حکومتیں شمال ، عدالتیں جنوب کی جانب کیوں؟

عدالتوں کے پاس کوئی تجوری نہیں ہوتی کہ جس میں سے وہ بے دریغ خرچ کر سکیں اور نہ ہی کوئی تلوارہوتی ہے کہ جس کے بل پر انہیں فوج اور پولیس پر برتری ہو، اگر عدالتوں کے پاس کوئی طاقت ہوتی ہے تو وہ ان کی ادارہ جاتی قانونی حیثیت ہوتی ہے یعنی نہ صرف یہ کہ ان کے پاس فیصلے کرنے کا حق یا اتھارٹی ہو بلکہ ان فیصلوں کی عزت و تکریم بھی ہو ، اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ججوں کے بارے میں عام تاثر ہوکہ وہ غیر جانبدار ہیں اور ان کے فیصلے کسی خاص نظریے یا سیاسی وابستگی کی بجائے قانون کی اساس میں گڑے ہوئے ہیں۔ ججوں کے بارے میں باہمی گٹھ جوڑکا تصور عوام میں موجود نہیں ہوتا کیونکہ جج غیر سیاسی ہوتے ہیں۔
ہماری سپریم کورٹ ان دنوں جس بحران کا شکار ہے اس کا سبب اس کی جانب سے کئے جانے والے بعض ایسے فیصلے ہیں جن کی نشاندہی اسلام آباد کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کرتے رہے ہیں ۔ تاہم یہ بات اہم ہے کہ ایسا صرف پاکستان میں نہیں ہوا بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا دیکھا گیا ہے، جس طرح بلغاریہ میں غیر مقبول فیصلوں کی بنا پر فسادات کا برپا ہونا، زمبابوے میں ججوں کو ڈرانے دھمکانے اور نوکریوں سے برخاست کرنے کی دھمکیاں ملنا ، یوگنڈا میں ججوں کے قتل کے واقعات ، جاپان اور امریکہ میں بھی سامنے آنے والے متنازعہ فیصلے اور یہاں پاکستان میں سپریم کورٹ پر حملے ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں عدالتی نظام ججوں کی انفرادی ترجیحات کی بنا پر متاثر ہوا ہے۔ امریکہ میں 2000ءکے انتخابات کے بعد امریکی سپریم کورٹ کی مداخلت اور الگور کی جگہ جونیئر جارج بش کو فاتح ڈکلیئر کرنا دراصل امریکہ کے عدالتی نظام پر کاری ضرب لگانے کے مترادف تھا۔
عدالتوں کا ایک بڑا کام معاشرے میں امن و امان برقرار رکھنا ہوتا ہے لیکن ماضی قریب میں پاکستانی عدالتوں کی جانب سے جس قسم کے فیصلے کیے گئے اس سے نہ صرف معاشرتی بدامنی بلکہ سیاسی بے یقینی میں بھی اضافہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو بے جا چھوٹ دی گئی جس سے عدالتوں کی غیرجانبداری پر بار بار سوالات اٹھے، اسی طرح عدالتوں کا کام معاشرے کا امن بگاڑنے والوں کی سرکوبی کرنا ہوتا ہے لیکن ہماری اعلیٰ عدلیہ نے گزشتہ ایک برس کے دوران اس حوالے سے آنکھیں بند کئے رکھی ہیں اور 25مئی 2022ءکے لانگ مارچ کے دوران تحریک انصاف کے کارکنوں نے جس طرح اسلام آباد شہر میں درختوں کو آگ لگائی اور عدالتی حکم کے باوجود ڈی چوک کا رخ کیا ۔ جب معاملہ عدالت کے سامنے پیش ہوا تو یہ کہہ کر بات ہوا میں اڑادی گئی کہ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو عدالت کے احکامات کے بارے میں آگاہ نہ کیا گیا ہو، اس ایک آبزوریشن نے حکومت کی جانب سے سیاسی بے یقینی کو روکنے کی کوششوں کو زک پہنچائی اور ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا تھا، اسی طرح آرٹیکل 63(1)(f)کی متنازع تشریح نے بھی پنجاب کے اندر سیاسی بے یقینی کو ہوا دی ، خاص طور پر جب حمزہ شہباز کی جگہ چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے اور اس کے بعد پنجاب کی اسمبلی کو زبردستی تحلیل کردیا گیا تو بھی سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی نوٹس نہ لیا گیا اور اگر لاہور ہائیکورٹ نے معاملے کی چھان پھٹک کی کوشش کی تو معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر سپریم کورٹ نے حکومت کو پنجاب میں عام انتخابات کے لئے مجبور کیا جس پر پارلیمنٹ متحرک ہوگئی اور وہاں سے جو قراردادیں پاس ہوئیں اسے اسٹیبلشمنٹ نے اونرشپ دے دی اور یوں پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی بے توقیری کا سامان پیدا ہوا۔
ہمارے ہاں طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ہم نے ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے برطانوی پارلیمانی نظام کو اپنایا ہوا ہے جبکہ ہماری عدالتیں امریکہ کے عدالتی نظام کو فالو کر رہی ہیں جس میں جوڈیشل ریویو کا تصور وہاںکی عدالتوں کو پارلیمان پر برتری دیتا ہے اور وہاںکی عدالتیں آئین کی پاسداری کے نام پر امریکی حکومت کو آگے لگائے رکھتی ہیں۔ جوڈیشل ریویو کے اختیار نے ہمارے ہاں جوڈیشل مارشل لاءکی کیفیت پیدا کر رکھی ہے اور ہماری اعلیٰ عدلیہ نہ صرف سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر ان کے عہدوں سے برخاست کرتی نظر آتی ہے بلکہ ایک وزیر اعظم کو تو پھانسی کے پھندے پر بھی لٹکاچکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ میں عدالتیں امریکی صدر کی جانب سے جنگ کے احکامات کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی ہیں ، یعنی یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر امریکی صدر کو عدالتی مداخلت کا خطرہ نہیں ہوتا وگرنہ وہاں کی عدلیہ جب چاہے اس کے احکامات کو غیر موثر کرسکتی ہے جس طرح حال ہی میں امریکی سپریم کورٹ نے صدر بائیڈن کی جانب سے طلباءکے 400 ارب ڈالر کے قرضوں کی معافی کے فیصلے کو غیر موثر قرار دیا ہے۔
پاکستان نے اگر سیاسی اور معاشی طور پر آگے بڑھنا ہے تو ضروری ہے کہ اگر اس کی پارلیمان برطانوی طرز حکومت پر کاربند ہے تو یہاں کی سپریم کورٹ بھی برطانوی نظام عدل سے نظائر مستعار لے کر اس نظام میں کام کرے لیکن اگر ہماری سپریم کورٹ برطانیہ کی بجائے امریکی نظام عدل کو اپنی اساس مانتی ہے تو پھر بہتر ہے کہ پاکستان میں برطانوی پارلیمانی نظام کی بجائے امریکی صدارتی نظام کو رائج کردیا جائے تاکہ ہم آدھا تیتر آدھا بٹیر ایسی کیفیت سے باہر آسکیں اور ملک معاشی ترقی کے اہداف حاصل کر سکے۔اگرا یسا نہ کیا گیا تو ہر چار سال بعد اس ملک میں ایسی ہی دھماچوکڑی مچتی رہے گی،جو پاکستان کی سیاسی و معاشی ترقی کے لئے زہر قاتل بنی رہے گی۔ ہمیں ریاست کے وسیع تر مفاد میں شمال جنوب کے متضاد سفر کو ترک کرکے ایک ہی جانب قدم اٹھانا ہوں گے!