میڈیا اور سوشل میڈیا

میڈیا اور سوشل میڈیا
میڈیا اور سوشل میڈیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ابلاغ عام کی سائنس کے بانی بہت بڑے امریکی سکالر ولبر شریم نے آج سے پچیس سال قبل ابلاغ عام پر ایک اہم کتاب مرتب کی، جس میں انہوں نے ایک بے حد اہم واقعہ بیان کیاہے۔ امریکی ریاست ہوائی میں ٹیلی وژن شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اس کے لوگوں کی ثقافت اور رہن سہن پر معلومات جمع کیں اور پھر وہاں ٹیلی وژن شروع ہوجانے کے کچھ عرصہ بعد عوام کی معمول کی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔

دوسرے ذرائع سے معلومات جمع کرنے کے علاوہ وہ علاقے کے مختلف لوگوں سے بھی خو د جا کر ملے،اور ٹیلی وژن کے متعلق ان کے تاثرات معلوم کئے۔وہ لکھتے ہیں کہ اس دوران وہ ایک مقامی قبائلی سردار سے ملے، جس کی باتوں نے انہیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا۔ اس نے کہا : آپ لوگوں نے ہمارے ساتھ یہ بہت بڑا ظلم کیا ہے، یہ جادو کا ڈبہ دے کر ہماری اولاد کو ہم سے چھین لیا ہے۔ آپ کا ایک تحفہ اخبارہے جسے ہماری جوان اولاد صبح ہی صبح لے کر بیٹھ جاتی ہے ہمارے بچے اخبار کے پیچھے اپنا منہ ہم سے چھپائے بیٹھے رہتے ہیں۔

آپ نے ٹیلی وژن کی صور ت میں جادو کا ایک ایسا ڈبہ ہمیں دے دیا ہے، جس کے طلسم سے ہماری نئی نسلیں باہر نہیں نکل رہیں۔ اس سے پہلے ہماری اولاد کا ہم سے قریبی ذہنی و قلبی تعلق قائم تھا، ہم اپنے آباؤ اجداد سے نسل در نسل ملنے والی دانش اور حکمت کی باتیں اپنی اولاد کو بتاتے تھے انہیں یہ سمجھاتے تھے کہ انہیں کس موسم میں کون سی فصل بونی ہے اس کی حفاظت کیسے کرنا ہے اور اسے کب کاٹنا ہے۔ انہیں قبیلے کے لوگوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ آگہی ہوتی تھی اور وہ اپنے لوگوں کے غم، خوشی اور تفریح اور کھیلوں میں شامل ہوتے تھے،لیکن اب آپ کا یہ جادو کا ڈبہ ہماری نئی نسل کو ہم سے چھین کر لے گیا ہے، ہمارے بچے ہم سے بیگانہ ہوگئے ہیں۔ وہ گھر اور قبیلے کی بجائے ہر حال میں اسی ڈبے کو ترجیح اور اولیت دیتے ہیں۔

ولبر شریم لکھتے ہیں کہ وہ اس بزرگ کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں سے اس کی باتوں کے پیچھے موجو د گہرے کرب اور درد کو محسوس کرسکتے تھے۔انہیں اس مقامی دانش اور شعور کا احساس تھا، جس سے نئی نسل محروم ہورہی تھی۔ ولبر شریم نے ابلاغ عام کے اس تباہ کن منفی پہلو کی نشاندہی اس دور میں کی جب ٹیلی وژن اپنے ابتدائی مراحل میں تھا، پسماندہ علاقوں میں اسے محض جادو کا ایک ڈبہ ہی کہا جاتا تھا۔آج انسانی ذہن اور زندگی کا گھیراؤ کرنے والے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی یلغار ولبر شریم کے زمانے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دُنیا بھر میں اربوں انسان اس ٹیکنالوجی کی زد میں ہیں۔ آج ہر گھر کا مسئلہ یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو کسی خطرناک نشے کی طرح چمٹ جانے والی اس ٹیکنالوجی سے کس طرح نجات دلا کر حقیقی زندگی کی طرف واٖپس لائیں؟


حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی بری چیز نہیں یہ انسان کی صلاحیت کار اور دائرہ اثر میں اضافہ کرتی ہے، انسان چاہے تو اس سے فائدہ اٹھائے چاہے اپنا ہی نقصان کرتا رہے۔ ایک چھری سبزی اور پھل کاٹنے کے کام آتی ہے، اس سے ہم اپنا یا کسی کا پیٹ کا ٹ کر اپنے لئے مصیبت بھی کھڑی کرسکتے ہیں۔ ابلاغیات کا ایک سینئر پروفیسر ہونے کی وجہ سے، اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی تقریب میں یا سماجی اجتماع میں اس ٹیکنالوجی کے ستائے ہوئے والدین مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ اپنے بچوں کو انٹرنیٹ، آئی فون اور سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا کے منفی اثرات سے کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ میرا جواب ان کے لئے یہ ہوتا ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے بچوں کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں ان کا مثبت اور مفید استعمال سکھا اور سمجھا دیا جائے۔ ان پر یہ بھی واضح کر دیا جائے کہ کسی بھی چیز کے استعمال سے پہلے خود ان پر یہ واضح ہونا چاہئے کہ اس کے استعمال سے وہ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

کیا وہ اہم خبریں حاصل کرنے کے لئے میڈیا کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، یا تفریح کے لئے ٹیلی وژن، اخبار اور انٹرنیٹ دیکھنا چاہتے ہیں، یا اپنے نصاب کے سلسلے میں کسی طرح کی مدد چاہتے ہیں؟ پھر یہ کہ روزانہ ان مقاصد کے لئے میڈیا کو کتنا وقت دینا چاہتے ہیں، جس سے ان کو اپنے مقاصد بھی حاصل ہوتے رہیں، ہر کام میں توازن بھی رہے اور ان کا استعمال ان کے وقت اور صحت کے نقصان کا سبب بھی نہ بنے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے کوئی مقاصد نہیں رکھتے وہ ہمیشہ ان لوگوں کی طرف سے استعمال کر لئے جاتے ہیں جن کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ ہر طرح کے میڈیا مالکوں کے اپنے مقاصد ہیں۔ سب سے بڑا مقصد تو لوگوں کے ذہن و فکر پر اثر انداز ہونا ہے، اس کے بعد اشتہارات کے معاوضے سے اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہے،اشتہارات دینے والے اشتہارات کے ذریعے ترغیب و تحریص سے اپنی اشیاء اور سروسز فروخت کرتے ہیں۔

جب ہم اپنے مقاصد کا تعین کئے بغیر بلا ضرورت طویل عرصہ تک میڈیا کا استعمال کرتے ہیں تو یہ ہمارے افکار پر منفی طور پر اثر انداز ہونے کے علاوہ بلا ضرورت ہمیں مختلف اشیا ء خریدنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ ہم اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بجائے دوسروں کے مقاصد کے لئے استعمال ہوتے رہتے ہیں۔دوسری طرف روائتی اورسوشل میڈیا کے بیشمار فوائد ہیں۔ اس وقت انٹرنیٹ پر سرچ انجن گوگل اور یوٹیوب کے ذریعے ہم ہر طرح کے سائنسی اور عمرانی علوم کے ہر مضمون کے ہر موضوع سے متعلق تفصیلی معلومات اور مواد حاصل کرسکتے ہیں۔ سکائپ، فیس بک میسنجر، واٹس ایپ کے ذریعے اندرون و بیرون ملک بیٹھے اہل ِ خانہ اور دوستوں سے گھنٹوں بات چیت کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے بنک اکاؤنٹ سے بجلی، گیس، پانی، فون اور ہر طرح کے بل ادا کرسکتے ہیں۔ کریم اور ”اوبر“ کی ٹیکسی سروس کسی بھی جگہ بیٹھے حاصل کر سکتے ہیں۔ نیوی گیٹر پروگرام سے کسی بھی ایڈریس تک با آسانی پہنچ سکتے ہیں۔اپنی تصاویر اور دستاویزات کی کاپی اپنے دوستوں کو بھجوا سکتے ہیں۔

آن لائن مختلف تعلیمی اداروں میں داخلے کے لئے اور مختلف اداروں میں ملازمت کے لئے درخواست بھیج سکتے ہیں۔ کسی بھی محکمے یا ادارے کی شکایت وزیراعظم کے پورٹل پر کر سکتے ہیں۔تمام اہم اداروں اور محکموں اور کمپنیوں کے متعلق ہر طرح کی معلومات گھر بیٹھے ان کی ویب سائٹ سے دیکھ سکتے ہیں۔ اپنے خیالات یا فن پاروں کو دُنیا سے روشناس کرانے کے لئے فیس بُک یا یو ٹیوب جیسے سوشل میڈیا سے کام لے سکتے ہیں۔ دُنیا میں کسی بھی جگہ بیٹھے انسانوں کی مختلف تنظیموں کے رکن بن سکتے ہیں۔انٹرنیٹ کے ذریعے ای بزنس کر سکتے ہیں۔ کئی طرح کی سروسز انٹرنیٹ کے ذریعے فراہم کر کے گھر بیٹھے اپنے لئے روزی کمانے کے ذرائع خود تخلیق کر سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے بڑے بڑے صحافتی اداروں کے مقابلے میں عام آدمی کو اپنی اہم اور ضروری بات دوسروں تک پہنچانے کے لئے طاقت بخشی ہے، یعنی ایمپاور کیا ہے۔

یہ سب کچھ اس قدر ہے کہ اگر اس سے کسی طرف بھی اپنے مقاصد کے لئے نوجوانوں کی توجہ ہوجائے تو وہ نئے زمانے کی اس نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمگیر سطح پر اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوا سکتے ہیں۔ ان کے لئے یہ ایک کھلا میدان ہے جس میں وہ اپنے مقاصدکے حصول کے لئے راستے تلاش کرسکتے ہیں، اگر وہ کسی مقصد کے بغیر ہی بھاگ دوڑمیں لگے رہیں گے تو اس طرح زندگی کی راہوں پر آگے بڑھے بغیر ہی خود کو تھکا کر چور کرلیں گے۔ والدین اس سلسلے میں صبر اور تحمل کے ساتھ بچوں کی رہنمائی کرسکیں تو اس مصیبت کو اپنے اور بچوں کے لئے ایک نعمت میں بدل سکتے ہیں۔ بچوں کے روزانہ کام کا ٹائم ٹیبل بنانا اور اس پر سختی سے عمل کر نا بھی بے حد ضرروری ہے۔ اس سے ان کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور کارکردگی میں بھی۔

مزید :

رائے -کالم -