا ہے ، بھٹو کا نواسہ ہے
آصف علی زرداری کے لئے تو زندان ویسے بھی دائمی گھر ایسا ہے ۔

مزید :

رائے -کالم -