پنجاب27فیصد تعلیمی بجٹ کے ساتھ تمام صوبوں پر سبقت لے گیا
بجٹ کسی مخصوص مالی سال کے لئے حکومت کا مالیاتی منصوبہ ہوتا ہے۔ یہ مالی سال میں آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ پیش کرتا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 1973ء کا آئین صوبائی حکومت کے لئے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ مالیاتی سال کے آغاز سے قبل صوبائی اسمبلی سے منظوری کے لئے بجٹ تجاویز تیار اور پیش کرے۔ پنجاب میں امسال 12جون 2015ء کو صوبے کی پہلی خاتون وزیر خزانہ عائشہ غوث پاشا نے مجموعی طور پر 1447.2 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا۔
بجٹ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی بارے مخصوص کی جانے والی رقم حکومت کی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔اگر ایک حکومت صحت اور تعلیم کو اپنی اولین ترجیح ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو اس دعوے کی تصدیق ان شعبوں کے لئے بجٹ میں مختص کی جانے والی رقم سے کی جائے گی۔ حکومت پنجاب ہمیشہ سے تعلیم کے لئے بجٹ میں تاریخی رقم مختص کرنے کے حوالے سے جانی جاتی ہے اور اس سال اس نے یہ اعزاز برقرار رکھا ہے۔حکومت پنجاب نے تعلیم کے لئے بجٹ میں 310ارب 20کروڑ روپے کی ریکارڈ رقم مختص کی ہے، جو دوسرے تمام صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پنجاب کے بعد خیبر پختونخوا کی حکومت نے تعلیم کے لئے 19.6فیصد جبکہ سندھ نے 19.6فیصد بجٹ مختص کیا ہے۔ یہ اعداد و شمار بخوبی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تعلیم حکومت پنجاب کی اولین ترجیح ہے۔ اگرچہ پنجاب حکومت نے بجٹ میں 310ارب 20کروڑ روپے تعلیم کے لئے مختص کئے ہیں، لیکن اگر سپیشل ایجوکیشن ،غیررسمی تعلیم اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کو تعلیم کے لئے بجٹ میں شامل کرلیا جائے تو یہ مجموعی طور پر 400ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔ پنجاب حکومت کے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ یہ ترقیاتی منصوبوں پر بہت زیادہ رقم خرچ کرتی ہے۔اگر مالی سال 2015-16کے بجٹ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پنجاب کا ترقیاتی بجٹ 400ارب روپے ہے، جبکہ اتنی ہی رقم تعلیم کے لئے بھی مختص کی گئی ہے، چنانچہ پنجاب حکومت تعلیم کو ترقیاتی منصوبوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی پر ترجیح دیتی ہے۔2015-16ء کے بجٹ میں کئی تعلیمی منصوبے شامل ہیں جن میں سے کچھ کا مختصر ذکر ضروری ہوگا۔
پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں 4نئے دانش سکولوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جبکہ پنجاب انڈومنٹ فنڈ کے لئے مزید 2ارب روپے کا اضافہ کیا گیا۔پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تحت 500نئے پرائمری سکولوں کی تعمیرکی جائے گی اورپنجاب کے سکولوں میں عدم دستیاب سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔پنجاب بھر کے سکولوں میں 22,000اضافی کلاس رومز کی تعمیرکی جائے گی، جبکہ پنجاب میں سکولوں کی 74,000 خطرناک عمارات کی دوبارہ تعمیرممکن بنائی جائے گی ۔ 1.8ملین بچوں کے لئے تعلیمی واؤچرزکا اجراء کیا جائے گا تاکہ وہ سرکاری خرچ پر اپنی مرضی کے نجی سکول سے تعلیم حاصل کر سکیں۔پنجاب کے سیکنڈری / ہائیر سیکنڈری سکولوں میں990آئی ٹی /سائنس لیبارٹریوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی اورمیرٹ پر مبنی نظام کے ذریعے طالب علموں کو ایک لاکھ لیپ ٹاپس فراہم کئے جائیں گے۔لاہور نالج پارک کا قیام عمل میں لایا جائے گا جبکہ جھنگ اور اوکاڑہ میں نئی یونیورسٹیاں بنائی جائیں گی۔ وہاڑی میں بہاؤالدین زکریایونیورسٹی کے ضمنی کیمپس کی تعمیرہوگی اورلاہور میں ہائیرایجوکیشن کمپلیکس تعمیرکیا جائے گا۔کالاشاہ کاکو کے مقام پر جی سی یونیورسٹی، لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی، سیالکوٹ میں وویمن یونیورسٹی اور ڈیرہ غازی خان میں غازی یونیورسٹی کے ضمنی کیمپس تعمیر کئے جائیں گے۔پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کے ذریعے ذہین طلبہ کے لئے وظائف کی تعداد کو ایک لاکھ تک لے جایا جائے اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیراہتمام پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے تحت سکولوں کی تعداد کو بڑھاکر 6000تک لیجایا جائے گا۔پنجاب کے 3,50,000 سے زائد اساتذہ کی تربیت کے لئے ایک ارب روپے کی رقم کا مختص کی گئی۔
درج بالانکات ان اقدامات میں سے چند ایک کی جھلک ہے جو حکومت پنجاب اگلے مالی سال کے دوران معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے اٹھائے گی۔۔۔وزیراعلیٰ پناب محمد شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت پنجاب کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس نے نہ صرف پنجاب، بلکہ مُلک کے ہونہار طلبہ کی حوصلہ افزائی کی ہے، چنانچہ لیپ ٹاپس کی تقسیم ہو یا ہونہار طلبہ میں نقد انعامات کی تقسیم یا پھر بیرون ممالک کا مطالعاتی دورہ، ہرموقع پر تمام صوبوں کے طلبہ کو مواقع فراہم کرنا پنجاب حکومت کی انفرادیت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی علم دوستی کا ثبوت ہے کہ انٹرنیٹ پر ٹیکس کا نوٹیفکیشن یہ کہہ کر منسوخ کر دیا گیا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے طلبہ اپنی علمی و تحقیقی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں۔ پنجاب میں بچوں کے سکولوں میں 100فیصد داخلے کو یقینی بنانے کے لئے ’’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘‘ کے نام سے جامع پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ اپنے اپنے حلقے میں ایک ایک سکول اڈاپٹ کریں گے، جس سے سکولوں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور سکول انرولمنٹ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ کا قیام ایک تاریخی اقدام ہے۔ مالی سال 2011-12ء میں اس ادارے کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد تھا کہ کوئی بھی ذہین طالب علم وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری نہ چھوڑے۔ 2015-16ء کے بجٹ میں PEEF کے لئے مزید 2ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے اور اس کا مجموعی حجم 15.5ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ اس پروگرام کے تحت ابھی تک 62,439 وظائف دیئے جاچکے ہیں، جبکہ آئندہ سال تک اس سے مستفید ہونے والے طلبہ کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ ہوجائے گی۔ پنجاب حکومت نے ہونہار طلبہ کی حوصلہ افزائی کی انوکھی مثال قائم کی ہے۔ وزراء اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران کو پیش کیا جانے والا گارڈ آف آنر اب پوزیشن ہولڈرز کو پیش کیا جاتاہے، جبکہ وزیراعلیٰ فلیگ شپ پروگرام کے تحت ان دنوں پوزیشن ہولڈرز کا وفد جرمنی ، سویڈن اور برطانیہ کی 22جامعات کے مطالعاتی دورے پر ہے۔دانش سکولوں میں مزدوروں ، کسانوں او ر غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور رہائش مفت مہیا کی گئی ہے اور یہاں پڑھنے والے بچوں نے دُنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ مُلک میں بڑھتے ہوئے توانائی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پنجاب نے آئندہ مالی سال میں ہزاروں سکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا پروگرام بنایا ہے اور اس مقصد کے لئے بجٹ بھی مختص کیا گیا ہے۔مختصر یہ کہ پنجاب حکومت تعلیم کے فروغ کیلئے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے، جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ بجٹ 2015-16ء میں تعلیم کے لئے مختص بجٹ یقیناًصوبے میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے ویژن میں سنگ میل ثابت ہوگا۔