جنرل ضیاء الحق صاحب کو چیف آ رمی سٹاف کیسے بنایا گیا:
جب میری اور بھٹو صاحب کی انڈر سٹینڈنگ ( Understanding ) کافی اچھی ہو گئی تو ایک دن میں نے ہمت کر کے ان سے دریافت کیا ’’ جناب آپ نے جنرل ضیاء الحق صاحب کو فوج کا سربراہ کیسے چن لیا‘‘
انہوں نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد فرمایا’’ بھئی یہ جنرل ٹکا خان کی سفارش تھی۔ ٹکا صاحب نے سفارش کی کہ ان کے بعد جنرل ضیاء الحق کو ان کا جانشین بنایا جائے۔ جنرل ٹکا خان کا خیال تھا کہ جنرل ضیاء الحق ایک مذہبی قسم کا شخص ہے اور فوج کا سربراہ ہونے کے بعدوہ خود میں مشغول رہے گا اور حکومت کیلئے سیاسی معاملات میں کوئی ہلچل پیدا نہ کرے گا‘‘
پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی جیل میں سکیورٹی پر مامور کرنل رفیع الدین کی تہلکہ خیز یادداشتیں ۔۔۔ 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بھٹو صاحب کے اس بیان کی صداقت اﷲتعالیٰ ہی جانتا ہے کیونکہ ان کے پھانسی لگنے کے کافی عرصہ بعد جنرل ٹکا خان صاحب نے ایک اخباری بیان کے مطابق یہ کہا تھا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سربراہ بنانے کی مخالفت کی تھی۔ بھٹو صاحب نے اسی ملاقات کے دوران مجھے یہ بھی بتایا کہ جنرل عبدالمجید ملک بھی چیف آ ف آرمی سٹاف کے عہدے کیلئے ایک موزوں شخص تھے۔ کہنے لگے جنرل عبدالمجید ایک روشن دماغ‘ عقل مند اور قابل جنرل تھے لیکن وہ بدقسمتی سے اس عہدے کو نہ پا سکے۔ حالانکہ انہوں (مسٹر بھٹو) نے کافی چاہا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ میں نے بھٹو صاحب کو جنرل عبدالمجید ملک کے ماتحت ایس ایس جی ( Special Service Group ) میں سروس کرنے کا حال سنایا اوران کی قیادت میں1965ء کی جنگ کا ذکر بھی کیا اور بعد میں1971ء کی جنگ میں ان کے کارہائے نمایاں کی تفصیل بھی بیان کی توکہنے لگے کہ وہ ایک شائستہ اور سمجھدار جنرل ہیں اور فوج کے ایک اچھے سربراہ ثابت ہوتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
بھٹو صاحب کو کبھی تختۂ دار پر چڑھنے کا خیال تک نہ آیا تھا:
بھٹو صاحب اپنی زندگی کے آخری 323 دن راولپنڈی جیل میں قید رہے۔ اس دوران میرے خیال میں ان کو کبھی یقین نہ آیا تھا کہ انہیں تختۂ دار پر چڑھا دیا جائے گا۔ ان کے وکلاء‘ فیملی ممبرز اور جیل میں ملنے والے تقریباً تمام لوگوں کے ان سے اس مقدمے کے متعلق ہمیشہ یہی کہا کہ یہ صرف سیاسی کھیل تماشہ ہے۔ انہیں بیرونی ممالک کے سربراہوں اور کئی دوسری شخصیات کے جنرل ضیاء الحق اور ان کی حکومت پر اثرو رسوخ کا علم بھی تھا۔ علاوہ ازیں بھٹو صاحب کے کچھ بیرونی دوستوں نے جنرل ضیاء ا لحق صاحب سے ان کی معافی کا وعدہ تک بھی لے لیا تھا جو میرے خیال میں بھٹو صاحب کے علم میں بھی لایا گیا تھا۔ مقدمہ کی اپیل کے آخری چند ماہ کے دوران جب مجھے یہ علم ہوا کہ حکومت بھٹو صاحب کو پھانسی دینے پر تلی ہوئی ہے تو میں نے ان کو اپنا مخلصانہ مشورہ دیا مگر انہوں نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ یہ مقدمہ جھوٹا اور بناوٹی ہے اور ان کو کچھ پروا نہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے مگر وہ جھوٹ کے آگے کبھی سر نہیں جھکائیں گے۔ ان کے اس بہادرانہ جواب نے ان کی عزت میرے دل میں اور بڑھا دی۔ بلکہ جب تین اپریل1979ء کی شام بھٹو صاحب کو سرکاری طور پر یہ بتایا جا رہا تھاکہ ان کو آخری فیصلہ کے مطابق اب پھانسی دی جا رہی ہے تو بھٹو صاحب اس موت کے پیغام پر مسکرا رہے تھے۔ اس وقت میں آپے سے باہر ہو گیا تھا اور ان کو پھانسی دی جانے پر ایک زبردست اضطراب کی حالت میں تھا۔
چونکہ میں نے یہ ڈرامہ شروع سے آخیر تک دیکھا ہے اسلئے پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھٹو صاحب کو تختۂ دار پر چڑھنے کا کبھی خیال تک نہ آیا تھا۔
میرا مخلصانہ مشورہ: بھٹو صاحب نے راولپنڈی جیل میں قید کے دوران مجھے یہ تاثر دیا کہ وہ اس کیس کے متعلق ذرہ برابر بھی فکر مند نہیں ہیں اور جب بھی میں نے ان سے اس سے متعلق کچھ کہا تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ چونکہ یہ بناوٹی کیس ہے اس لئے وہ کیوں فکر مند ہوں؟ جب ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھنے لگے اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ میری عزت کرتے ہیں اور وہ یہ سمجھ گئے کہ میں اس کا دل سے خیرخواہ ہوں تو میں نے ان سے چند مرتبہ کہا کہ انہیں اس مقدمے کو اتنی لاپرواہی سے نہیں لینا چاہئے مگر انہوں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ان کا اس میں ذرہ بھی قصور نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ بہت بڑے سیاستدان‘ مدّبر اور معاملہ فہم ہیں اور انہیں اپنی اس خداد صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر انہوں نے الٹا فوجی جنتا کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ میں نے ان سے کہا کہ جناب اگر آپ یہ بیان دیں کہ آپ ان جرنیلوں سے سٹاف کالج کی ٹٹیاں صاف کروائیں گے اور کوئی بھی آئین سے انحراف کرنے سے نہیں بچ سکے گا تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ لوگ آپ کو ایسے ہی چھوڑ کراپنی مصیبت خود مول لیں گے؟ بہرحال میں نے چند مرتبہ صدقِ دل سے ان سے عرض کیا کہ انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اس حالت سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ممکن ہے میرے دلائل سے وہ قائل نہ ہو سکے ہوں۔ بہرحال انہوں نے ہر بار مجھے یہی جواب دیا کہ اس مقدمے میں وہ بے قصور ہیں اور وہ کیوں اپنی عزت نفس کا سودا کریں۔ ممکن ہے ایسا راستہ اختیار کرنے میں ان کا سیاسی کردار( Political Career ) خراب ہوتا ہویاانہیں یقین ہو کہ وہ کبھی ایسی سزا نہ پائیں گے۔
کچھ شخصیات پر بھٹوصاحب کے خیالات: ہماری ملاقاتوں کے دوران بھٹو صاحب نے وقتاًفوقتاً کچھ شخصیات پر تبصرے کئے تھے جو ذیل میں درج کرتا ہوں۔
ؓ ا) فیلڈمارشل ایوب خان: ایک دن کہنے لگے کہ ایوب خان صاحب کئی نادر اور غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ دراز قد‘ خوبصورت اور نقش پذیر شخصیت کے مالک تھے لیکن وہ بحرانوں ( Crisis ) میں کمزور دل کے مالک تھے۔ ( انہوں نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے اور کلمے والی انگلی کے درمیان کوئی انچ بھر کا فاصلہ رکھ کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی)چونکہ بھٹو صاحب کو جیل میں سوائے خوراک اور ادویات وغیرہ کے باقی کسی قسم کی کوئی اشیاء نہ مل سکتی تھیں۔ کہنے لگے کہ ایک دفعہ ایوب خان صاحب نے ان کو جیل میں وسکی کی بوتلوں کاایک کریٹ بھیجا تھا اور چونکہ انہیں ایک معمولی احسان بھی ہمیشہ یاد رہتا ہے‘ اس تحفے کی یاد بھی رہی۔ جب وہ خود حکومت میں واپس آئے تو ایوب خان صاحب کے فیملی ممبران کوٹیکس سے بچنے کے الزام میں دھر لیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس احسان کو یاد کرتے ہوئے ان کے فیملی ممبران کی مددد کی اور اس مصیبت سے ان کی خلاصی کروائی تھی۔
بھٹو صاحب کو ایوب خان صاحب سے سب سے بڑا گلہ یہ تھا کہ انہوں نے پہلا مارشل لاء لگا کرقوم اور جمہوریت پر بہت بڑا ظلم کیا۔ ان کے نزدیک یہ اقدام ایوب خان کا ناقابلِ معافی گناہ ہے۔(جاری ہے )
کمپوزر: طارق عباس