نیشنل ہائی وے خستہ حال اورتباہی کے دھانے پر ہے،زین بشیر
کراچی (اکنامک رپورٹر) زین بشیر ، صدر، لانڈھی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (LATI) نے کہا ہے کہ نیشنل ہائی وے کی خستہ حالی شدید تشویش کا باعث ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا،’’یہ ہائی وے لانڈھی انڈسٹریل زون کو کراچی اور مُلک کے باقی حصّوں کے ساتھ منسلک کرتی ہے اور اہم صنعتوں اور تنصیبات کے لئے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سڑک پر مختلف مرمتی کاموں کے باعث ٹریفک کی رفتار بہت سست ہے لیکن متعلقہ محکمات کو بظاہر اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اس سے آمدنی میں قابلِ ذکر خسارہ جات ہورہے ہیں، لہٰذا اس صورتحال میں بہتری لائی جانی چاہئے۔‘‘ کسی ہائی وے کا مقصد ہوتا ہے کہ شہروں کے مابین ٹریفک بِلا رکاوٹ اور مناسب رفتار سے چل سکے۔ کراچی کو پاکستان کے باقی حصّوں کے ساتھ منسلک کرنے والی نیشنل ہائی وے کو بھی اس مقصد پر پورا اُترنا چاہئے، لیکن یہ کافی عرصے سے خستہ حالی کا شکار ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ناکارہ انفراسٹرکچر اور بدانتظامی کے باعث یہ مُنہدم ہونے والی ہے۔ لیکن اس کی مرمت و بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ، اور جو لوگ اسے استعمال کررہے ہیں وہ مجبورًا کررہے ہیں کیونکہ کوئی متبادل نہیں ہے۔نیشنل ہائی وے کے ابتدائی 25 کلومیٹر پر فوری طور پر توجہ درکار ہے لیکن لگتا ہے کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) اور کراچی کے دیگر متعلقہ ادارے اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ مسلسل زیادہ استعمال کے باعث یہ ہائی وے یومیہ ہزاروں گزرنے والوں کے لئے بہت بڑی زحمت بن گئی ہے۔ سڑک کے مختلف حصّے شدید ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ٹریفک کے دباؤ کے نتیجے میں دھول مٹی اور دھواں پھیل جاتا ہے جو ماحولیاتی آلودگی اور یہاں سے گزرنے والوں کے لئے مختلف بیماریوں کا خطرہ بنتا ہے۔ مرمتی کام سے دن بھر طویل دورانیوں تک ٹریفک جام رہتا ہے۔ناکارہ انفراسٹرکچر کے نتیجے میں نیشنل ہائی وے کے مختلف حصّوں پر گندا پانی کھڑا رہتا ہے، جبکہ سڑک کے کناروں پر کچرے کے ڈھیروں اور غیر قانونی تجاوزات کے باعث سڑک کی چوڑائی کم ہوگئی ہے اور گاڑیوں کے گزرنے کے لئے جگہ تنگ رہ گئی ہے۔اورسونے پے سہاگا ہے جرائم کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ ٹریفک جام میں بہت سے جرائم پیشہ گروہوں کو اپنی کارروائی کرنے کا موقع مل جاتا ہے؛ وہ بآسانی چوری چکاری کرتے ہیں، موبائل اور نقدی چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔شہر سے باہر جانے والا مرکزی راستہ ہونے کے باعث نیشنل ہائی وے سے ہر قسم کی چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ اس سڑک کا محل وقوع صنعتی سرگرمیوں کے اعتبار سے بہت اہم ہے جس کے باعث نیشنل ہائی وے کو مُلک کی اہم ترین معاشی راہداری بھی کہا جاتا ہے۔ یہ سڑک ایکسپورٹ پروسیسنگ زون، پورٹ قاسم اور بن قاسم، لانڈھی اور کورنگی کے صنعتی علاقوں تک جاتی ہے۔مزدور، صنعت کار ، علاقہ مکین اور عوام کی بڑی تعداد اس سڑک کو روزانہ استعمال کرتی ہے۔ ملیر سٹی کورٹ، کراچی ائر پورٹ، سوِل ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی الیکٹرک بن قاسم پاور اسٹیشن، پی ٹی سی ایل ریجنل دفاتر اور سب اسٹیشنز، متعدد ریلوے اسٹیشنز اور اسکولوں اور کالجوں کے لئے بھی یہ سڑک اہم گزرگاہ ہے۔ علاوہ ازیں، گلشنِ حدید، قائد آباد، ملیر، سعودآباد، عظیم پورہ، ماڈل کالونی اور شاہ فیصل کالونی کے مکینوں کے لئے بھی یہ سڑک کسی شہ رگ سے کم نہیں ہے۔سڑک پر ترقیاتی کام کی رفتار بہت سست ہے، جبکہ اس کے مختلف حصّے اب بھی مرمت و بحالی کے منتظر ہیں ۔ مختلف شعبوں کو اس سڑک کی اہمیت سمجھنی چاہئے کیونکہ اس کی مناسب دیکھ بھال خود ان کے مفاد میں ہے۔ اگر نیشنل ہائی وے یونہی خستہ حال رہی اور اسے نظر انداز کیا جاتا رہا تو اسے استعمال کرنے والے سپر ہائی وے کی طرف راغب ہوجائیں گے۔ اس سے کراچی کے متعدد صنعتی اور رہائشی علاقے متاثر ہوں گے اور ان علاقوں سے ہونے والی آمدنی کم ہوجائے گی۔ کسی متبادل سڑک کی عدم موجودگی کے پیشِ نظر نیشنل ہائی وے استعمال کرنے والوں کے لئے روزانہ اُسی دردِ سر سے گزرنا انتہائی زحمت کا باعث بن گیا ہے، جبکہ صنعتوں اور عوام کی بار ہا اپیلوں کے باوجود متعلقہ ادارے اس معاملے پر ہنگامی بنیادوں پر فوری توجہ دینے سے قاصر ہیں۔