”دُلے دی بار“.... اسد سلیم شیخ کا قابل تعریف کارنامہ

”دُلے دی بار“.... اسد سلیم شیخ کا قابل تعریف کارنامہ
”دُلے دی بار“.... اسد سلیم شیخ کا قابل تعریف کارنامہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تاریخ سماج کی اجتماعی یادداشت کا نام ہے، افرادِ قوم بالخصوص م¶رخین و قلمکاروں کا فرض ہے کہ وہ اجتماعی یادداشتوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ویسے بھی تاریخ کے دلچسپ واقعات کا تذکرہ انسانی عادت سے تعلق رکھتا ہے ۔ شروع میں تاریخ محض بادشاہوں اور حکمرانوں کی کہانی ہی سمجھی جاتی تھی، مگر آج محکوموں اور عام لوگوں کی تاریخ خاصامقبول تصور ہے ۔ اسی طرح مقامی و علاقائی تاریخ کے مطالعے اور تحقیق کو بھی چند عشروں سے خاصا فروغ ملا ہے، تاہم اسے بد قسمتی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں علاقائی تاریخ لکھنے اور پڑھنے کا رواج عام نہیں ہو سکا ۔ یہاں حکومتیں ، قومی تحقیقی ادارے، م¶رخین و محققین مقامی و علاقائی تاریخ نویسی کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ ان حالات میں وہ ادارے یا قلمکار لائق صد ستائش ، حوصلہ افزائی اور شکریے کے مستحق ہیں جو اپنے اپنے علاقوں ، اضلاع اور شہروں کی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے۔ بلاشبہ یہ قومی اہمیت کا کام ہے ۔ علاقائی و مقامی تاریخ سے غفلت قومی جرم سے کم نہیں، کیونکہ کوئی فرد ہو یا سماج، قوم ہویا ملک اپنے ہونے کا احساس تاریخ ہی سے حاصل کرتا ہے ۔ تاریخ عرفان، تعمیر اور رہنے کے احساس سے اس حد تک مملو ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ہوتا ۔
مذکورہ بالا احساسات گورنمنٹ کالج پنڈی بھٹیاں میں سیاسیات کے ہر دلعزیز استاد اور محقق اسد سلیم شیخ کی کتاب ’دُلے دی بار‘ دیکھ کر اجاگر ہوئے۔ پنجاب کے سپوت دُلا بھٹی اور اس کی سر زمین کے حوالے سے 312صفحات پر مشتمل یہ تحقیقی و علمی اور معلوماتی کتاب اظہار سنز لاہور نے شائع کی ہے ۔ دریاﺅں کی سر زمین پنجاب نے جہاں وقت کے بہا¶ کے ساتھ بہہ کر کامران ٹھہرنے والے لا تعداد افراد پیدا کئے ،وہیں تاریخ کے بہاﺅ کو بدلنے کی ہمت اور حوصلہ رکھنے والے بہادر اور شجاع فرزندوں کو بھی جنم دیا، جن پر صدیاں گزر جانے کے بعد بھی لوگ فخر کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں بیک وقت باغی اور انقلابی کا تعارف رکھنے والا راجپوت ہیرو رائے عبداﷲ خاں بھٹی، المعروف دلا بھٹی مزاحمت اور مقامیت کے استعارے کی شہرت رکھتا ہے اور اس کا علاقہ صدیوں بعد بھی ”دُلے دی بار“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
پنجاب پانچ بڑی باروں میں تقسیم ہے، مثلاً ساندل بار، گنجی بار، نیلی بار، گوندل بار اور کڑانا بار۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ بیاس بار، راوی بار ، جنگل بار وغیرہ کئی ذیلی باروں کا ظہور ہوا۔ تاریخی و ثقافتی تناظر میں ان ذیلی باروں میں سب سے زیادہ مشہور دُلے دی بار ہے، جس کا مرکزی مقام پنڈی بھٹیاں ہے۔ یہ مشرق میں شیخوپورہ سے سانگلہ اور شاہکوٹ سے ہوتی ہوئی مغرب میں چنیوٹ تک پھیلی ہوئی ہے، جبکہ شمال میں جلالپور، حافظ آباد اور ونیکے تارڑسے ہوتی ہوئی قادر آباد دریائے چناب کے کناروں تک ہے ۔ اسد سلیم شیخ کے بقول:”یہ علاقہ تاریخ کے جن ادوار سے گزرا ، ماضی قدیم میں کون کون سی بستیاں یہاں آباد تھیں اور وہ کیسے تباہ و برباد ہوئیں۔ دُلا بھٹی اور اس کے آباﺅ اجداد نے جرÉت مندی اور بہادری کی جو داستان رقم کی ، مغلوں، سکھوںاور انگریزوں سے ہوتی ہوئی تاریخ جدیددور میں داخل ہوئی تو ”دلے دی بار“ میں کیا کیا سیاسی، سماجی اور تہذیبی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان تبدیلیوں میں مقامی قبائل کا کردار کیا رہا؟ تاریخ نے اپنے پیچھے کون سے آثار چھوڑے؟ تہذیب و ثقافت، زراعت اور صنعت و حرفت کے حوالے سے بار کی شناخت کیا ہے ؟ بزرگان دین کے تذکرے، شعر و ادب اور اہم شخصیات ، یہ سب موضوعات ایسے ہیں جن کا زیر نظر کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے “۔ یعنی مصنف نے تاریخ کا دریا کوزے میں بند کرنے کی ثمر آور سعی کی ہے ۔ دُلے دی بار کے جغرافیائی خدوخال، دُلے دی بار کی چند تباہ شدہ بستیاں، دُلے دی بار کی قدیم تاریخ، بھٹی قیبلہ کی جیسلمیر سے آمد اور قصبہ پنڈی بھٹیاں کا قیام، دُلا بھٹی کا عروج و زوال، دُلا بھٹی کا خاندان، اولاد اور متعلقات، دُلا بھٹی اور شعر و ادب ، رنجیت سنگھ کا پنڈی بھٹیاں اور جلالپور پر حملہ، بکسیں بھٹیوں کی مسن واہگہ کے ساتھ لڑائی۔ انگریزی دور کی تاریخ۔ جدید سیاسی دور (1901-1947) تحریک پاکستان میں کردار، قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ، دُلے دی بار کے اہم مقامات، دُلے دی بار کی گزرگاہیں، دریا، نہریں، نالے، قدیم مساجد و مندر، مذہبی ، سماجی و ادبی ادارے، بلدیاتی ، انتظامی و تعلیمی ادارے ، سیاسی تنظیمیں، زراعت و صنعت و حرفت، تہذیب و ثقافت، شعراءاور ادیب ، شکار، جرائم اور مجرم، لوک داستانیں، دُلے دی بارکی قومیں، اولیائے کرام ، شخصیات کے جیسے 27 کے لگ بھگ عنوانوں کے تحت صدیوں کی تاریخ کو جمع کر دیا گیا ہے ۔ وطن عزیز میں بہت کم شہر، بالخصوص چھوٹے شہر یا قصبے ایسے ہوں گے جن کے باسیوں یا موجودہ نسلوں کو آج اسکی تاریخ و پس منظر سے آگاہی ہو گی ۔ ’دُلے دی بار‘ نامی زیر نظر کتاب کا مطالعہ وسطی پنجاب کی اس اہم اور تاریخی بار کی علاقائی ، سیاسی ، سماجی، ثقافتی، علمی و ادبی تاریخ سے کماحقہ آگاہی بخشتا ہے اوراس سے عام معلومات میں بھی خوشگوار اضافہ ہوتا ہے ۔
تاریخ نویسی کا ایک مقصد ”واقعات کا بیان“ یا گذشتہ واقعات کا انکشاف‘ بھی ہے ۔ اس بیان کو جمیل سے جمیل پیرائے میں بیان کرنا ایک ایسا فن ہے جو اسے ایک مخصوص شعبہ بنا دیتا ہے ۔ تاریخ کے واقعات زمان و مکان دونوں سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ ایک طرف وہ کرئہ ارض کے کسی موقع یا حصے میں پیش آتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف وہ وقت کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ تاریخ کے دامن میں واقعات متحرک اور جنباں ہوتے ہیں ۔ کسی کتاب کو اس کے کردار ، واقعات اور تحقیق و ترتیب ہی عظیم نہیں بناتے بلکہ کتاب کا موضوع اور مقام بھی اہم بناتا ہے ۔ دُلے دی بار ایسی کاوش ہے جس نے ہمارے ہاں علاقائی اور مقامی تاریخ نویسی کے ضمن میں تحقیق و تحریر کی روایات کو نئی جہت سے آشنا کرایا ہے ۔ تاریخ کی کتب کسی تعارف کی محتاج نہیںہوتیں۔ مشک ناب کی طرح ان کی اپنی خوشبو ہی ان کا حقیقی تعارف ہوتی ہے ۔ اسد سلیم شیخ کی یہ کتاب بھی اس قبیل کی تصنیف ہے۔ وہ اس بار کی تاریخ لکھنے کے لیے کسی بھی دوسرے محقق سے زیادہ موزوں شخص تھے کیونکہ وہ مقامی ہیں اور ایسا کام مقامیت کے شغف اور خلوص کے بغیر ممکن بھی نہیں ہوتا ۔ دُلے دی بار کے باسی بالخصوص اور مقامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے بالعموم اسد سلیم شیخ کے اس احسن اقدام کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ کاش پاکستان کے ہر شہر اور قصبے کو ایسے فرزند مل جائیں تاکہ ان علاقوں کی تاریخ بھی محفوظ ہو سکے۔ Thomas J. Noel نے کہا تھا کہ
History is not just something that happend long ago and for away. History happens to all of us all the time. Local history brings history home, it touches your life, the life of your family, your neighbourhood, your community.

مزید :

کالم -