راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی  (6) 

راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی  (6) 
راوین تاریخ نگار: خالد مسعود صدیقی  (6) 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ہمارے ایک مشفق استاد لٹریچر کی کلاس ہر سال ایک  تعارفی وضاحت سے شروع کیا کرتے تھے۔ یہی کہ کسی ادب پارے کو سمجھنے کے لئے تین بنیادی نکات پہ توجہ دینی چاہئیے:: مصنف، ماحول اور مرحلہء تاریخ۔ انگریزی میں اُن کے الفاظ تھے: ”مَین، مِلیو، مومنٹ آف ہسٹری۔“ گویا لکھاری کی اپنی زندگی، وہ ماحول جس میں لکھاری کی ذہن سازی ہوئی اور تاریخ کا وہ مرحلہ جو تحریر کا سیاق و سباق فراہم کر رہا ہے۔ اِس پہلو سے دیکھیں تو خالد مسعود صدیقی  کی تازہ تاریخِ گورنمنٹ کالج میں بانیء ادارہ پروفیسر جی ڈبلیو لائٹنر کے بعد طویل ترین سربراہی کا اعزاز ڈاکٹر خالد آفتاب کے حصے میں آیا۔ خوش قسمتی یہ کہ مَیں نے اِس عہد آفریں شخصیت اور گرد و پیش کی جھلکیاں بھی دیکھیں اور وہ عمل بھی جو جی سی یو کے نام سے پاکستان میں عمومی تعلیم کی اولین یونیورسٹی کے قیام پر منتج ہوا۔


ڈاکٹر خالد آفتاب 17 جنوری 1993 ء کو پرنسپل مقرر ہوئے اور کوئی دس سال بعد کالج کو یونیورسٹی کا درجہ مِل جانے پر اِس سے کچھ کم عرصہ بانی وائس چانسلر رہے۔ مورخ خالد مسعود صدیقی نے نظم و ضبط کی بحالی، حیران کُن شعبہ جاتی توسیع، نصابی اور ہم نصابی پھیلاؤ، انتظامی مسائل اور اُن کے ساتھ خوش نیتی اور حوصلہ مندی سے نمٹنے کی مرحلہ وار روئداد163  صفحات میں بیان کی ہے۔ ساری تفصیل اعداد و شمار سے مزین، لہجہ امکانی حد تک معروضی، افسانہ طرازی کا کوئی شائبہ نہیں۔ آغاز البتہ اِس ذاتی حوالے سے کہ خالد آفتاب جو گورنمنٹ کالج کے طالب علم، استاد اور اکنامکس ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین رہے ادارے کے طبعی و تمدنی خد و خال سے  آگاہ تو تھے ہی۔ ساتھ ہی انہیں یہ واضح شعور بھی تھا کہ آئندہ کِس کِس چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُس سے نبرد آزما ہونے کے لئے کیا منصوبہ بندی ہونی چاہیئے۔


ہر سچے تاریخ نگار کو تعلق اور لاتعلقی کے درمیان ایک عالمِ اعراف میں رہنا ہوتا ہے۔ اِسی لئے خالد مسعود صدیقی نے جی سی سے جذباتی لگن کی شکل میں مورخ کے ابتدائی مشاہدات  اور اپنے ممدوح کی بچپن کی یادوں کے درمیان مشابہت کا ذکر نہیں کیا۔ مجھے یہ مشابہت ڈاکٹر خالد آفتاب کے افسانوی مجموعوں سے زیادہ اُن کی آپ بیتی میں دکھائی دی جو ’آزمائشوں کے مقابل‘ کے زیرِ عنوا ن  2017 ء میں ’سنگِ میل‘ نے انگریزی میں شا ئع کی تھی۔ خالد آفتاب نے یاد دلایا ہے کہ مز نگ روڈ پہ واقع اپنے گھر سے سنٹرل ماڈل جاتے ہوئے وہ ہر صبح پرانی انارکلی، پنجاب پبلک لائبریری اور میو اسکول آف آرٹس کے قریب سے گزرتے۔ یہاں سے مال روڈ پار کی جاتی اور پھر گول باغ سے ہو کر منزلِ مقصود کا راستہ۔ یہ روز کا معمول تھا لیکن کبھی کبھی دل مچلنے لگتا کہ کیوں نہ گورنمنٹ  کے اندر سے گزرا جائے۔  


خالد آفتاب نے اپنی کتاب میں بچپن کی اِس بے تابی کا تعلق گورنمنٹ کالج کی عمارت سے جوڑا تھا جس کا طرزِ تعمیر دیکھ کر بے ساختہ مغربی دنیا کی روایتی درسگاہیں دھیان میں آنے لگتی ہیں۔ ایک روز جی سی کے احاطے میں اِس نو عمر طالب علم کو کالج کے ایک مالی نے  دیکھا لیا اور راستہ روک کر ڈانٹا کہ یہ عام لوگوں کے گزرنے کا راستہ نہیں۔ اِسی آپ بیتی میں خالد آفتاب نے ناول نگارچارلس ڈکنز کی سی معصومانہ بصارت سے کام لیتے ہوئے اُس زمانے کے لاہور کا نقشہ بھی کھینچا  تھا۔ وہ لاہور جہاں صبح صبح دھلی ہوئی سڑکیں تر و تازگی کا منظر پیش کرتیں اور دو رویہ سرسبز پود ں کی آبیاری اور بروقت شاخ تراشی کی بدولت مرجھائے ہوئے پھول پتوں کا تنکا تک دکھائی نہ دیتا۔ یہی شاداب پھول پتے  خالد آفتاب کے لئے نئی نسل کا استعارہ ہیں جن کی آبیاری اور شاخ تراشی فطری نشو ونما کا پیش خیمہ ہونی چاہیئے۔  


نسلِ نو کے لئے خالد آفتاب کے یہ خواب اُسی دن منکشف ہونے لگے تھے جب نو زائیدہ لیکچرر کے طور پہ میری رسائی پہلی مرتبہ اسلم منہاس کے فائن آرٹس اسٹوڈیو تک ہوئی، جو اب انہی کے نام سے موسوم ہے۔ خالد آفتاب کی ہم نشینی اور اسلم منہاس کی میزبانی میں یہ خواب ہم نے چائے اور محکم دین کے بسکٹوں کی محفل میں دیکھے۔ اِس یومیہ کانفرنس میں ضیاالدین ڈار، مشکور حسین  یاد اور خالد مسعود صدیقی کے ساتھ مَیں یوں ٹِکی ہو جایا کرتا جیسے دیہاتی رُوٹ پر مسافر بس کی سِیٹ پہ تین بڑوں کے ساتھ آدھی سواری زبردستی بٹھا دی جاتی ہے۔ باقی شرکائے محفل کو کون نہیں جانتا؟ خالد مسعود صدیقی میرے انگلش ڈپارٹمنٹ کے سینئر جنہوں نے زیرِ ِ نظر تاریخ مرتب کی، مشکور حسین یاد معروف مزاح نگار اور شاعر، پھر یاروں کا یار ضیا الدین ڈار جس کی بے وقت رحلت ہم جیسے پست ہمتوں کو جینے کا حوصلہ دے گئی۔ 


پوری منظر کشی کے لئے اپنے ہی چند جملے کاپی پیسٹ کرتا ہوں جن میں ڈاکٹر خالد آفتاب کے پہلے افسانوی مجموعے کی اشاعت کو مَیں نے ایک خوشگوار صدمہ کہا تھا۔ صدمہ اِس لئے کہ فائن آرٹس اسٹوڈیو کی تھڑے بازی میں اکنامکس ڈپارٹمنٹ کا یہ استاد اردو کی بجائے انگلش میڈیم طرز کے رکھ رکھاؤ کا مالک تھا۔ معروف ریڈیو ٹی وی پرو ڈیوسر عارف وقار کہا کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کو چِٹّے رنگ کے آدمی میں خوامخواہ تکبر کا انداز دکھائی دیتا ہے۔ خالد صاحب کے ہیرس ٹویڈ والے کوٹ کو اُن کے ڈر سے مَیں نے ہمیشہ کوٹ کی بجائے جیکٹ ہی کہا۔ ایک ہاتھ میں براؤن رنگ کا ولایتی بریف کیس اور دوسرے میں اسموکنگ پائپ پکڑ کر جب چلنے لگتے تو انگریزوں کی طرح اُن کی گردن افقی سمت میں باقی جسم سے کوئی دو انچ آگے دکھائی دیتی۔ جیسے کسی افسر نے نظر نہ آنے والی سلیمانی وردی پہن رکھی ہو“۔    


یہ وردی نہیں صرف کم آمیزی کا استعارہ ہے بلکہ ہر کسی سے ’ایویں‘  فری ہو جانے سے گریز کا رویہ۔ جیسے یہی واقعہ کہ 1993ء میں وزیراعظم نے خالد آفتاب کو گورنمنٹ کالج کی پرنسپل شپ پیش کی تو اُس اولین ملاقات میں وہ نظم و ضبط کے بارے میں وزیر اعظم کی تشویش پر یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ”کالج کی صورتحال کس حد تک خراب ہے اِس کا اندازہ یوں لگائیے کہ فی الوقت طلبہ کے ایک گروپ کی قیادت مئیر لاہور کے بیٹے کے ہاتھ میں ہے۔ جب تعلیمی ادارے کے سربراہ کو اُن گروپوں سے نمٹنا پڑے جن کی پُشت پناہی سیاسی جماعتیں کر رہی ہوں تو یہ کام کتنا مشکل ہوگا۔“ گورنر ہاؤس میں یہ گفتگو ہوئی تو عین اُس وقت مئیر  لاہور وزیر اعظم کے ساتھ صوفے پر تشریف فرما تھے۔ وزیر اعظم نے جھینگا مچھلی کی پلیٹ خالد صاحب کی طرف بڑھاتے ہو کہا:”یہ prawns  ٹرائی کیجئے۔ بہت عمدہ ہیں۔“ 


اگلے دن خالد آفتاب نے بچوں کو اسکول ڈراپ کیا اور پرنسپل کا عہدہ  سنبھالنے حسبِ معمول سوزوکی ایف ایکس میں سوار گورنمنٹ کا لج پہنچ گئے۔ اُس روز پہلے مہمان مئیر لاہور ہی کے صاحبزادے تھے جنہوں نے اپنا تعارف مسلم لیگ (ن) کی طلبہ تنظیم کے لیڈر کے طور پہ کرایا۔ ساتھ ہی یہ عہد کہ ”جناب کو میری سپّورٹ حاصل رہے گی۔“ نئے پرنسپل کا جواب بالکل سیدھا اور د وٹوک تھا: ”مجھے آپ کی سپّورٹ درکار نہیں اور آئندہ کبھی آنا ہو تو اسٹوڈنٹ لیڈر کی حیثیت سے نہیں، عام طالب علم کے طور پر آئیں۔ خالد آفتاب کے اِس طرزِ عمل کو کسی نے بھی فوری تحسین کی نگاہ سے نہ دیکھا۔ لیکن اِس اقدام سے کالج میں قانون کی بحالی کا عمل شروع ہو گیا۔ بحالی کے مراحل گنوانے پر خود میری آخری قسط کو کتنی پذیرائی ملے گی؟ جواب کچھ بھی ہو، سچ بولنا داد بٹورنے کے مقابلے میں زیادہ بڑی ذمہ داری ہے۔(جاری ہے)

مزید :

رائے -کالم -