ایک جوہر قابل کی پذیرائی

ایک جوہر قابل کی پذیرائی
ایک جوہر قابل کی پذیرائی
کیپشن: m altaf vqamar

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یوں تو پاکستان میں لاکھوں قانون دان ، ہزاروں شاعر اور نثر نگار،سینکڑوں محقق ،مورخ اور ادیب، پچاسیوں مزاح نگار، کالم نگاراور سفرنامہ نگار ، بیسیوں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے کمپیئر اور اَن گنت ماہر حیوانات ہوں گے اور اپنے اپنے فن میں یدطولیٰ رکھتے ہو ں گے، لیکن پاکستان میں ایک شخص ایسا بھی ہے، جو بیک وقت یہ سب کچھ ہے اور ان تمام شعبوں میں یکساں ماہر ، منفرد ، مقبول اور فنی طور پر اعلیٰ مقام پر فائز ہے۔ یہ ہمہ جہت اور ہمہ صفت موصوف شخص ظفر علی راجا ایڈووکیٹ ہیں ۔ ایڈووکیٹ اس لئے کہ بالآخر انہوں نے وکالت کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ راجا صاحب کی زندگی پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی محبت ، لگن ، توجہ اور صلاحیتوں کو اتنی مختلف جہتوں میں کس طرح تقسیم کر رکھا ہے اور وہ ان تمام جہتوں پر کیسے پورا اُترتے ہیں ؟ لیکن یقین کرنا پڑتاہے کہ ایسا ہی ہے اور وہ ان تمام جہتوں پر بہ احسن وکمال پور ا اُتر رہے ہیں ۔
ظفر علی راجا 10اپریل 1943ءکو راولپنڈی کے مشہور گاﺅں دھمیال میں پیدا ہوئے ۔میٹرک تک تعلیم راولپنڈی میں حاصل کی ،پھر مزید تعلیم کے لئے لاہور چلے آئے ۔ 1964ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے بی ایس سی (اینیمل ہسبینڈری )کی ڈگر ی حاصل کی اور پاک فوج کی وٹرنری اینڈ فارمز کور میں بطور وٹرنری سرجن ملازمت اختیار کر لی،لیکن 1974ءمیں اس ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ اِسی ملازمت کے دوران پرائیویٹ طور پر ایم اے اُردو کی ڈگری حاصل کی ۔ 1977-78ءمیں انہوں نے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا ، پھرلاہور میں باقاعدہ وکالت کاآغاز کر دیا ۔
ملک اور بیرون ملک کے ممتاز رسائل میں حیوانی نفسیات و امراض پر اُن کے سو سے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔ان مضامین کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر اُن اثرات کو موضوع بنایا گیا ہے،جو حیوانی امراض کی وجہ سے انسانی صحت پر مرتب ہوتے ہیں۔ حیوانی نفسیات پر لکھے گئے یہ مضامین سائنسی ہونے کے باوجود ادبی چاشنی کے ناطے اپنے موضوع پر اُردو زبان کی اولین اور شاہکار تحریریں شمار ہوتے ہیں ۔ راجاصاحب کے اب تک تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ حیوانی اور انسانی نفسیات کے مطالعہ پر مبنی نظمیں اُن کے پہلے مجموعہ کلام ”عرُیاں مکان “ کا خاصہ ہیں ۔ دوسرا مجموعہ ”گوری تیرے رُوپ“سہ مصرعی نظموں کا ایک منفرد تجربہ ہے، جس کی تمام ساڑھے تین سو نظمیں لفظ ”گوری “سے شروع ہوتی ہیں ۔ تیسرے مجموعے کا نام ”رقص ِتمنا“ ہے۔ روزنامہ نوائے وقت میں آپ کا کہا ہوا ایک قطعہ برسوں سے روزانہ شائع ہورہا ہے ۔ راجا صاحب گزشتہ 40 سال سے اُردو اخبارات ، آج کل نوائے وقت ،میں کالم لکھ رہے ہیں ۔ اُن کے مزاحیہ اور دیگر کالموں کے کچھ مجموعے ”زاویہ ظفر “، ”ظفر موج“، ”پُرتجسس کہانیاں“،”ڈیڑھ انگلی کااشارہ“، ”ججوں اور وکیلو ں کے لطیفے“کے نام سے چھپ چکے ہیں اور بے حد پسند کئے گئے ہیں ۔ سفر ناموں میں ”انداز پذیرائی کے“اور ”بھارت درشن“چھپ چکے ہیں اور دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ نے ہفت روزہ ”زندگی “اور ”بادبان“میں ”زراعت نامہ“اور ”چوپال“کے عنوان سے کئی سال تک زرعی کالم تحریر کئے ۔1984ءمیں آپ کوایشین اکیڈمی کی طرف سے بہترین کالم نگا ر کا ایوارڈ دیا گیا ۔
 ظفر علی راجا لاہور ہائی کورٹ بار کے ممتاز ارکان میں شمار ہوتے ہیں۔ لاہورہائی کورٹ بار میں آپ سیرت کمیٹی اور لٹریری کمیٹی قائم کرنے والے ارکان میں شامل ہیں ۔ سیرت کمیٹی کی ممبرشپ کے علاوہ ہائی کورٹ بار لٹریری کمیٹی کے چیئر مین اور سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں ۔ پنجاب بار کونسل کے باقاعدہ رکن ہیں، جبکہ لاہور بار ایسوسی ایشن کی طرف سے انہیں تاحیات ممبر شپ کا اعزاز حاصل ہے ۔ آپ نے 1985ءمیں پوری دنیا میں اعلیٰ عدالتوں کے سو سالہ اسلامی فیصلے جمع کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ۔ یہ عظیم تحقیقی کام 23ضخیم جلدوں میں شائع ہو کر پوری دنیا کے قانون شناس حلقوں اور لاءیونیورسٹیوں سے قبولیت کی سند حاصل کر چکا ہے ۔ اس کام کی اہمیت کے پیش نظر سپین کے لیڈرز کلب کی جانب سے آپ کو فرانس کے شہر پیرس میں 1989ءمیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔

تحریک پاکستان بھی آپ کا دل پسند موضوع ہے ۔ آپ کی کتاب ”قائد اعظمؒ اور خواتین“حیات قائد پر اپنے موضوع پر واحد کتاب ہے ۔ اس کتاب کی تالیف پر آپ کو پنجاب ایسوسی ایشن آف لائبریری سائنسز کی جانب سے ”پائل ایوارڈ“دیا گیا ۔ پاکستان کانام تجویز کرنے والے رہنما چوہدری رحمت علی کی زندگی پر ایک تحقیقی مقالہ سپر دقلم کرنے پر آپ کو ”نقاش ِ پاکستان“ ایوارڈ پیش کیاگیا۔ اس کے علاوہ غازی علم دین شہید کی شخصیت اور کارنامے پر کی گئی شاعری پر تحقیق میں مدد دینے پر آپ کو 1997ءمیں ”غازی علم دین شہید گولڈ میڈل “کا حقدار قرار دیا گیا۔
پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان پر بھی آپ بے شمار پروگراموں کی میزبانی کر چکے ہیں ۔آپ نے ٹی وی کے مقبول پروگرام ”قانونی مشورے“کے ایک سو سے زائد پروگراموں میں پہلے بطور مہمان اور بعد میں بطور مستقل کمپیئر شرکت کی۔ ”عورت اور قانون “کے زیر عنوان پی ٹی وی 2سے نشر ہونے والے تمام چھبیس پروگراموں کے مسودات تحریر کئے ،بلکہ اس میں بطور مہمان اور شریک میزبان بھی شرکت کی ۔ اس کے علاوہ پروگرام ”ہم اور قانون“میں بطور میزبان سکرین پر آئے۔ ان کے پروگرام ”قانونی مشورے“”حصول انصاف“ اور”عور ت اور قانون “نہ صرف یہ کہ پاکستان میں ایک سے زائد مرتبہ دکھائے جا چکے ہیں، بلکہ سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا کے 36ممالک میں نشر ہو چکے ہیں ۔ ٹیلی ویژن پر قانون کے حوالے سے اس نمایاں کارکردگی پر 1995ءمیں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے آپ کو ”حلقہ احباب قانون“کی جانب سے ”سنچری ایوارڈ“سے نوازا ۔
 ظفر علی راجا کی تازہ اور سب سے معرکتہ الاءکتاب ”قانون دان اقبال “ہے ،جس میں راجا صاحب نے پہلی بار علامہ اقبا ل کو بطور قانون دان دریافت کیا ہے اور قوم کو بتایا ہے کہ یہ عظیم شاعر ، فلسفی اور روحانی رہنما ایک اعلیٰ پائے کا قانون دان بھی تھا۔ ان کی اس منفرد موضوع پر منفرد کتا ب نے علمی اور قانونی حلقوں میں تہلکہ مچا دیا اور اسے بے حد پذیرائی حاصل ہوئی اوروہ ہزاروں ،جو راجا صاحب کو جانتے تھے وہ اُن کی علمی اور قانونی مقام کے مزید قائل ہوگئے اور وہ جو اُنہیں کم یانہیں جانتے تھے وہ بھی بہت اچھی طرح جاننے لگے۔ بے شک راجا صاحب کو اقبال سے بے حد عشق ہے جو اُن کی روز مرہ گفتگو میں بھی چھلکتارہتا ہے ،لیکن اصل میں وہ عاشق رسول ہیں ۔ حضور اکرم کا نام گفتگو میں کہیں آجائے تو اُن کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ۔ یہ والہانہ عشق اُس وقت مزید گہرا اورواضح ہوگیاجب سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی اور دیگر عاشقانِ رسول کی مساعی جلیلہ سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ (295(C کے تحت توہین رسالت کی سزا موت رکھی گئی ۔ یہ ایک طویل عدالتی جدوجہد تھی، جس میں راجا صاحب نے جناب اسما عیل قریشی ایڈووکیٹ کی خصوصی معاونت کی، جس کا ذکر اور اعتراف جناب اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ”ناموس رسول اور قانون توہین رسالت“ میں بڑی فیاضی سے کیا ہے ۔
یہ سب کچھ تو راجا صاحب کی ہمہ جہت علمی ، ادبی اور پیشہ ورانہ زندگی کا ایک مختصر ذکر ہے،لیکن ان کی ذات کا سب سے زیادہ اہم پہلواُن کا ذاتی کردار اور صفات ہیں ۔ راجا صاحب اپنی ذاتی حیثیت میں انتہائی نفیس ، متین ، نرم رُو اور نرم گو ہیں ۔ اتنی پہلو دار شخصیت اور اتنے منفرداعزازات رکھنے کے باوجود وہ نہایت برُدبار ، منکسر المزاج اور کم گو شخصیت کے مالک ہیں ۔ تکبر ، خود نمائی یا خود ستائی تو جیسے اُن کو چھو کر نہیں گزری ۔ کوئی اُن کی موجودگی میںیا عدم موجودگی میں اُن کی شخصیت کو خواہ کیسے ہی الفاظ میں تولے یا بولے ، وہ اس کا کوئی اثر نہیں لیتے ۔نہ دادو تحسین پر خوشی سے مغلوب ہوتے ہیںاور نہ تنقید و تبصرہ پر برافروختہ اور نہ ہی کسی قسم کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مزاج کی یہ درویشی اور دنیا کی تحسین و تنقید سے یہ بے اعتنائی اس پایہ کے لوگوں میں بہت کم دیکھنے میں ملتی ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا خاص انعام ہے، جو ہر کسی کے نصیب میںنہیں۔
عمومی طور پر ہم مردہ پرست لوگ ہیں ۔ زندگی میں ہم کسی کی بڑائی اور عظمت کا اعتراف کم ہی کرتے ہیں ، لیکن ظفر علی راجا اس لحاظ سے بہت خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ اُن کی تمام تر کسر ِنفسی ، درویشی اور داد و تحسین سے عدم دلچسپی اور عدم خواہش کے باوجود اُنہیں لاتعداد اداروں کی طرف سے اُن کی زندگی میں ہی سراہا اور اعزازات سے نوازاگیا ہے ۔ اسی طرح کی ایک تقریب 27جون 2014ءکو سٹیزن کونسل آف پاکستان، جو کہ پاکستان کا ایک مشہور تھنک ٹینک ہے ،کی طرف سے ہمدر د سینٹر لاہور میں منعقد کی گئی، جس میں ظفر علی راجا ایڈوکیٹ کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس خوبصورت تقریب میں پروفیسر نصیر احمد چودھری ، جناب سرفراز سید، خواجہ ابرار مجال ایڈووکیٹ، جناب سعید آسی ، راقم الحروف اور سٹیزن کونسل آف پاکستان کے صدر رانا امیر احمد خان ایڈووکیٹ نے راجا صاحب کی ذات ، فن اور خدمات پرپُرمغز خطاب کیا ۔معروف صدا کار اور اداکار جناب شجاعت ہاشمی نے اپنے مخصوص انداز میں نقابت کے فرائض انجام دیئے اور محفل کو چار چاند لگا دیئے۔ اس تقریب میں کونسل کی طرف سے جناب ظفر علی راجا کو اُن کی بے پناہ علمی ، ادبی اور قانونی خدمات کے اعتراف کے طور پر ”نشان اعزاز“کے ایوارڈ سے نوازا گیا ۔گو سٹیزن کونسل آف پاکستا ن نے والہانہ انداز میں اعتراف ِ عظمت کیا، لیکن حق یہ ہے کہ ظفر علی راجا کا حق ادا نہ ہوا ۔ ٭

مزید :

کالم -