عدلیہ نے” اوباما کیئر“ کو بچا لیا (1)

عدلیہ نے” اوباما کیئر“ کو بچا لیا (1)
عدلیہ نے” اوباما کیئر“ کو بچا لیا (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی عدلیہ نے بالآخر صحت کے بارے میں صدر اوباما کی اصلاحات کے قانون کو آئینی قرار دے دیا ہے۔ صدر کے مخالفین طنزیہ اس بل کو ”اوباما کیئر“ کا نام دیتے تھے، حالانکہ یہHealth care Reforms ہے.... لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ تاریخ میں یہ بھی اسی نام سے یاد رکھا جائے گا۔ صدر اوباما کے انتخابی وعدوں میں سے یہ واحد وعدہ ہے، جو انہوں نے پورا کیا۔ اس وعدے کو بھی پورا کرنے میں بے حد تاخیر ہوئی اور یہ صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس کرایا جا سکا، تاہم سینٹ میں چونکہ ڈیمو کریٹس کو اکثریت حاصل ہے، اس لئے سینٹ سے بآسانی پاس ہو گیا تھا۔ ری پبلکنز نے اس بل کی بھرپور مخالفت کی۔ انہوں نے عدلیہ سے یہ توقع وابستہ کر رکھی تھی کہ عدلیہ اسے کالعدم قرار دے دے گی، لیکن اُن یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔اب وہ ببانگ دہل یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ برسر اقتدار آ کر اس بل کو ختم کر دیں گے۔
ری پبلکنز کو جج جان رابرٹس سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بل کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ یوں تو امریکہ میں جج غیر جانبدار ہوتے ہیں، لیکن سپریم کورٹ کے ہر جج کو ڈیمو کریٹک ری پبلکنز جج کے طور پر پہچانا جاتا ہے، چونکہ جج تاحیات ہوتے ہیں اس لئے کسی جج کے مرنے یا خال خا ل صورتوں میں مستعفی ہونے کی صورت میں صدر کسی جج کا نام ایوان میں پیش کرتا ہے، جہاں اس کے ماضی حا ل وغیرہ کے بارے میں بال کی کھال نکالی جاتی ہے اور بالآخر ضرورت سے فیصلہ ہوتا ہے کہ اسے جج تعینات کیا جائے یا نہیں۔ بعض اوقات جونہی صدر کسی شخص کا نام پیش کرتا ہے۔میڈیا یا کوئی دوسرے ذرائع اُس کے ماضی کا کوئی ایسا سکینڈل نکال لاتے ہیں کہ صدر کو اپنا انتخاب ایوان میں پیش کرنے سے پہلے تبدیل کرنا پڑ جاتا ہے اور ایوان میں ووٹ حاصل نہ کر سکنے کی صورت میں بھی صدر کوئی دوسرا نام سامنے لاتا ہے۔ اس طرح اگر برسر اقتدار صدر ڈیمو کریٹک ہو تو اس کا نامزد کردہ جج ووٹ حاصل کر کے جج بنے تو لوگ اسے ڈیمو کریٹ جج قرار دیں گے۔ یہی صورت حال اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے کہ صدر ری پبلکن ہو تو اس کا تعینات کردہ منتخب جج ری پبلکن جج سمجھا جائے گا۔ جان رابرٹ کو جارج بش نے نامزد کیا تھا، اس لئے جان رابرٹس کے فیصلے سے ری پبلکنز کو دوہرا صدمہ ہوا، جس کا برملا اظہار بھی کیا گیا۔

جان رابرٹس نے اپنی رائے کے اظہار میں جو کچھ کہا ہے وہ کئی نئی بات نہیںہے۔ صدیوں پہلے یہ طے ہو چکا ہے کہ امریکی اعلیٰ عدلیہ کو کسی بھی قانون کا جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے کہ آیا وہ قانون امریکہ کے آئین کے مطابق ہے یا نہیں کہ یہ امر طے شدہ ہے اور شہرت حاصل کرنے والے ہر شخص کو پڑھایا جاتا ہے کہ ”آئین امریکہ کا سپریم لاءہے“۔
البتہ جان رابرٹس نے اسے ایک اور انداز سے بھی واضح کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ” عدلیہ کا کام یہ نہیں کہ وہ یہ دیکھے کہ اس پر عمل درآمد کس طرح ہو گا یا اخراجات وغیرہ کیا آئیں گے، عدلیہ کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ یہ کسی طرح آئین اور آئینی اصولوں کے متخالف تو نہیں ہے۔ اسی بناءپر امیگریشن سے متعلق ریاست ایری زونا کا قانون کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اگرچہ اس کی ایک متنازعہ شق برقرار بھی رکھی ہے، لیکن عدلیہ کا فیصلہ ہے کہ امیگریشن کے سلسلے میں اختیارات وفاق کو حاصل ہیں، ریاست اس سلسلے میں قانون سازی کے ذریعے مداخلت نہیں کر سکتی۔
معلومات کی خاطر پہلے تھوڑی سی روشنی ہیلتھ کیئر سسٹم پر ڈال لینی چاہئے۔ امریکہ میں صحت کے دو پروگرام مروج ہیں۔”Medi aid“ جسے اُردو میں لکھنے پڑھنے والے حتیٰ کہ بعض امریکی بھی میڈی کیئر کہتے ہیں۔ دوسرا میڈی کیئر جسے اسی انداز میں ”میڈی کیئر“ غلط طور پر کہا جاتا ہے۔ صاحب ثروت لوگ کسی بھی نجی ہیلتھ انشورنس سے انشورنس کرا لیتے ہیں جس کا بھاری پریمیم ادا کرنا پڑتا ہے ایسا مریض جب ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس پہنچتا ہے، تو ڈاکٹر اور سارا سٹاف الرٹ ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ مریض اُن کی نظر میں” تگڑی سامی“ ہے، جس کی انشورنس کو بھاری بل ادا کرنے میں کوئی شامل نہیں ہو گا۔ اگر آپ امریکہ کے کسی ہسپتال میں زیر علاج ہیں تو جتنی بار ڈاکٹر آپ کے بیڈ پر آ کر آپ سے بات کرے گا اتنی بار کا بل وصول کیا جائے گا۔ امیر مریض کے بیڈ کے کئی چکر لگائے جائیں گے اور ہر چکر کی بھاری فیس وصول کی جائے گی۔
جو لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ اُن کے مالکان یا کمپنی اگر صحت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے، تو ایسی کمپنی انہیں کسی پرائیویٹ انشورنس کے ذریعے یہ سہولت فراہم کر دیتی ہے اور کمپنی سب ملازمین کا پریمیم ادا کرتی ہے، لیکن ایسے مالکان اور کمپنیاں اس معاملے میں بے حد کنجوس ہوتے ہیں۔ اکثر ہسپتالوں، لیبارٹریز وغیرہ کے بل دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
 اسی طرح علاج اور دواﺅں کی ادائیگی بھی ایک حد سے زیادہ نہیں کی جاتی۔ہسپتال اور ڈاکٹر اس حقیقت کو جانتے ہیں اور ان سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ان کے غیر اداشدہ بل بعد میں نادہندگی کے انشورنس وغیرہ سے ادا ہوجاتے ہیں۔
میڈک ایڈ ان لوگوں کے لئے سرکاری سہولت ہے، جو بے روزگار ہوں یا جن کی آمدنی ایک خاص حد سے کم ہو۔یہ سسٹم خود صحت کی سہولیات نہیں فراہم کرتا۔اس کے تحت کچھ پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں سے ٹھیکہ ہو جاتا ہے۔یہ کمپنیاں مستحق لوگوں کو اپنا ممبر بناتی اور انہیں میڈک ایڈ کی انشورنس دلاتی ہیں۔ایسی کمپنیوں میں آپس میں مقابلہ بھی چلتا ہے۔سہولتیں فراہم کرنے میں بھی اور زیادہ سے زیادہ ممبرسازی کے لئے بھی۔ان کمپنیوں کے ٹرک کسی گلی یا سڑک کے کنارے اپنے بینر لگا کر لوگوں کو راغب کرتے ہیں،وہاں پر ایک چھتری لگائے ان کا کوئی مرد یا خاتون ملازم لوگوں کو اس کے بارے میں سمجھاتے ہیں،ان سے فارم پُر کراتے ہیں اور ان کی مکمل معلومات لے کر انہیں ممبر بنا لیتے ہیں، ان کا کارڈ بذریعہ ڈاک گھر پر آ جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی میڈک ایڈ ایک سرکاری کارڈ بھی جاری کردیتا ہے۔یہ دونوں کارڈ مل کر کام کرتے ہیں اور ہسپتال اور فارمیسی میں ان کے حوالے سے سروس فراہم کی جاتی ہے۔
میڈک کیئر بھی اسی انداز کا پروگرام ہے، لیکن یہ عمررسیدہ لوگوں کے لئے ہے یا پھر ان لوگوں کے لئے جو ایک عرصے سے میڈک ایڈ کے پروگرام پر ہوں اور ان کے قابل روزگار ہونے کے مستقبل میں کوئی آثار نہ ہوں یا مستقبل میں ان کی آمدن میں کسی اضافے کی توقع نہ ہو۔میڈک کیئر بعض سہولتوں کی مکمل ادائیگی نہیں کرتی،جیسے پرائیویٹ انشورنس کمپنیاں ایک حد سے آگے ادائیگی نہیں کرتیں۔اس فرق کو یا تو مریض خود پورا کرتا ہے یا یہاں ایک بار پھر میڈک ایڈ مدد کو آتا ہے اور میڈک کیئر کے فرق کی ادائیگی میڈک ایڈ سے ہو جاتی ہے۔ان دونوں پروگراموں کے تحت جن انشورنس کمپنیوں کی ممبرشپ حاصل کی جاتی ہے ۔سہولیات وغیرہ اس کے مطابق ہوتی ہیں۔یہ کمپنیاں کچھ ڈاکٹروں سے معاملہ طے کرتی ہیں، جن کی ایک طویل فہرست ممبر کو فراہم کردی جاتی ہیں، جس میں عام ڈاکٹر آنکھ، ناک کان، دانتوں کے ڈاکٹروں کی علاقہ وار فہرست ہوتی ہے۔
ممبر اس فہرست میں سے اپنے لئے ایک عام ڈاکٹر General Practilionerکا انتخابات کرتا ہے اور پرائیویٹ انشورنس کمپنی اس ڈاکٹر کو منظور کرلیتی ہے اور ممبرشپ کے کارڈ پر اس ممبر کے نام کے ساتھ ساتھ اس ڈآکٹر کا نام بھی چھاپ دیتی ہے۔یہ ڈاکٹر پی سی پی (پرائمری کیئر پرووائیڈر) کہلاتا ہے۔بعض دوسرے ڈاکٹروں کے پاس جانے کے لئے یہ ڈاکٹر آپ کو ایک لیٹر دیتا ہے۔تب آپ اس دوسرے ڈاکٹر کے پاس آنکھ کان وغیرہ کے سلسلے میں رجوع کرسکتے ہیں۔یہ ڈاکٹر، ہسپتال یا فارمیسی ان پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں کو بل بھیجتی ہیں،جو ادائیگی کرکے اپنے کلیم میڈک ایڈ یا میڈک کیئر سے وصول کرلیتی ہیں۔ممبر کو پرائیویٹ انشورنس کی تبدیلی اور پی سی بی کی تبدیلی کا بھی اختیار ہوتا ہے، لیکن یہ تبدیلی بعض اوقات ایک خاص مدت گزرنے سے پہلے نہیں ہو سکتی۔اس نظام کے تحت ڈاکٹر کی خدمات کی ایک مقرر فیس ہے،جو پرائیویٹ ڈاکٹروں یا عام پرائیویٹ انشورنس کمپنیوں وغیرہ کی نسبت خاصی کم ہوتی ہے، لیکن ”ماہر“ لوگ اس تھوڑے میں بھی خاصا مال بنا لیتے ہیں۔ڈاکٹرز حضرات کسی عام معمولی بیماری کے لئے بار بار لیبارٹریز ٹیسٹ وغیرہ لکھ دیتے ہیں، ان لیبارٹریز کے ساتھ ان ڈاکٹرون کا ”حصہ“ طے پا جاتا ہے۔اسی چکر میںہسپتالوں میں غیر ضروری آپریشن کئے جاتے ہیں اور ایسے چکربہت سے ڈاکٹر، فارما سسٹ اور لیبارٹریوں والے مل جل کر چلاتے ہیں۔حال ہی میں بلین ڈاکٹر کا ایسا ایک سکینڈل سامنے آیا تھا اور ایک دور میں لوگوں نے اس ملی بھگت سے بلین ڈالر بنائے تھے۔لوگ جیل بھی گئے تھے ، لیکن آج کے اکثر امراءاسی دور کی پیداوار ہیں۔
اس سسٹم پر جو سب سے بڑا اعتراض ہے، وہ یہ ہے کہ آپ اپنی مرضی کے ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتے، آپ ایک مخصوص ڈاکٹر کے ساتھ منسلک ہو کر محدود ہو جاتے ہیں۔اس سے پہلے تو یہ ڈاکٹر بھی آپ کے لئے حکومت(پروگرام) مخصوص کرتی تھی، اب اس میں اتنی آزادی ہے کہ آپ ایک متعینہ فہرست سے اپنی پسند کا ڈاکٹر چن سکتے ہیں، لیکن آپ ضرورت کے وقت سوائے ایمرجنسی کے (ہسپتال) یا کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے نہیں جا سکتے۔ایمرجنسی میں کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس جانے کی سہولت بھی چند انشورنس کمپنیاں دیتی ہیں، لیکن اس میں بھی یہ شرط برقرار رہتی ہے کہ وہ ڈاکٹر بھی اس انشورنس کمپنی کی لسٹ میں شامل ہو۔ (جاری ہے)۔

( اشرف قریشی لاہور کے متعدد اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔ ہفت روزہ ”تکبیر کراچی“ کے نمائندے بھی رہے۔ اس وقت نیویارک میں مقیم ہیں اور ہفت روزہ ”ایشیا ٹربیون“ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔)

مزید :

کالم -