مضبوط کرسی اور مائنس وَن
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مَیں نے کبھی نہیں کہا،کرسی مضبوط ہے آج ہیں کل نہیں ہیں، مَیں نے نہیں کہا کہ میری حکومت نہیں جانے والی، کرسی آنی جانی چیز ہے جب تک ہم نظریہ اور اصول پر قائم ہیں کوئی ہماری حکومت نہیں گرا سکتا، یہ لوگ سوچ رہے ہیں کہ مجھے مائنس کر کے یہ بچ جائیں گے،مَیں اگر مائنس ہو بھی گیا تو ان کی جان نہیں چھوٹے گی، اپنے مشن پر کار بند ہوں اور اسے مکمل کریں گے، ہر جگہ تحقیقات کریں گے اور جنہوں نے عوام کا استحصال کیا ہے، اُن کے پیچھے جائیں گے، نواز شریف نے اِسی سیٹ پر کھڑے ہو کر جعلی کاغذات لہرائے،مسلم لیگ(ن) کا کوئی دین ایمان نہیں، یہ کبھی جہادیوں سے پیسے لیتے ہیں اور کبھی لبرل بنتے ہیں، چھ سات لوگ این آر او لینا چاہ رہے ہیں یہ این آر او کو بھول جائیں مَیں ان کو کبھی این آر او نہیں دوں گا، اپوزیشن کی باتوں کا مائنڈ نہیں کرتا، کیونکہ اُن کا مجھے پتہ ہے ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں، بجٹ سے ایک رات قبل ٹی وی شوز میں ایسا منظر پیش کیا جاتا رہا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور یہ حکومت کا آخری دن ہے، وزیراعظم نے اِن خیالات کا اظہار بجٹ کی منظوری کے اگلے روز قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کیا۔
بجٹ منظوری سے پہلے انہوں نے وزیراعظم ہاؤس کے لان میں حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کو جو عشائیہ دیا تھا اس میں انہوں نے برملا اعلان کیا تھا کہ اُن کی حکومت نہ صرف پانچ سال پورے گی،بلکہ اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں،پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ انہوں نے ”مضبوط کرسی“ کے الفاظ استعمال نہیں کئے،لیکن جب وہ یہ کہتے ہیں اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں تو اس کا صاف اور سیدھا مطلب تو یہی نکلتا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اُن کی حکومت دس سال رہے گی،جن میں سے صرف دو سال گذرے ہیں گویا آئندہ آٹھ سال کے لئے اُن کے سوا کوئی آپشن نہیں،اس کے بعد اگر کسی نے اُن کے الفاظ کی تہہ تک پہنچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ وہ اپنی مضبوط کرسی کی بات کر رہے ہیں تو چنداں غلط بھی نہیں تھا، کیونکہ مضبوط حکومت اور مضبوط کرسی کے بغیر پہلے اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے اور پھر مزید پانچ سال کے لئے برسر اقتدار رہنے کا دعویٰ اس کے بغیر تو نہیں کیا جا سکتا،جو کرسی مضبوط نہ ہو،اور جس کے پائے ہل رہے ہوں یا اُنہیں آہستہ آہستہ دیمک کھا رہی ہو اس پر بیٹھا ہوا شخص کبھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ حکومت دس سال رہے گی۔اب انہوں نے تین دن بعد ہی اگر یہ کہہ دیا ہے کہ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ اُن کی کرسی مضبوط ہے تو کیا یہ معروضی حالات کا نتیجہ ہے،حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کی گھٹتی بڑھتی رفتار کا ادراک ہے، ارکانِ اسمبلی کی کسی جلی یا خفی حمایت پر بھروسہ ہے یا منتشر منتشر اور ڈھیلی ڈھالی اپوزیشن کو آئینہ دکھانے کی کوشش، یہ جو بھی ہے وہ بہتر سمجھتے ہیں،لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ کرسی کی مضبوطی کے متعلق ان کے الفاظ بھلے سے یہ نہ ہوں، مُدعا و مفہوم بہرحال اِسی جانب اشارہ کرتا تھا۔
بجٹ منظوری کے بعد وہ قدرے ریلیکس محسوس کرتے ہیں اُن کے پاس اس اطمینان کی وجوہ بھی ہوں گی،لیکن اِس امر سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک اتحادی جماعت اُن کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کر چکی ہے، دوسری اتحادی جماعتیں بھی گو مگو کا شکار ہیں، عشایئے میں تحریک انصاف کے اپنے ارکان کو سپیکر اسد قیصر منا کر بلکہ گھیر گھار کر لائے اور یہی ارکان تھے، جنہیں یقین دلایا گیا کہ اُنہیں ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں گے،حالانکہ وزیراعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ یہ ارکانِ اسمبلی کا استحقاق نہیں وہ مسلسل ایسے فنڈز دینے سے انکار کرتے رہے، اب اگر فنڈز کا اعلان کیا گیا تو اِس کا مطلب اُس دباؤ کو قبول کرنے کے سوا کیا ہے، جو یہ ارکان ڈال رہے ہیں،اب اگر ان ارکان کو فنڈز دیئے گئے تو یہ اصول پسندی کہلائے گی یا بے اصولی، ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے،لیکن یہ تو واضح ہے کہ ناراض ارکان کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں فنڈز کے اعلان کا بھی بڑا حصہ ہے ورنہ ارکانِ اسمبلی مٹر والے چاولوں اور قورمے سے تو مطمئن ہونے والے نہیں تھے، جہاں تک اتحادیوں کا تعلق ہے اُن کے اپنے اپنے مطالبات ہیں اور اپنے اپنے دُکھ ہیں۔اختر مینگل کو لاپتہ افراد کا غم ہے اور اس کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ دو سال میں ہمارا کوئی مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا،ان کی پارٹی کے پاس کوئی وزارت نہیں،اِس لئے وہ حکومت میں اگر شامل ہوئے تھے تو اپنے چند دوسرے مطالبات ہی منوانے کے لئے ایسا کیا تھا وہ بھی اگر نہ مانے جائیں تو اُن کے پاس حکومت کی حمایت کا جواز نہیں رہتا۔مسلم لیگ(ق) کھل کر ساتھ دے رہی ہے،لیکن عشایئے میں اس کی کوئی نمائندگی نہیں تھی، اصرار کے باوجود چودھری شجاعت حسین نے خود شرکت کی نہ اپنا کوئی ساتھی بھیجا، اس طرزِ عمل میں بھی احتجاج کا کوئی نہ کوئی انداز تو چھپا ہوا تھا، جب اتحادیوں اور ساتھیوں کی حالت یہ ہو تو پھر ایک ایک آزاد رکن بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے، بجٹ سے پہلے ایسے آزاد ارکان بھی وزیراعظم سے ملاقات کرتے رہے۔
وزیراعظم نے ایک بار پھر این آر او کے بارے میں اپوزیشن کو سرخ جھنڈی دکھا دی ہے وہ جب سے اقتدار میں آئے ہیں یہی کہہ رہے ہیں کہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے، اب بھی انہوں نے یہ بات دہرائی کہ چھ سات ارکان این آر او مانگ رہے ہیں۔اگرچہ نام نہیں بتائے گئے،لیکن قیاس آرائیاں تو کی جا رہی ہیں البتہ اپوزیشن یہ کہہ رہی ہے کہ این آر او مانگنے والوں کے نام بتائے جائیں، دو سال کا عرصہ اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کے لئے بڑی سختی کا دور تھا، گرفتاریاں ہوئیں اور لمبے لمبے ریمانڈ کے بعد کئی رہنما اب ضمانت پر ہیں اور اُن کے مقدمات چل رہے ہیں،پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز البتہ اب تک جیل میں ہیں اُن کے خلاف ریفرنس بنا ہے نہ اُن کی ضمانت ہوئی ہے،کئی رہنماؤں کے خلاف نئی انکوائریاں اور نئی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں اور نئی طلبیاں بھی ہو رہی ہیں۔چودھری برادران کے خلاف بھی ایک انیس سال پرانا مقدمہ دوبارہ کھولا گیا تھا، جس کے خلاف وہ کوئی وقت ضائع کئے بغیر عدالت چلے گئے تو یہ غنچہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا،ان حالات میں اگر کسی کو این آر او نہیں ملتا تو اس کے لئے زیادہ پریشانی بھی نہیں،جیلیں کاٹنے والوں کو معلوم ہے کہ وہ مشکل حالات گذار چکے ہیں اب اگر آسانی نہ بھی آئے تو بھی پہلے والی سختیوں کو آواز دینا مشکل ہے،اِس لئے وہ این آر او کے لئے بے تاب بھی نہیں ہیں،وزیراعظم نے مائنس ون کی بات بھی کی ہے اور اپوزیشن کو خبردار کیا ہے کہ وہ چلے بھی گئے تو اس کی جان نہیں چھوٹے گی،احتساب کا جو عمل شروع ہوا ہے اس کا کوئی نتیجہ تو اب تک نہیں نکلا،چینی بحران سے ہاتھ رنگنے والوں کے منہ کا ذائقہ بھی میٹھا ہی ہے۔ نہ جانے مائنس ون کے بعد ایسا تیس مار خان کون ہو گا جو اپنے لیڈر سے بھی زیادہ تیزی سے یہ عمل مکمل کرنے کا رسک لے گا؟ دور دور تک ایسا کوئی نظر تو نہیں آتا،لیکن غیب سے کوئی مردِ کار نکل آئے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم وزیراعظم کے خیالات کے بہاؤ کا رُخ تین دِن کے اندر اندر بلندی سے نشیب کی طرف آیا ہے، فراز کی جانب نہیں گیا۔