یادگار الیکشن مہم، حیران کن نتائج
1993ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے بھرپور الیکشن مہم انوکھے اور یاد گار انداز میں چلائی تھی۔ ہیلی کاپٹر کے ذریعے مختلف شہروں اور دیہات میں جلسوں سے خطاب کی بڑی شہرت ہوئی تھی۔ جس روز الیکشن ہوا ووٹروں کا جوش و خروش دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ نوازشریف جیت جائیں گے۔ رات دس بجے کے بعد تمام لیگی رہنما اپنے اپنے حلقوں میں جا چکے تھے تاکہ نتائج معلوم کر کے اپنے حامیوں کے ساتھ جشن منا سکیں۔ نوازشریف اور شہباز شریف اپنے والد میاں شریف کی خدمت میں معمول کے مطابق تبادلہ خیالات کر رہے تھے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد حکومت بنانے اور مختلف ایشوز پر عملدرآمد سے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ شریف فیملی کے با اعتماد اور دیرینہ ساتھی سیف الرحمن (احتساب پروگرام والے) بھی کھانا کھانے کے بعد گفتگو میں شریک رہے۔ انہیں متوقع کامیابی کا اس حد تک یقین تھا کہ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ اگر کامیابی نہ ہوئی تو پھر کیا کریں گے۔ آنے والے حالات کے بارے میں دھیان نہیں گیا۔ تاہم چند گھنٹوں بعد مختلف صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔
جانتے کب تھے، نیا شہر بسانے والے
حادثے ہوں گے، گماں تک میں نہ آنے والے
سیف الرحمن نے نوازشریف کے سیکرٹری خیام قیصر کے ساتھ ٹیلیفون ایکسچینج بیٹھ کر پنجاب اور صوبہ سرحد (موجودہ پختونخوا) کے حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی فہرست نکالی اور طے شدہ پروگرام کے مطابق ہر حلقے میں لیگی امیدوار، ریٹرننگ آفیسر، ایس پی/ ڈی آئی جی سے رزلٹ لینا شروع کئے۔ اس وقت دس بارہ لیگی کارکنوں اور شریف فیملی کے دو تین ڈرائیور صاحبان کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ میں چونکہ ہیلی کاپٹر کا مستقل صحافی تھا۔ نوازشریف اچھے موڈ میں تھے انہوں نے شام چار بجے تک لاہور کے مختلف پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کرنے کے بعد اپنے داماد کیپٹن (ر) صفدر کے گاؤں جا کر چائے پینے کا پروگرام بنا لیا۔ اس وقت واحد صحافی میں ہی موجود تھا تین چار لیگی رہنما سہیل ضیا بٹ کے ہمراہ چلنے کے لئے تیار تھے۔ اس وقت سبھی لوگ اپنے اپنے حلقوں میں ووٹوں کی گنتی اور برآمد ہونے والے نتائج معلوم کرنے کے لئے جا چکے تھے۔ تین چار ملازمین کو ساتھ چلنے کی ہدایت کی گئی اور مغرب سے پہلے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر نوازشریف کا ”قافلہ“ کیپٹن (ر) صفدر کے گاؤں پہنچ گیا۔ نوازشریف اور دیگر افراد نے نماز مغرب ادا کی۔ اس دوران کیپٹن (ر) صفدر اپنے ملازمین کے ہمراہ ایک بڑا پتیلہ اور لکڑیاں لے کر آ گئے تھے چائے کے لئے تمام لوازمات بھی میسر تھے۔ نوازشریف مختلف مقامات پر لیگی امیدواروں کی پوزیشن معلوم کرتے رہے۔ سہیل ضیا بٹ لطیفے سنا کر سب کو محظوظ کرتے رہے۔ ہر جگہ سے اچھی خبریں مل رہی تھیں۔ نوازشریف بہت خوش تھے۔ چائے تیار ہو گئی۔ ڈرائیوروں والی چائے بنوائی گئی تھی۔ کھانے کے لئے سینڈوچز اور سموسے بھی دیئے گئے۔ تقریباً آٹھ بجے وہاں سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ لاہور پہنچ کر نوازشریف کے اس قافلے کا خیر مقدم شہباز شریف اور ان کے ملازمین نے کیا جس کے بعد نوازشریف اپنے والدین بیگم صاحبہ اور بچوں سے ملنے چلے گئے۔ پھر سیف الرحمن اور خیام قیصر کا رزلٹ پروگرام شروع ہوا۔
رات تقریباً ساڑھے بارہ بجے سیف الرحمان خوشی سے سرشار مبارک ہو۔ میاں صاحب مبارک ہو۔ مبارکاں جی مبارکاں کے نعرے لگاتے ہوئے ٹیلیفون ایکسچینج سے برآمد ہوئے اور نوازشریف سے ملنے گھر کے اندر چلے گئے۔ شہباز شریف نے باہر آ کر بتایا کہ ہمیں 54 فیصد سیٹوں پر کامیابی ہوئی ہے۔ جن حلقوں کے رزلٹ نہیں ملے وہ چند حلقے ہیں۔ چند لیگی رہنماؤں کو یہ اطلاع دی گئی تو ہر طرف مبارکباد کے پیغام آنے لگے شہباز شریف نے کہا کہ بھئی مٹھائی منگواؤ۔ ایک لیگی کارکن تین کلو مٹھائی کا ٹوکرا لے آیا۔ وہاں میرے اور شہباز شریف کے علاوہ دس بارہ لوگ موجود تھے مٹھائی کھا رہے تھے کہ سینئر صحافی نذیر ناجی صاحب خوشی سے جھومتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے دیوانہ وار شہباز شریف کو جپھا ڈال کر مبارک جی مبارکاں مبارکاں کہا اس کے جواب میں شہباز شریف کی چیخ نکل گئی کیونکہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید درد ہوا۔ ”او مار سٹیا جے ناجی صاحب!“ بمشکل کہا اور قریبی کرسی پر بیٹھ گئے۔
وہاں جتنے لوگ موجود تھے ایک دوسرے کو مٹھائی کھلا رہے تھے کہ نوازشریف بھی وہاں آ گئے میں نے ان کو مبارک دی تو انہوں نے مٹھائی کا ٹکڑا کھلایا۔ جس کے بعد وہ مبارکباد وصول کرتے ہوئے ٹیلیفون ایکسچینج میں گھس گئے۔ مختلف لوگوں سے رابطے شروع ہو گئے مبارک سلامت کا سلسلہ اس وقت کم ہوا جب یہ تشویش ہونے لگی کہ ٹیلیوژن پر لیگیوں کی کامیابی کی خبریں کم آ رہی ہیں ٹیلیفون ایکسچینج کے اڑھائی تین فٹ کے شیشے سے اندر دیکھا جا سکتا تھا اس وقت شہباز شریف ایک کرسی پر بیٹھے تھے ایک کارکن ان کی کمر کو دبا رہا تھا۔ چند لمحوں کے لئے وہ اندر نوازشریف سے ملنے گئے۔ باہر آ کر انہوں نے بتایا کہ بعض لیگی امیدواروں نے بتایا ہے کہ انہیں جو رزلٹ ریٹرننگ آفیسر نے دیا ٹی وی پر خبریں اس کے برعکس آ رہی ہیں کئی امیدواروں نے بتایا کہ انہیں ٹیلیفون کر کے بلوایا گیا۔ ریٹرننگ افسر نے از سر نو نتیجے کا اعلان کیا تین چار ریٹرننگ افسروں نے نتیجے کا اعلان فوجی افسر کی موجودگی میں کیا۔ اُدھر نوازشریف بار بار جنرل (ر) مجید ملک چودھری برادران اور دیگر پارٹی رہنماؤں سے فون پر رابطہ کر رہے تھے اور پریشان دکھائی دے رہے تھے انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ صورت حال کیوں پیش ا ٓ رہی ہے۔
شہباز شریف نے اپنے والد میاں شریف کو صورت حال بتائی تو انہوں نے آرمی چیف جنرل کاکڑ سے بات کرنے کا مشورہ دیا کئی بار فون کرنے پر جنرل کاکڑ سے بات ہوئی تو انہوں نے نوازشریف کو مشوہ دیا کہ خاموشی اور سکون سے ٹی وی پر الیکشن سنتے رہیں۔ نوازشریف نے جب کچھ دیر بعد دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو بتایا گیا کہ جنرل صاحب سونے کے لئے بیڈ روم میں چلے گئے ہیں مزید بات چیت کے لئے نوازشریف سے کہا گیا کہ صبح گیارہ بجے اسلام آباد آ جائیں۔
رات اڑھائی بجے میاں شریف تہجد پڑھنے کے لئے واپس آئے۔ نوازشریف ان کے پاس گئے شہباز شریف نے کہا کہ ممتاز صاحب آپ بھی گھر جائیں کل صبح صورت حال واضح ہو گی۔ ان کا ڈرائیور مجھے گھر پہنچا کر چلا گیا تو نیند میری آنکھوں سے بھی غائب تھی سارے دن کی تھکن کے باوجود یہی سوال ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ نوازشریف کی کامیاب الیکشن مہم کو کس کی نظر لگ گئی۔ اگلی صبح ناشتے کے بعد جب میں اخبارات سے خبریں تلاش کر رہا تھا تو گھر کے اوپر سے ہیلی کاپٹر اڑتا ہوا دیکھ کر یاد ایٓا کہ نوازشریف آرمی چیف جنرل کاکڑ سے ملنے جا رہے ہیں میں نے دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا۔
