اشیاءمیں ملاوٹ کی روک تھام
میرے پیارے ملک پاکستان کو بے پناہ چیلنجوں اور بے پناہ مسائل کا سامنا ہے۔دہشت گرد اس ملک میں افراتفری پھیلائے ہوئے ہیں۔انسانی خون اتنا سفید اور سستا ہوگیا ہے کہ انسان کی حیثیت ختم کردی جاتی ہے۔کسی کا بچہ،کسی کا بھائی، کسی کی بہن، کسی کا خاوند، چچا،تایا، دادا،نانا ،بھتیجا، بھانجا، نواسہ، دوست،ایسے ہی ان گنت رشتے پل بھر میں ختم کئے جا رہے ہیں۔ کاروباراور ادارے تباہ ہوچکے یا ہو رہے ہیں۔ کاروباری حضرات پریشان، کسان، مزدور ، آجر، آجیر سب پریشان۔وہ لوگ اب بھی اچھے ،جو مختلف ممالک میں کاروبار کر رہے ہیں۔بیرونی ممالک میں سرمایہ بنکوں میں جمع، دہری شہریت، اولادیں غیر ممالک میں تعلیم حاصل کررہی ہیں، پاکستان کی سرزمین کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
ملک میں سب برائیاں موجود، گرمی، لوڈشیڈنگ بھی موجود، رمضان شریف کی آمد آمد ہے۔عبادت گاہیں اللہ والوں کے لئے چشم براہ، ہر مسلمان اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود اللہ سے لو لگا کر، سوالی بن کر انسانیت کے ظلم اور شیطان کے چیلوں سے نبردآزما ہونے کے لئے بھرپور تیاری کررہا ہے۔ایک طرف ظالم سماج، یہ دنیا کمانے والے جعل سازی، دھوکے بازی ،ملاوٹ کرنے والے ،جعلی ادویات بنانے والے پیسے کے بھوکے، دوسری طرف اللہ سے لو لگانے والے، صبروشکر کے پیالوں سے تشنگی مٹانے والے،اللہ اور اس کے پیارے حبیب سے ان برائیوں سے دوری اور بخشش کی بھیک مانگنے والوں کا دنگل ہوگا۔فتح ان کی ہوگی جو ان برائیوں کو ختم کریں گے اور ہمیشہ کے لئے توبہ کریں گے۔
پیارے قارئین! جب مَیں اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں، عزیز و اقارب، شہر اور ملک کے بیشتر بچوں کو بھاری بھرکم بستے، پانی کی بوتلوں کے ساتھ عینکوں کو سنبھالے سکول جاتے دیکھتا ہوں، کھیل کے وقت ٹائی، فٹ بال، کرکٹ کے بیٹ سنبھالنے کے ساتھ عینک سنبھالنے کی مشکل کو دیکھتا ہوں تو مجھے رونا آتا ہے۔وہ صرف بیٹھ کر لوڈو، کیرم کھیل سکتے ہیں یا ٹی وی جیسی بیماری سے وقت گزاری کر سکتے ہیں۔عینک کے ساتھ ایک حد تک کھیل کود سکتے ہیں۔ان معصوم بچوں کے ساتھ ایک ظلم اور بھی ہورہا ہے کہ تیل، چربی سے بنی ہوئی مضر صحت چیزوں کے علاوہ ٹافیاں، چاکلیٹ میں چینی کی بجائے سکرین ملائی جاتی ہے۔اعلیٰ درجے کی ٹافیاں اور چاکلیٹ، کیک بنانے والی کمپنیوں نے اپنی اشیاءکی حرمت کو اس طرح پامال نہیں کیا،جس طرح یہ دنیا دار طمع فروش گھٹیا زہریلا مال اعلیٰ کاغذ میں لپیٹ کر نونہالوں کو زندہ درگور کررہے ہیں۔
دس سے چودہ سال کے بچوں میں نشے کا رجحان بڑھ رہا ہے .... سکول، کالج، یونیورسٹی کے بچے بچیاں اس لپیٹ میں آ چکے ہیں۔استاد کی عدم توجہی، والدین کا عدم تعاون اور تفکرات نے بچوں کی زندگیاں اور بھی خطرے میں ڈال دی ہیں۔کتابوں کا بوجھ اور سسٹم میں خلاءبھی نونہالوں کا مستقبل داﺅ پر لگا رہا ہے۔موجودہ تعلیم کا نظام، نونہال کے لئے قابل عمل نہیں۔آسان ہونا چاہیے۔استاد کی دلچسپی، ماحول درست ہو جائے تو نونہال بھی تعلیم میں دلچسپی لیں۔ملک کی تقدیر بدل جائے۔اس خطے میں بڑے بڑے صاحب علم ہیں۔ موجودہ دور سائنس وٹیکنالوجی کا ہے۔پرنٹ میڈیا کی طرح بچوں کے لئے سبق آموز واقعات، کہانیاں اور سچائی، اخلاق، جرات، بہادری پر مبنی قصے بچوں کو سنائے، دکھائے جائیں تو بھی حالات میں بہتری آ سکتی ہے۔
قارئین! گلا شکوہ کس سے کیا جائے۔اب تو حالت یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے گھر آئیں گے تو کیا لے کر آئیں گے، اگر مَیں آپ کے گھر آﺅں تو کیا دو گے؟ کوئی مر گیا تو اس کی بخشش کے لئے دعائیں، کسی پر ظلم ہوا تو اس کے گھر جا کر دلاسہ دے دیا اور کچھ نقد رقم دے کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئے۔کوئی مجرم، ڈکیٹ، سزا یافتہ نہیں ہوا، تاکہ دوسروں کو عبرت ہو۔ اس ملک میں جسے اقتدار مل جاتا ہے، اس کی فرمائش بھی بڑھ جاتی ہیں، اس کی حفاظت بھی لازمی ہو جاتی ہے اور وہ زیادہ ہی لاڈلا ہوجاتا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ ناقص اشیاءکی فروخت روکنے، جرائم اور اوباش لوگوں کو پکڑنے، بچے، بچیوں کو ہراساں کرنے کی بیخ کنی کرنے کے لئے سکولوں کالجوں کے سامنے سفید کپڑوں میں ملبوس پولیس کے نوجوان گھومتے پھرتے رہتے تھے ، ان کے خوف سے ریڑھیاں ،مجمع، غیر متعلقہ افراد کی کمپنیاں کسی حد تک ختم ہوگئی حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ملک بھر کے بچے، بچیوں کے سکول، کالج کے دروازوں کے سامنے ایسے بندوبست کروا دیں کہ بچے برائیوں سے بچ سکیں اور والدین بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔اب بھی سفید کپڑوں میں ملبوس مرد و خواتین کی پولیس فورس لگائی جا سکتی ہے۔
اس ملک میں اگر امریکی پیپلزکورٹس کی طرزپر پاکستان میں ایسے کورٹس (عدالتیں) بنا دیئے جائیں تو ملاوٹ کرنے والوں ، ناقص اشیاءفروخت کرنے والوں، اوباشوں، طلباءوطالبات کو پریشان، ہراساں کرنے والوں کو موقع پر ہی سزا دے سکیں۔اس کے لئے قانون سازی بھی کروا لی جائے تو ملاوٹ، ناقص، باسی ، گلی سڑی اشیاءکی فروخت، منشیات کی فروخت، اور دیگر جرائم پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتاہے۔ ٭