قائداعظم محمد علی جناحؒ کا پاکستان…… اور ہم
قائد اعظم ؒنے نظامِ حکومت میں میرٹ کو اوّلین ترجیح دی۔ آپؒ کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا، آپ شفاف کردار کے مالک انسان تھے۔ ان کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔ قائد اعظمؒ پاکستان میں ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے، جو پوری دنیا کے لیے ایک مثال ہو ہمیں قائد اعظمؒ کے فرمودات پر عمل کرنا چاہیے۔
13 جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں ارشاد فرمایا: ”اسلام ہماری زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ، زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے، جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں“۔ 25۔ جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں فرمایا: ”آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانہئ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں، آپ کی عزت و تکریم کروڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام تر عظیم شخصیتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔
میں ایک عاجز ترین انتہائی خاکسار بندہ ناچیز اتنی عظیم، عظمتوں کی بھی عظیم ہستی کو بھلا کیسے نذرانہئ عقیدت پیش کر سکتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عظیم مصلح تھے، عظیم رہنما، عظیم قانون دان تھے، عظیم سیاستدان تھے، عظیم حکمران تھے“۔ فروری 1948ء کو امریکی عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”ہماری خارجہ پالیسی کا اصل اصول تمام اقوامِ عالَم کے لیے دوستی اور خیرسگالی کا جذبہ ہے۔ ہم دنیا کے کسی ملک یا قوم کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے۔ ہم قومی اور بین الاقوامی معاملات میں دیانت اور انصاف کے اصول پر یقین رکھتے ہیں“۔
12اپریل 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں فرمایا: ”یاد رکھئے! کہ آپ کی حکومت آپ کے ذاتی باغ کی مانند ہے۔ آپ کے باغ کے پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ اس کی کتنی نگہبانی کرتے ہیں اور اس کی کیاریوں اور روشوں کو بنانے اور سنوارنے میں کس قدر محنت کرتے ہیں اسی طرح آپ کی حکومت بھی، صرف آپ کی وطن پرستی، مخلصانہ اور تعمیری کوششوں کی بناء پر ترقی کر سکتی ہے۔ حکومت میں اصلاح کا واحد طریقہ آپ کی بے لوث محنت ہے“۔ 14/اپریل 1948ء کو پشاور میں افسرانِ حکومت سے خطاب میں آپ نے فرمایا: ”آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ آپ کو کسی جماعت یا کسی سیاستدان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی طرح کے دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے مملکت کے لیے آپ کی خدمت وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے“۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء ان تمام باتوں کا مظہر ہے۔ آئین کا آرٹیکل 2 ”اسلام ریاست کا مذہب ہو گا“ …… اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کو مملکت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہو گی اور اس کے لیے کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا“۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے تمام قوانین اسلام کے سانچے میں ڈھالے جائیں گے جو اسلامی قوانین سے متصادم ہوں گے، تاکہ صحیح معنوں میں اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دیا جا سکے۔ ”شریعت کورٹ“، ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کو خصوصی طور پر یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ تمام قوانین کا جائزہ لے اور کوئی قانون ان کی نظر میں ”اسلامی تعلیمات“ سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کی تنسیخ کرنے کے لیے سفارش کی جائے تاکہ پارلیمنٹ اس کی تنسیخ کے لیے قانون وضع کرے“۔
یاد رہے! ان الفاظ کی بجائے کہ ”کوئی بھی قانون، قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا“ کی بجائے یہ الفاظ ہوں کہ ”ہر قانون، قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے گا“ تو اس سے پہلے جو قانون سازی کرنا پڑتی ہے، کیا ہی بہتر ہو کہ قانون کے مسودے کو ”شریعت کورٹ“ اور ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کے ذریعے سے شروع (Initiate) کیا جائے تو وہ اس قانون کو شروع ہی سے ”قرآن و سنت“ کے مطابق ڈھال کر پارلیمنٹ کو پیش کریں تاکہ پارلیمنٹ کی مختلف ”زیادہ ریڈنگ“ جو ہوا کرتی ہیں، اس سے بچا جا سکے یا اُنہیں کم کیا جا سکے۔ اس سے قانون وضع کرنے پر، زیادہ وقت صَرف نہیں ہو گا، پارلیمنٹ کے کام میں بھی زیادہ آسانی ہو گی اور وقت کی بچت بھی۔ قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ، مولانا ظفرعلی خاں ؒ اور دیگر مشاہیر کو درسی نصاب کا حصہ بنایا جانا ازبس ضروری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آرٹیکل 2 قراردادِ مقاصد احکام کا حصہ ہو گا، یہ تو گویا ”دریا کو کوزے میں بند کرنے“ کے مترادف ہے۔ تمام اسلامی شقیں اس کے اندر موجود ہیں، جبکہ آرٹیکل 251 ”قومی زبان“ سے متعلق ہے۔ جس کے بارے میں سپریم کورٹ سے فیصلہ بھی آ چکا ہے کہ اسے سرکاری / دفتری زبان بنایا جائے۔ اسی آرٹیکل کے تحت 15برس کے اندر اس کو نافذ کرنا تھا۔ اب تو سارے کا سارا ”اردو لٹریچر“ بھی تیار ہو چکا ہے۔ بڑی بڑی ضخیم اُردو لغت بھی تیار ہو چکی ہیں۔ اب اس کو نافذ کرنا ہے۔
یاد رہے! ”قومی سوچ“ ہی قومی اور اسلامی یکجہتی پیدا کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گی، اسی سے تحقیق کی نئی راہیں کھلیں گی، نئی نئی تحقیقات کے لیے راستے کھلیں گے۔ کیونکہ اپنی زبان میں سوچنا اور غور کرنا …… ان سب تحقیقات اور دریافتوں کا باعث بنے گا۔ یہی سوچ سیاسی اور معاشی استحکام کی ضمانت ثابت ہو گی۔ قوم کو ذہنی غلامی سے نجات حاصل ہو گی، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ”اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ“ سے یعنی ”دینے والا ہاتھ“ لینے والے ہاتھ سے افضل ہوتا ہے۔ اسی سے قومی تشخص پیدا ہو گااور ”قومی خود داری“ کی پذیرائی ہو گی۔ قوم میں ”خودی“ پیدا ہو گی اور اس کی آبیاری کرنے میں ”قومی زبان اردو“ ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین