نئے انتخابات پر مسلم لیگ (ن) کو مذاکرات کی دعوت
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ جلد الیکشن سمیت تمام ایشوز پر بات چیت کیلئے تیار ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ بھی مل کر طے کیا جائے گا اگر جمہوری حکومت چلے گی تو ملک کے حالات بھی مستحکم ہوجائیں گے‘ جمہوریت کیلئے مسلم لیگ (ن) کی بہت قربانیاں ہیں‘ صوبے میں اس کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں‘ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گورنر ہاﺅس لاہور میں سینئر ایڈیٹروں اور کالم نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ حکومت سنجیدہ ہے تو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر پر مشاورت کیلئے تیار ہیں۔
وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کے یہ خیالات اخبارات کے ذریعے سامنے آئے ہیں‘ کیا اس ضمن میں وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کو باقاعدہ مذاکرات کی دعوت بھی دے دی ہے یا دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اگر وزیراعظم نے الیکشن پر بات چیت کا عندیہ دیا ہے تو ظاہر ہے مذاکرات کی باضابطہ دعوت پر بھی انہیں کوئی عار نہیں ہوگا ہمارے خیال میں اس مقصد کیلئے مذاکرات جتنی جلد شروع ہوجائیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔ چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا مسئلہ اب تک حل ہوجانا چاہیے تھا لیکن یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ سے ملنے والی سزا کے بعد معاملات ڈرامائی موڑ مڑ گئے‘ وہ قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان سے مشاورت چاہتے تھے لیکن چودھری صاحب نے یہ مو¿قف اختیار کیا کہ سزا ملنے کے بعد وہ وزیراعظم ہی نہیں رہے اس لئے ان کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوسکتی ۔
اب حالات مختلف ہیں۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اب اگر نئے الیکشن سمیت ہر معاملے پر کھلے دل سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) کا مو¿قف یہ ہے کہ ملک سنگین صورتحال سے دوچار ہے‘ لوڈشیڈنگ نے ملک کو دہشت گردی کی طرح نقصان پہنچایا ہے۔ معیشت دگرگوں ہے۔ مہنگائی بے لگام ہوچکی ہے۔ روپے کی قیمت مسلسل گر رہی ہے جس کی وجہ سے درآمدات مہنگی ہورہی ہیں اور پاکستان کو تجارتی خسارے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے برآمدی اشیاءبروقت تیار نہیں ہوسکتیں اس لئے عالمی منڈی میں پاکستان کو مسابقت کیلئے مسائل بھی درپیش ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے خیال میں ان مسائل پر قابو پانے کیلئے سیاسی جماعتوں کو عوام سے نیا مینڈیٹ حاصل کرنا چاہیے۔ حکومت اگر نئے الیکشن کے موضوع پر بات چیت کیلئے تیار ہے تو یہ بہترین موقع ہے حزب اختلاف مذاکرات کیلئے تیاری کرے اور اس کے نتیجے میں الیکشن کیلئے جو وقت بھی موزوں خیال کیا جائے اس پر انتخابات کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت اپنے چار سال مکمل کرچکی ہے اور اس وقت پانچواں سال جاری ہے حکومت نے اپنا پانچواں بجٹ گزشتہ ماہ ہی منظور کرایا جو ہر لحاظ سے الیکشن بجٹ سمجھا جارہا ہے۔ حکومت اگر وقت سے پہلے انتخابات نہیں بھی کرانا چاہتی تو بھی اب اگلا بجٹ نئی حکومت ہی پیش کرے گی۔ تاہم حکومت کے بعض اہم ارکان ایسے اعلان بھی کرتے رہتے ہیں جن سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگلے انتخابات اکتوبر میں کرائے جاسکتے ہیں‘ اس لئے اگر حکومت اور حزب اختلاف نئے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں تو کسی نتیجے پر پہنچنا زیادہ مشکل امر نہیں ہوگا۔ اس لیے ہمارے خیال میں اس مسئلے پر مذاکرات کا ڈول جلد سے جلد ڈال دینا چاہیے۔
پارلیمانی جمہوریتوں میں حکومت کی ایک ٹرم عموماً پانچ سال ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی اگرچہ منتخب جمہوری حکومت کا عرصہ پانچ سال مقرر ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں جمہوری حکومتوں کو غیرجمہوری طریقوں سے ختم کیا جاتارہا اس لئے 2002ءمیں منتخب ہونیوالی حکومت کے سوا کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکی۔ اس کی وجہ بھی غالباً یہ تھی کہ اوپر ایک باوردی صدر بیٹھا ہوا تھا جو اس نظام کا”گاڈ فادر“ تھا جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ایک خاکہ بنا رکھا تھا۔ 2002ءکے انتخابات میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہ کرسکی تھی‘ وہ حکومت کی باگ ڈور مسلم لیگ (ق)کے سپردکرنا چاہتا تھا جس کے پاس اکثریت نہیں تھی‘ چنانچہ اس نے اپنے صدارتی اختیارات اور وردی کی قوت کا استعمال کرکے پیپلز پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرایا اور ایک حصہ پیپلز پارٹی (پیٹریاٹ) کے نام سے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ ملوایا‘ دونوں جماعتوں نے حکومت بنائی اور وزیراعظم ظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیراعظم بن سکے‘ ظفر اللہ جمالی کو ایک مخصوص مدت کیلئے وزیراعظم بنایا گیا تھا صدر کے فیورٹ امیدوار شوکت عزیز تھے جنہیں وزیراعظم منتخب کرانے کیلئے عبوری مدت کےلئے چودھری شجاعت حسین کو وزیراعظم بنایا گیا اور شوکت عزیز کو ضمنی انتخابات میں منتخب کرانے کے بعد وزیراعظم بنایا گیا۔ پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں یہ پہلی اسمبلی اور پہلی حکومت تھی جس نے اپنی مدت پوری کی‘ اب امید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ اسمبلی اور حکومت بھی اپنی مدت پوری کرسکتی ہے لیکن کسی حکومت کا مدت پوری کرلینا اہم نہیں اہم بات یہ ہے کہ کوئی حکومت اپنی مقررہ مدت میں کیا کارنامے انجام دیتی ہے اور اپنے عوام کی زندگی میں کون کون سی آسانیاں لاتی ہے اس پہلو سے جب موجودہ حکومت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس حکومت کے دور میں عوام کے مسائل میں کمی نہیں‘ اضافہ ہی ہوا ہے۔ لوڈشیڈنگ بدترین عذاب کی شکل اختیار کرگئی ہے‘ جوبجلی ملتی نہیں وہ بھی مسلسل مہنگی کی جارہی ہے اور فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر ہر مہینے بجلی کے نرخ بڑھائے جارہے ہیں ۔ چار سال کے عرصے میں روپے کی قیمت مسلسل گرتی رہی ہے اور اب تک سنبھل نہیں پائی۔ ترقی کی شرح نمو ان تمام برسوں میں تین فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی‘ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ زرمبادلہ کمانے والی ٹیکسٹائل کی صنعت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں‘ صنعتوں کو ضرورت کے مطابق گیس نہیں مل رہی اور پنجاب میں سی این جی سٹیشن بھی ہفتے میں تین دن بند رہتے ہیں۔ سندھ میں کوئلے سے گیس بنانے کے تجربات کامیاب ہوچکے ہیں لیکن اس پراجیکٹ کیلئے رقوم باقاعدگی سے جاری نہیں ہورہیں اس لئے ان ذخائر سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا‘ ملک کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ ان حالات میں سوال کیا جاسکتا ہے کہ جو حکومت چار سال سے زائدعرصے میں ان گھمبیر مسائل میں کوئی کمی نہیں کرسکی بلکہ اضافے کا باعث ہی بنی ہے وہ اگلے آٹھ نو ماہ میں کیا معجزہ دکھا سکے گی؟ اس لئے حکومت کیلئے بھی یہ اچھی بات ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں نئے الیکشن کی تاریخ پر پہنچ جائے اور متفقہ طور پر چیف الیکشن کمیشن کا تقرر کرکے نئے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی جائیں۔ عوام کے تازہ مینڈیٹ کے نتیجے میں اگر ان کی زندگی میں کوئی خوشی آجائے گی تو یہ اچھی بات ہے۔