لاہور کی گرمی سے شرابور وزٹ
لاہور کی گرمی سے شرابور تقریباً ایک ماہ کی وزٹ کے بعد ہم ایک بار پھر واشنگٹن ایریا میں اپنے گھر واپس آگئے ہیں۔ میں اپنی بیگم عصمت اور سب سے چھوٹی بیٹی بسما کے ہمراہ جب 22مئی کو ڈلس ایئرپورٹ کے لئے روانہ ہوا تھا تو بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ 24مئی کو جب ہمارا جہاز لاہور ایئر پورٹ پر اترنے کی کوشش کررہا تھا تو اسے شدید طوفان بادوباراں کا سامنا تھا جس کے باعث وہ کم از کم پونا گھنٹہ دیر سے لینڈ ہوا۔ لاہور پہنچ کر جس شدید گرمی سے واسطہ پڑا اس کا ہم میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ میری فیملی کے ارکان تو کسی نہ کسی طرح گھومتے پھرتے رہے اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں کافی حد تک جاری رکھیں۔ بھلا ہوUBERکی لاہور میں ٹیکس سروس کا جو ہمارے جیسے مسافروں کے لئے نعمت سے کم نہیں ہے جو ذاتی گاڑی جیسی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ڈیفنس روڈ اور نیورائے ونڈ روڈ کے سنگم پرواقع چھوٹی سی ہماری رہائشی کالونی سے ڈیفنس تک جانے کا کرایہ تقریباً سات سو روپیہ بنتا ہے جو دوسری ٹیکسیوں کی نسبت کم ہے اور سروس بھی قابل اعتبار ہے۔ میرے بچے تقریباً ہر روز اسی روٹ پر آتے جاتے رہے۔ لیکن میں گرمی سے خوف زدہ ہو کر کم کم ہی گھر سے نکلا اور جتنے بھی کام سوچ کر گیا تھا وہ سارے عملاً معطل کردئے اور سوچا جب سردیوں میں چکر لگا تو انہیں اس وقت کرلوں گا۔
بسما کو تو کیمیکل انجینئر بننے کے بعد اپنی گریجویشن CELEBRATE کرنے اور لاہور میں اپنے نئے گھر میں رہنے کا شوق تھا اور مجھے مجبوراً اس کا ساتھ دینے کے لئے آنا پڑا۔ میں لاہور میں قیام کے تقریباً ایک ماہ کے عرصے میں گاہے گاہے جیل روڈ پر واقع اپنے روزنامہ’’پاکستان‘‘ کے دفتر میں جاتا رہا۔ اس کے علاوہ صرف دو مرتبہ ڈیفنس گیا۔ ایک دفعہ اپنی چھوٹی بہن رضو کے ہاں گیا جن کے میاں کرنل اکرم چند ماہ قبل ریٹائر ہو کر لاہور آگئے ہیں۔ دوسری مرتبہ میرے سسرال سے تعلق رکھنے والی مقبول میزبان آنٹی نجمہ(مسز کرنل مرتضیٰ) کے گھر افطار پارٹی پر گیا۔
ماضی میں جب درست موسم میں لاہور آتے تھے تو جن سے تقریباً روزانہ ملاقات ہوتی تھی ان میں میرے دوست شعیب بن عزیز(حالیہ پریس ایڈوائزر وزیر اعلیٰ پنجاب) ہمیشہ شامل ہوتے تھے۔ اس دفعہ یہ ہوا کہ جی اوآر کے آفیسرز میس میں ان کی ہماری فیملی کے لئے افطار دعوت میں شرکت کی اور پھر روزنامہ’’ پاکستان‘‘ میں ایک افطاری میں اتفاق سے دوسری ملاقات ہوگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب ہم 24مئیکوعلی الصبح 4بجے بارش کے جلو میں ایئرپورٹ پر اترے تو اس وقت شعیب فیملی کے دو نمائندے ہمیں رسیو کرنے کے لئے نہ صرف موجود تھے بلکہ ہمارے بھاری بھرکم سامان کے لئے ایک بڑے سائز کی خوبصورت وین کا بندوبست بھی انہوں نے کررکھا تھا۔ شعیب بن عزیز کی سب سے بڑی بیٹی عینی اپنے خاوند کا مران کے ہمراہ وہاں منہ اندھیرے اتنی بارش میں ایک گھنٹے سے انتظار کررہی تھیں۔ عینی اپنی سب سے چھوٹی بہن ردا کے ہمراہ گزشتہ سال ہمارے پاس واشنگٹن آئی تھیں۔ ان دونوں کا سال رواں کے آغاز میں باری باری بیاہ ہوا ہے اور انہوں نے اپنی شادی کی زیادہ تر شاپنگ ہماری فیملی کی مدد کے ساتھ کی تھی شعیب بن عزیز کی درمیان والی بیٹی سندس قطر میں رہتی ہے۔ وہ بھی چند سال قبل اپنے میاں عدنان اور اپنی بیٹی زویا کے ہمراہ ہمارے پاس چند دنوں کے لئے رہنے آئی تھیں۔ عینی میری سب سے بڑی بیٹی کنول کی تقریباً ہم عمر ہے اور مجھے اور شعیب دونوں کو وہ ایک جیسی ہی لگتی ہے۔
لاہور میں قیام کے دوران ایک تکلیف دہ واقعہ سننے کو آیا جس سے بہت تکلیف ہوئی لیکن اس وقت لکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ ایک اور زینت جل گئی! اس کے بد نصیب نوجوان شوہر حسن خان کی ماں اور زینت کی ساس شاہدہ بی بی کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں زینت کی ماں پروین بی بی جیسی کوئی ماں نہیں دیکھی۔ لاہور کی لڑکیاں سہم گئیں۔ وہ آنسو بھری آنکھوں سے اپنی ماؤں کے چہروں کو گھور رہی تھیں کہیں ان میں بھی کوئی پروین تو نہیں چھپی ہوئی۔ مائیں اپنی بیٹیوں کو دلاسادے کرکہہ رہی تھیں کہ وہ پروین جیسی نہیں ہیں۔ میری دعا ہے کہ زینت کے ساتھ جو ہونا تھا ہوگیا اب اور کوئی پروین لاہور میں نمودار نہ ہو۔ دعا کا معاملہ اور ہے لیکن مجھے شُبہ ہے کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ اگرحالات میں تبدیلی نظر آرہی ہو تو امید بندھتی ہے۔ اگر حالات جوں کے توں رہیں گے تو پھر زینتیں جلتی رہیں گی اور سنگدل پروینیں ان پر مٹی کا تیل چھڑکتی رہیں گی اور گھر کے افراد گلا گھونٹنے میں مدد کرتے رہیں گے۔ اور کسی حسن خان کو انصاف نہیں ملے گا کیونکہ اس معاشرے میں اس ظالمانہ کارروائی کی مذمت کرنے والے کم اور اسے خاندان کی مصنوعی غیرت کے تحفظ کے لئے جائز انتقام قرار دینے والے بہت ہیں۔ میں ٹی وی پر اسی موضوع پر ایک مباحثے کو دیکھ رہا تھا جس میں ایک مبصر وہاں موجود ایک مولوی صاحب کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا کہ وہ مولوی حضرات جو آئے دن یہودو نصار کی ’’سازشوں‘‘ کے خلاف سڑکوں پر جلوس نکالتے رہتے ہیں وہ اس ظلم پر کیوں خاموش ہیں۔ مذاکرے میں شریک مولانا کوئی بہانابناکر بعد میں واک آؤٹ کر گئے لیکن اس سوال کا جواب نہ دے سکے۔ اس کے بعد میں نے غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ مذہبی راہنماؤں کے علاوہ رائے عامہ کے سیاسی اور سماجی لیڈروں کی طرف سے واقعی کوئی قابل ذکر مذمت یا احتجاج سامنے نہیں آیا۔مجھے تو تمام’’طاغوتی طاقتوں‘‘ کے مقابلے میں ایک اکیلی ماروی سرمد شیرنی بن کر لڑتی نظر آئی۔ اس سانحے کا ذکر میں بوجوہ دیر سے کررہا ہوں لیکن زینت کی جلی اور مسخ شدہ لاش پر میں اپنے حصے کے آنسو گراکر لاہور سے واپس واشنگٹن پہنچا ہوں۔ حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ بچیوں کو قرآن پڑھانے والی اس معصوم لڑکی کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا کہ اب کوئی اس کی جلی ہوئی راکھ پر آنسو بہائے، ماتم کرے یا اس کی ’’بغاوت‘‘ پر حقارت اور نفرت سے اسے روند کر آگے بڑھ جائے۔
مجھ سے تو ایک جانور پر ظلم برداشت نہیں ہوتا تو ایک نوجوان لڑکی کو زندہ جلانے کا واقعہ سن کر میں کتنا دکھی ہوا ہونگا یہ میرا دل ہی جانتا ہے۔میں نے تقریباً بارہ سال بعد کلمہ چوک کو اس کی نئی صورت میں دیکھا۔ لاہور کو قریب سے دیکھنے کی خواہش پوری کرنے کے لئے ڈائیووبس سے کلمہ چوک پر اترا۔ مجھے ڈیفنس جانا تھا اس لئے سوچا تھوڑا پیدل چل کر’’سنٹر پوائنٹ‘‘ سے ٹیکسی یا رکشہ لوں گا۔ موڑ پر ٹریفک پولیس کی چوکی کے ساتھ سائے میں پناہ لی اور انتظار شروع کردیا۔ اتنے میں اس موڑ سے ایک رہڑہ گزرا جس کے مالک نے کپڑے سے پورا منہ ڈھانپا ہوا تھا جس پر لوہے کی چارپائیوں کے لاتعداد فریموں کا پہاڑ لدا تھا۔ اس سخت دوپہر میں سر نیچے ڈال کر اس ریڑھے کو کھینچنے والے گھوڑے کا پورا بدن پسینے میں اتنا شرابور تھا کہ اس کے قطرے زمین پر گررہے تھے۔ کئی رکشے پاس آکر رکے لیکن میں نے اشارہ کیا میں نے نہیں جانا۔ میں سائے میں ایک طرف بیٹھ کر گھوڑے کی حالت پر زاروقطار روتا رہا۔ میں نے اپنا منہ چھپا رکھا تھا کہ کوئی دیکھ لے گا تو رونے کا سبب بتانا مشکل ہو جائے گا۔ گھوڑے کی حالت پر روتے ہوئے نظر آنے پر کتنا بیوقوف لگوں گا۔ کافی دیر بعد حالت سنبھلنے پر رکشہ لیا۔
میرے لئے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس بے رحمی کے ساتھ جلائی جانے والی زینت پہلی اور آخری لڑکی نہیں ہے۔ گھر سے چلے جانے کا ایک غلط کام زینت نے ضرور کیا جوقابل معافی ہے۔ بہتر ہوتا وہ اپنی پسند کے اختیار کے لئے درست راستہ استعمال کرتی۔ کیاخبر اس نے ایسی کوشش کی ہو یا اسے یقین تھا کہ اس کا گھرانہ اسے کسی صورت وہ اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں دے گا جو ہمارا مذہب اسے دیتا ہے۔ لیکن اس کی ماں پروین کا جرم ناقابل معافی ہے۔ خواتین کے اس حامی کو یہ مطالبہ کرتے ہوئے بھی تکلیف ہو رہی ہے کہ پروین کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ لیکن اس ایک سزاسے تو ظلم رکنے والا نہیں ہے کہ اس ظلم کو غیرت قرار دینے والے مذموم اور مصنوعی عوامل تو بدستور موجود ہیں۔ ہمارے ؟ اداروں اور نشرواشاعت کے دوسرے ذریعوں میں عورت کو معاشرے میں دبا کر رکھنے کے لئے اسلامی اصولوں اور احکامات کی مسلسل غلط تو ضیح پیش کی جارہی ہے۔ ان سے متاثر ہونے والی پروین جیسی انتہائی اقدام کرنے والی مائیں ہوسکتا ہے کم ہوں لیکن بے شمار والدین ایسے ہوسکتے ہیں جو ان غلط توضیحات کو درست سمجھتے ہوں۔ کیاخواتین اور سماج کی بہبود کے لئے کام کرنے والے سرکاری محکمے اور غیر سرکاری ادارے اس اہم خاندانی مسئلے کے حل کے لئے مثبت تبلیغ نہیں کرسکتے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے جیسا کہ زینت کے خاوند کو انصاف کا یقین دلایا ہے تو اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں پہل کریں اور خاندانوں کو گمراہ کرنے والے غلط پراپیگنڈے کوختم کرنے کے لئے مثبت سوچ پر مبنی پیغامات نشر کرنے کا اہتمام کریں۔اپنی شدید خواہش کے باوجود میں گرمی کے باعث شعیب بن عزیز کا بحریہ ٹاؤن کے قریب نیا گھر نہیں دیکھ سکا۔ لاہور سے واپس واشنگٹن آنے والی آخری شب سے پہلے روزنامہ’’پاکستان‘‘ کے دفتر میں افطاری پر ہونے والی ملاقات میں وہ اپنے نئے گھر کی خوبصورت چھت کا ذکر کررہا تھا جس پر سردیوں کی دھوپ میں بیٹھ کر کنوکھانے سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ سردیوں میں لاہور واپس آنے اور اس چھت پر بیٹھنے کا میرا ارادہ ہے۔ میری دعا ہے کہ کم از کم اس وقت تک مزید کوئی زینت نہ جلے۔ وہ اس لئے کہ میں اب کنو کھانا چاہتا ہوں اور آنسو بہا بہا کر تھک چکا ہوں۔