صحافی اور سماجی تحفظ

صحافی اور سماجی تحفظ
صحافی اور سماجی تحفظ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملک کے تمام طبقات اور پیشہ ور شخصیات خصوصاً محنت کش طبقہ کو سماجی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سماجی تحفظ یہ کہ حکومت ان کی دیکھ بھال اور علاج معالجہ کی مکمل ذمہ دار ٹہرے۔ یہ خیال معروف صحافی ادریس بختیار کی یاد میں کراچی پریس کلب میں ہونے والے تعزیتی اجلاس میں ذہن میں آیا۔ پوری زندگی صحافی، شاعر، ادیب، فنکار محنت کرتے ہیں لیکن اپنی اپنی عمر عزیز کے آخری دور میں انہیں مختلف قسم کے معاملات اور مسائل کا شکار رہنا پڑتا ہے۔ کسی کے پاس اپنے اور اہل خانہ کے علاج معالجہ کا خرچ برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے، کسی کے پاس گھر کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں ہوتی ہے، کسی کے لئے بچوں کی تعلیم کا خرچہ برداشت کرنا ان کی طاقت میں نہیں ہوتا ہے اور کسی کے پاس تو روٹی کھانے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں۔ سفید پوشی مارے دیتی ہے کہ ہاتھ پھیلانا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ ساری ضرورتیں ایسی ہیں کہ ان کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ اگر ان ضرورتوں کو ٹالا نہیں جا سکتا تو پھر کوئی انسان کیا کرے۔ بوڑھے لوگوں کو تو بنک بھی قرضہ دیتے ہیں نہ یہ گھر خریدینے یا کار کے لئے قرضہ دیتے ہیں۔


ادریس بختیار کی یاد میں اسلام آباد، لاہور، کراچی میں تعزیتی اجلاس ہو چکے ہیں۔ مقررین نے ان کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، سب ہی ایک بات پر متفق تھے کہ انہوں نے پوری زندگی دیانت داری کے ساتھ صحافت کی اور وہ صحافت کا اعتبار قرار دئے گئے۔ ادریس صاحب ہوں یا ان کے پائے کے کوئی اور صحافی، ادیب شاعر وغیرہ ہوں، ان کی صلاحیتوں کی تعریف میں زمین آسمان ملاتے ہیں لیکن ان لوگوں کی زندگی میں جھانکتے نہیں ہیں۔ یہ معلوم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا کہ ان کے یا ان کے بعد ان کے اہل خانہ کے شب و روز کس طرح اور کن حالات میں گزر رہے ہیں۔ اپنے وقت کے مشہور شاعر حبیب جالب جو مزاحمتی شاعری کی وجہ سے ملک بھر میں اپنی شہرت رکھتے تھے، کے اہل خانہ کو زندگی گزارنے کے لئے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کسی نے خصوصاً ان کے شعر جلسوں میں پڑھنے والوں نے معلوم ہی نہیں کیا۔ ان کی صاحبزا ی کا گزشتہ دنوں ایک انٹر ویو پڑھنے کو ملا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ انہیں گھر چلانے کے لئے ٹیکسی چلانا پڑ رہی ہے۔ جوش ملیح آبادی کے ساتھ تو جو کچھ اس ملک کے افسران کیا کرتے تھے، اس کی ایک جھلک مولانا کوثر نیازی مرحوم کے نام ان کے طبع شدہ خطوط پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ جوش صاحب کے پائے کا اس ملک میں اردو زبان کا کوئی اور شاعر نہیں ملتا۔ سندھ میں بے شمار شاعر، ادیب اور صحافی کس مپرسی کی حالت میں زندگی گزار کر دوسری دنیا میں چلے گئے۔ کیا دنیا کے دیگر ممالک بھی اپنے شاعروں، ادیبوں، صحافیوں کے اہل خانہ کو اس طرح نظر انداز کردیتے ہیں جیسا پاکستان میں کیا جاتا ہے۔


اسی وجہ سے یہ سوال ذہن میں آیا کہ آخر ان افراد یا ان کے اہل خانہ کے لئے با مقصد سماجی تحفظ کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ یہ لوگ تو محنت کش طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا کوئی کاروبار تو ہوتا نہیں جس کی بنیاد پر وہ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ پس انداز کر سکیں تاکہ عمر کے آخری حصے میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر با وقار اور با عزت طریقے سے اپنی ضروریات پوری کر لیا کریں۔ سارے طبقات کے لئے یہ ممکن بھی نہیں ہوتا۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا کو ہی دیکھ لیں، گزشتہ ایک سال کے دوران، قلم کے یہ محنت کش جس انداز میں استحصال کا شکار ہوئے ہیں، وہ اذیت ناک ہے۔ اول تو بہت کم افراد ایسے ہوں گے جنہیں مستقل بنیادوں کی ملازمت پر تمام سہولتوں اور مراعات کے ساتھ ملازمت نصیب ہو۔

اب تو چلن یہ ہے کہ کانٹریکٹ اور ماہانہ بنیاد پر ملازمت کرو۔ مالکان کو جب دل کیا انہوں نے ایک ایک فون پر ملازمت ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ قلم کے یہ محنت کش کسی مقدمہ بازی میں الجھے بغیر مالک کی رضا پر راضی ہونے پر مجبور ہوئے۔ ٖصحافیوں کی تنظیمیں بھی نام نہاد احتجاج پر اکتفا کرتی ہیں۔ کوئی با مقصد اور پر اثر احتجاج اور تحریک نہیں چلائی جاتی ہے۔ اندر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ تنظیموں کے عہدیداران اپنے ذاتی منفعت بخش مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کئے رہتے ہیں۔ تحفظ کے لئے قانون سازی پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے تاکہ ملازمت سے جبری علیحدگی کا مقابلہ تو کیا جاسکے۔ کم تن خواہ والے لوگ تو ویسے ہی مارے گئے۔ زیادہ تن خواہ والے لوگ ایک جھٹکے میں سڑک پر آگئے۔ یہ لوگ کوئی اور کام بھی کرنے کے قابل نہیں رہتے ہیں۔


پاکستان میں حکومت اپنے سالانہ بجٹ میں ایک خطیر رقم ایسے افراد کے لئے کیوں نہیں مختص کر سکتی۔ ایسی رقم جس سے ان لوگوں کی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ یہ ایسے لوگوں کا حق بنتا ہے جو اپنی عمر کا بڑا حصہ اپنے شعبہ کی خاطر محنت کر کے گزار دیتے ہیں۔ جس کی صحافتی خدمات اس ملک کا اعتبار قرار دی جاتی ہیں، جن کی شاعری پر لوگ زندہ رہتے ہیں، جن کی تحریروں، کہانیوں، افسانوں کو نسلیں پڑھتی ہیں، کیوں نہیں حقدار قرار پاتے کہ حکومتیں ان کی فکر کریں، ان کی دیکھ بھال پر توجہ دیں اور انہیں ضرورت کے مطابق وظائف دیا کریں۔ سارے معاملات خود جیو اور زندہ رہو، کی بنیا پر چھوڑے نہیں جا سکتے۔

مزید :

رائے -کالم -