جیپ گروپ کی انٹری

جیپ گروپ کی انٹری
جیپ گروپ کی انٹری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سب پوچھ رہے ہیں یہ جیپ کے انتخابی نشان والے کون ہیں؟ اتنی تیزی کے ساتھ یہ نمودار ہوئے ہیں کہ سب ہکا بکا رہ گئے ہیں، سب سے پہلے تو یہ نشان چودھری نثار علی خان نے لیا تھا۔ اُس وقت وہ اکیلے تھے، مگر انتخابی نشانات الاٹ ہونے کی آخری تاریخ آتے ہی مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر جیپ کا نشان لینے والوں کی لائن لگ گئی۔

نوازشریف نے لندن میں کہا کہ سب کو علم ہے جیپ کا نشان کس کا ہے اِس دوران اُنہیں ملتان سے خبر ملی کہ صوبائی حلقہ 219 کے ن لیگی امیدوار اقبال سراج کو مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے لئے آئی ایس آئی کے دفتر بلایا گیا، مارا پیٹا گیا، بعد میں اُس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اِس بارے میں انکشاف کیا ہے۔

اگلے ہی دن اقبال سراج اپنے بیان سے مُکر گیا اور اُس نے کہا کہ محکمہ زراعت کے حکام نے اس کے زرعی کھاد کے گودام پر چھاپا مارا تھا مجھے غلط فہمی ہو گئی تھی کہ شاید کام ایجنسیوں نے کیا ہے۔

نواز شریف جلد بازی میں آئی ایس آئی پر الزام دھر گئے، مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اقبال سراج کا نام بھی پہلی مرتبہ سنا ہو گا، کیونکہ وہ چند ہفتے پہلے ہی سیاست میں آیا ہے اور جعلی کھاد بیچنے کے حوالے سے مشہور ہے پہلے بھی اس کے گودام پر کئی بار محکمہ زراعت مشہور برانڈ کی کھاد بنانے والی کمپنیوں کی شکایت پر چھاپا مار چکا ہے، وہ سب کو یہ بتاتا پھرتا ہے کہ اس نے دو کروڑ روپے لے کر یہ ٹکٹ لیا ہے جو اِسی حلقے سے قومی اسمبلی کے امیدوار کو دیئے ہیں اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کے ہمیشہ رائے منصب خان امیدوار بنتے تھے۔

اِس بار بھی انہوں نے ٹکٹ کے لئے درخواست دی، مگر ملک عبدالغفار ڈوگر سابق ایم این اے کی وجہ سے اُنہیں ٹکٹ نہ ملا، وہ ناراض ہو کر پیپلزپارٹی میں چلے گئے اور اب اس کی ٹکٹ پر اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میاں نوازشریف لندن میں بیٹھ کر بلا تحقیق ملنے والے میسجز پر فوری رد عمل ظاہر کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ مدعی اپنے بیان سے مُکر جائے گا اور میاں صاحب کے لئے بیان واپس لینا مشکل ہو جائے گا۔
اب جہاں تک جیپ والے معاملے کا تعلق ہے تو میاں صاحب خود کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے لوگ حوصلے بلند رکھیں۔

بھلا سپہ سالار کی عدم موجودگی میں کبھی سپاہی حوصلہ قائم رکھ سکے ہیں سب کو صاف نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے، شہباز شریف نے تو فوج کے ساتھ نئے عمرانی معاہدے کی بات کر کے ساری گیم ہی الٹ دی ہے نوازشریف اقبال سراج جیسے بے نامی لوگوں کے بیانات میں بھی فوج کا ہاتھ تلاش کر رہے ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

جیپ ایک انتخابی نشان ہے جو پہلے سے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے، اگر چودھری نثار علی خان نے اسے لے لیا ہے تو اس پر فوراً یہ بیان کیسے داغا جا سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی خلائی مخلوق کا ہاتھ ہے۔ جب نوازشریف جاوید ہاشمی جیسے لیجنڈ لوگوں کو ٹکٹ دینے کی بجائے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیں گے،جو اپنی کرپشن کو بچانے کے لئے سیاست کی چھتری تلے آنا چاہتے ہیں، تو انہیں وفاداری تبدیل کرنے سے کون روک سکتا ہے وہ تو حالات کے مطابق اپنا مفاد دیکھیں گے۔

سیاست انانیت کے ساتھ تو نہیں ہو سکتی۔ اس میں بردباری، حلیمی اور مصلحت سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے نثار علی خان کو جس طرح اپنے سے دور کیا، وہ سب کے علم میں ہے۔ ان کی ایک ٹیلی فون کال چودھری نثار علی خان کو قریب لا سکتی تھی، مگر وہ انہیں یہ حق دینے کو تیار نہ تھے کہ ان کی رائے کو سنیں۔

وہ مریم نواز کے بارے میں ان کے خیالات کو ایک بہت بڑی گستاخی سمجھتے تھے،جو ناقابلِ معافی جرم کے مترادف تھی، نوازشریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کی بات بھی نہیں مانی اور نثار علی خان کو ٹکٹ دینے سے صاف انکار کر دیا۔

پھر جب اتمامِ حجت کے لئے شہباز شریف نے مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے چودھری نثار علی خاں کے مقابلے میں امیدوار کھڑے نہیں کئے تو لندن سے سخت حکم آ گیا کہ امیدوار کھڑے کئے جائیں۔ شہباز شریف جو چودھری نثار علی خان سے دوستی کا دم بھرتے ہیں اس حکم کی تعمیل کے لئے مجبور ہو گئے۔

گویا میاں نوازشریف نے خواہ مخواہ اپنے ایک پرانے ساتھی اور کٹر مسلم لیگی کو اپنا حریف بنا لیا، حالانکہ پہلے ہی ان کے حریف بہت زیادہ تھے اور ان کا دفاع کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی تھی۔ شہباز شریف غالباً اس خطرے کو بھانپ گئے تھے کہ چودھری نثار علی خان جیسا منجھا ہوا سیاست دان مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہوا تو پارٹی میں دراڑ پڑ جائے گی، کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ چودھری نثار علی خان کی مقتدر حلقوں میں پذیرائی موجود ہے، مگر ان کی ایک نہ چلی اور وہ بڑے بھائی کے ہاتھوں بے بس ہو کر ایک طرف ہو گئے۔ نواز شریف یہ دیکھ بھی رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) سے لوگ تحریک انصاف میں جا رہے ہیں کئی شہروں میں، تو ان کے امیدواروں کا صفایا ہو گیا ہے اب یہ وقت سیاسی فیصلے کرنے کا تھا نہ کہ ایک ایسا بیانیہ دینے کا ،جو خود مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو مشکل میں ڈال دے۔

میاں صاحب نے دانیال عزیز،طلال چودھری، سعد رفیق اور خواجہ آصف جیسے جلتی پر تیل ڈالنے والوں کو تو اہمیت دی، مگر چودھری نثار علی خان کو بے وقعت کرنے میں کوئی کسر نہ اُٹھا چھوڑی، جو صرف اتنا کہتے تھے کہ میاں صاحب فوج اور عدلیہ سے محاذ آرائی مناسب نہیں،اپنا بیانیہ بدلیں حالات بھی بدل جائیں گے۔

چودھری نثار علی خان نے اِس دوران کئی پریس کانفرنسیں کیں اور صرف ہلکا سا احتجاج کیا، گویا وہ ایک راستہ کھلا رکھنا چاہتے تھے کہ شاید نواز شریف اُنہیں بُلا لیں۔جب تک اُن کا رویہ اِس قسم کا رہا، وہ تنہا رہے،مگر جونہی اُن کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) نے امیدوار کھڑے کر دیئے تو سارے حجاب ختم ہو گئے۔

چودھری نثار علی خان بھی کھل کر سامنے آ گئے اور وہ مسلم لیگی بھی جو خود کو نواز شریف کے فوج و عدلیہ مخالف بیانیے سے جوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ یہ باتیں تو گزشتہ کئی ماہ سے چل رہی تھیں کہ چودھری نثار علی خان کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے کم از کم 35 ارکانِ اسمبلی موجود ہیں، جو مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں، سیاست کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ مخالفوں کو بھی اپنے قریب لانے کی کوشش کی جائے،لیکن نواز شریف اس کے اُلٹ چلتے رہے۔انہوں نے چودھری نثار علی خان جیسے ایک بڑے مسلم لیگی رہنما کو دھکے دے کر اپنے سے دور کر دیا۔

سب سے بڑا سیاسی نقصان یہ ہوا کہ آخر وقت پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار شیر کی بجائے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کی طرف چلے گئے۔ ان حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کا کوئی امیدوار ہی نہ رہا۔جیب گروپ کے آنے سے سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے۔جنوبی پنجاب جہاں پہلے ہی مسلم لیگ(ن) کو مشکل صورتِ حال کا سامنا تھا۔ اب بالکل ہی اُس کا صفایا سا ہو گیا ہے، مقابلہ اب تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کا نہیں،بلکہ بلّے اور جیپ کے درمیان ہو گیا ہے۔دلچسپ صورتِ حال یہ ہے کہ دونوں طرف مسلم لیگ(ن) چھوڑ کر آنے والے آمنے سامنے ہیں۔ اب اگر اِن حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کا ووٹ بینک ہے بھی سہی تو وہ اُس کے حق میں کیسے استعمال ہو سکتا ہے۔

جب امیدوار ہی موجود نہیں تو ووٹ کسے ڈالیں۔ ایک حوالے سے یہ تحریک انصاف کی کامیابی کو یقینی بنانے کا عمل ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ اگر یہ جیب گروپ خاطر خواہ نشستیں حاصل کر لیتا ہے، کیا اس کا شہباز شریف سے اتحاد ہو گا یا عمران خان سے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چودھری نثار علی خان نے ابھی تک ایسا کوئی اعلان نہیں کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے منحرفین کا کوئی گروپ اُن کی سربراہی میں قائم ہوا ہے،لیکن یہ جیپ کا نشان دیکھتے ہی دیکھتے ایک گروپ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

جیب گروپ میں جانے والے یہ لوگ زیادہ آسانی سے لوگوں میں جا سکیں گے،وگرنہ سب دیکھ رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کو اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں انتخابی مہم چلانا مشکل ہو رہا ہے۔مریم نواز یہ کہتی ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ گھر گھر پہنچ چکا ہے،25جولائی کو عوام اس بیانیے کی حمایت میں ووٹ دیں گے،لیکن وہ کیوں نہیں دیکھ رہی ہیں کہ گھر گھر پہنچنے والے اس بیانیے سے بدک کر مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے بھاگ رہے ہیں،جب امیدوار ہی نہیں ہو گا، تو لوگ ووٹ کسے دیں گے۔

انتخابات میں اب صرف 24دن رہ گئے ہیں،دو دن پہلے انتخابی مہم روک دی جاتی ہے، گویا صرف بائیس دن ہیں،لیکن میاں صاحب کے لندن سے واپس آنے کا فی الوقت کوئی امکان نظر نہیں آ رہا،حالانکہ یہاں اُن کی پارٹی کو اشد ضرورت ہے۔

اتنی بڑی جماعت کو اکیلے شہباز شریف کے لئے سنبھالنا ممکن نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ مسلم لیگے(ن) کا ووٹ بینک صرف نواز شریف کا ہے۔ وہ اگر فوری واپس نہیں آتے تو موجودہ انتخابات مسلم لیگ(ن) کے لئے ٹائی ٹینک جہاز ثابت ہوں گے۔

مزید :

رائے -کالم -