سیاست، لیڈر اور عوام
یہ تو ہم بھی کئی برسوں سے سن رہے ہیں، لاہور نوازشریف کا گڑھ ہے لیکن سعد رفیق اور عطا تارڑ نے لاہور میں مسلم لیگی ورکرز کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ عجیب سوال اُٹھایا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں کون سے ترقیاتی کام کرائے ہیں جو الیکشن لڑنے لاہور آ گئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری جو اس عزم کے ساتھ لاہور آئے ہیں کہ پنجاب کو تسخیر کریں گے، سرپرایز دیں گے، ایک قومی جماعت کے سربراہ ہیں، جس کی مضبوط جڑیں لاہور میں بھی ہیں، بلکہ ایک زمانہ تو بھٹو دور میں ایسا بھی گزرا ہے جب لاہور کو پیپلزپارٹی کا گڑھ کہا جاتا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے 1986ء میں جلا وطنی کے بعد لاہور اترنے کا فیصلہ بھی اسی لئے کیا تھا اور ان کا فقید المثال استقبال کر کے لاہوریوں نے پیپلزپارٹی سے اپنی وابستگی بھی ظاہر کر دی تھی۔ سو اگر بلاول بھٹو زرداری نے لاہور سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے تو انتظار کرنا چاہئے، لاہور کے عوام ان کے بارے میں کیا فیصلہ دیتے ہیں، اس قسم کی باتیں جیسی مسلم لیگی رہنماؤں نے کی ہیں، اگر نہ ہی کی جائیں تو بہتر ہے۔
قومی سطح کے لیڈروں کو محدود نہیں کیا جا سکتا پھر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگی اگر کراچی سے انتخاب لڑیں گے تو یہ سوال وہاں بھی اٹھایا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی کا ذکر کر کے یہ باتیں ہوں گی کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے چار مرتبہ کے اقتدار میں پنجاب کے لئے کیا کیا ہے، جو کراچی میں انتخاب لڑنے آ گئی ہے پھر یہ بھی ہے کہ شہروں کے حوالے سے کسی خاص جماعت کاقلعہ ہونے کی باتیں اب مفروضے بن کر رہ گئی ہیں۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) پنجاب حکومت کھو بیٹھی تھی، ملتان جو کبھی پیپلزپارٹی اور بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کا قلعہ کہلاتا تھا، تحریک انصاف نے فتح کر لیا تھا اور کلین سویپ کر کے دونوں جماعتوں کو حیرت زدہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی تھی۔ اب تو خیر حالات ہی بدل گئے ہیں، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، لاہور کے ووٹرز کا موڈ بدلا بدلا ہوا ہے، نوازشریف کی لندن سے واپسی پر مینار پاکستان کے احاطے میں ہونے والے جلسے کی یہ بات بطور خاص نوٹ کی گئی کہ اس میں لاہور کے عوام کی تعداد بہت کم تھی، شرکاء کی اکثریت پنجاب بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں سے آئی تھی سیاست پر نظر رکھنے والوں کو خبر ہے کہ لاہور سیاسی طور پر ایک زندہ شہر ہے۔ اہل لاہور مئی کے مادھو نہیں۔
ایک زمانے میں تو یہ بھی کہا جاتا تھا جو تحریک لاہور سے اُٹھتی ہے، اسے کوئی نہیں دبا سکتا، کسی خاص جماعت کا گڑھ ایسے شہر نہیں بنتے جو سیاسی طور پر بیدار ہوں، وہ حالات کے مطابق اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔موجودہ حالات میں تو سیاست کا رنگ ڈھنگ ہی بدل چکا ہے، لاہوریوں کے مزاج میں اب مزاحمت کا رنگ نمایاں ہے۔ تحریک انصاف کولاہور سے مائنس نہیں کیا جاسکتا، سوشل میڈیا پر جو سروے جاری ہیں، ان میں تحریک انصاف کی مقبولیت نمایاں نظر آ رہی ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش اگر کی بھی جائے کہ لاہور میں اس بار مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہوگا تو اس کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف کو امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت نہ دی جائے، اگر اس کے امیدوار میدان میں ہوئے تو انتخابات کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہو گا اور گڑھ بننے والی بات کہیں اور چلی جائے گی۔ عوام کو ابھی تک یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس کرنے کا پشاور ہائیکورٹ نے جو فیصلہ دیا اس پر شہبازشریف کیوں اتنے گرجے برسے، سیاسی جماعتوں کے لئے تو یہ یکجہتی کی بات ہونی چاہیے کہ ہر جماعت اپنے مخصوص انتخابی نشان پر الیکشن لڑے ایسے فیصلوں پر معترض ہو کر گویا آپ یہ تاثر دے رہے ہوتے ہیں آپ کی پوزیشن کمزور ہے۔ آپ مقابلے کی سکت نہیں رکھتے۔ گرجنا برسنا تو اس صورت میں مناسب لگتا ہے جب کسی جماعت کا انتخابی نشان دوسری جماعت کو الاٹ کر دیا جائے۔ ایک جماعت یا اس کے مقبول انتخابی نشان کو انتخابی عمل سے باہر کرکے الیکشن جیتنے کی خواہش جمہوریت کو بے توقیر کرنے کے مترادف ہے۔
اس وقت سیاسی منظر پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ انتخابات انجینئرڈ ہوں گے۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے دعوے اور ارادے دھندلا رہے ہیں، یہ بات کم از کم جمہوریت کے لئے نیک شگون ہرگز نہیں، الیکشن کمیشن ایسا ماحول پیدا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے کہ جس میں انتخابات کے شفاف ہونے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ کاغذات جمع کرانے اورسکروٹننگ کے مرحلے پر جو کچھ ہوا ہے اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اس تاثر کو زائل نہ کیا گیا تو آگے چل کر مزید گہرا ہوتا جائے گا۔ شاید مسلم لیگی حلقے اس بات پر خوش ہوتے ہوں کہ نوازشریف کے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کا تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے لیکن یہ خوشی کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟ انتخابی مہم سے پہلے اور الیکشن کے بغیر ایسا تاثر پیدا ہو تو وہ مثبت کی بجائے منفی ہوتا ہے۔ ایک بڑے سیاسی لیڈر کے لئے جو تین بار ملک کا وزیر اعظم بھی رہ چکا ہو، ایسے تاثر کا جنم لینا در حقیقت اس کے سیاسی مرتبے کو کم کرتا ہے، سیاست تو ایک جدوجہد کا نام ہے۔ نوازشریف مزاحمت کی سیاست کرتے رہے ہیں اور ان کی تین بار حکومت بھی وقت سے پہلے اسی وجہ سے ختم کی گئی۔ یہ نوازشریف ہی تھے جنہوں نے 2017ء میں اپنی حکومت کے خاتمے پر ووٹ کو عزت دو کی تحریک چلائی تھی اور ایک بڑے لیڈر کے طور پر اُبھرے تھے جو جمہوریت اور عوام کے حق رائے دہی کا پیامبر تھا، اس وقت اور آج کے نوازشریف میں بہت فرق ہے۔ ژاں پال سارتر نے جو فرانسیسی فلسفی تھا، یہ رائے دی تھی کہ جمہوریت میں سب سے بڑے جج عوام ہوتے ہیں ان کی اس بات کو آگے بڑھائیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ عوام ہی سیاستدانوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، ان کی باتوں اور فیصلوں سے ان کے بارے میں اپنی رائے متعین کرتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی سیاست کے تین بڑے کردار ہیں۔ نوازشریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری، آصف علی زرداری کا نام اس لئے نہیں لیا کہ آج کل پیپلزپارٹی کی ساری مہم بلاول بھٹو زرداری چلا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس اپنی ماں کی شہادت اور نوجوان رہنما ہونے کا سیاسی حوالہ ہے۔ عمران خان اس وقت جیل میں ہیں اور مزاحمت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ دنیا بھر کی تاریخ میں یہ ایک مسلمہ حقیقت رہی ہے۔ جب کوئی سیاسی رہنما جیل میں ڈالا جاتا ہے تو عوام کی نظر میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ تیسرے ہیں نوازشریف، جس تیزی کے ساتھ انہیں انصاف فراہم کیا گیا، مقدمات سے رہائی ملی، پروٹوکول دیا گیا، اس سے یہ تاثر ملا کہ وہ ایک ڈیل کے نتیجے میں پاکستان آئے ہیں اور چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بھی بن جائیں گے۔ یہ سادہ سا منظر نامہ ہے کون سا شہر کس کا گڑھ ہے، اس کا فیصلہ تو تبھی ہو سکتا ہے جب عوام کو حق رائے دہی کا ازادانہ موقع فراہم کیا جائے جس کے امکانات فی الوقت نظر نہیں آ رہے۔
