نئے حالات، نیا ورلڈ ویو

زندگی تغیرات کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ عمر کا ہر نیا مرحلہ شروع ہوتے ہی انسانی رویے کئی تبدیلیوں سے دوچار ہونے لگتے ہیں ۔ کبھی بطور طالب علم امتحانی نتائج کی تشویش تھی تو کبھی نوکری کے حصول اور تنخواہ کے نزول کی فکر۔ آگے چل کر پنشن ، گریجوایٹی اور پراویڈنٹ فنڈ کے مسائل ۔ پھر بھی ، اول تو ہر آدمی سرکاری افسر نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو عین ممکن ہے کہ زاہدِ خشک ہونے کی بجائے اُس کی سروس کسی یوزر فرینڈلی محکمے میں گزری ہو ۔ مراد صرف پی ڈبلیو ڈی یا ایم ای ایس جیسے تعمیراتی شعبے نہیں جہاں ایگزیکٹو انجینئر سے لے کر اوور سئیر بلکہ ورک مستری تک کو انگریز کے زمانے میں بھی کمیشن طے شدہ نرخوں کے مطابق ملا کرتی ۔ اِس کے عوض ٹھیکیدار کو چار ایک کی بجائے چھ ایک کا مسالہ لگانے کی اجازت ہوتی جس کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ ایک بوری سیمنٹ اور چھ گڈے ریت ۔
ضلعی عدالتوں ، محکمہءانہار اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کی طرح یہ یوزر فرینڈلی شعبوں کی نمایاں ترین مثالیں ہیں کہ جہاں اہلکار کی خوشحالی کا عمومی وسیلہ اُس کی اضافی نقدی ہوا کرتی ، یعنی بقول شخصے ، نیٹ کیش ۔ سرکاری حج وفد میں شمولیت یا قربانی کے مفت دنبے بعد کی اختراع ہیں۔ ”بیٹا ، بابوﺅں کی کمیشن تو اُسی طرح ہے جیسے کسی کی ماہانہ تنخواہ “۔ یہ نشاندہی میرے تعمیر پیشہ دادا نے بچپن ہی میں کر دی تھی ۔ جب پوچھا کہ اِس کے علاوہ کیک پیسٹری اور آئس کریمیں کیوں کھِلاتے ہیں تو مسکرا کر کہنے لگے کہ اِسی کی بدولت دفتری لوگ میرے کام بھاگ بھاگ کرتے ہیں ۔ اِس حوالے سے گوجرانوالہ ٹاﺅن ریلوے اسٹیشن پر وہ قوی ہیکل، مگر خوش مزاج چیف پارسل کلرک نہیں بھولتا جسے دیکھ کر ہر ’بلٹی ‘ چھڑانے والا ایک چونی میز کی طرف اچھال دیا کرتا ۔ یوں انگریز کے تربیت یافتہ حاکم بھی خوش، رعایا بھی خوش۔
پاکستان بنتے ہی یوزر فرینڈلی کے تصور نے نیا رُخ اختیار کیا اور سرکاری نوازشات کے پیرائے بدلنے لگے ۔ مثال کے طور پر گِنے چنے محکموں پر پلاٹوں کی بارشیں جیسے سر چھپانے کے لیے مکان انسانی ضرورت نہیں ، محض افسرانہ سہولت ہو۔ کیا خبر یہ طرزِ عمل اپنانے والوں نے کبھی نہ کبھی اِس ترجیحی سلوک کے اخلاقی یا دینی جواز پر بھی غور کیا ہو ۔ مَیں تو ایک ہی بار ایک ٹی وی چینل پر یہ کہنے کا سزاوار ہوا کہ رہائشی مکان اگر ہر شہری کا حق ہے تو اِسے صحافیوں سمیت چند مخصوص پیشوں تک محدود کرنا اِس لیے تو نہیں کہ ہمارے حلق میں سو ر کی ہڈی پھنس جائے۔ اُس شام پریس کلب میں جو کچھ سننا پڑا ، اَس پر سوچا کہ ڈھلتی عمر کے افسر اور اخبار نویس آخر انسان ہیں اِس لیے چُپکے چُپکے اِن کی بشریت کا تقاضا بھی پورا ہو جانا چاہیے۔
چند سال پہلے سول ملازمت کے اعلی ترین گریڈ سے ریٹائر ہونے والے ایک افسر کا شکوہ نہیں بھولتا۔ یہی کہ اُنہیں سرکاری پلاٹ اُس نئے سیکٹر میں مِلا جہاں املاک کی قیمتیں تیزی سے نہیں بڑھتیں۔ اسلام آباد کلب کی دو گھنٹے کی نشست میں یہ جملہ کوئی بیس دفعہ سُننے کو مِلا۔ جب یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب ، کتنے ہی ڈاکٹر ، استاد ،دکاندار ، مزدور اور کسان ایسے ہیں جو کسی جھونپڑے کے مالک بھی نہیں تو جواب ایک ہی تھا:” یار سوچو ، پینتیس سال گورنمنٹ سروس کی ہے۔“ مجھے لگا کہ کسی غیر مقبول سیکٹر میں گھر کی تعمیر ایک ایسا کامپلیکس ہے جسے انتظامی اختیارات سے محرومی ، پیشہ ورانہ اسٹیٹس میں کمی اور عمر کے بوجھ نے شدید تر بنا دیا تھا ۔ بوجھ کا تعلق اِس احساس سے ہوگا کہ منصب ، بنگلہ، دفتر اور سرکاری کار چھن جانے پر اب زندگی پہ گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے ۔
گرفت مضبوط کیسے رکھی جائے؟ اِس نکتے پر ہر کسی کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ آپ کے کالم نگار کو کچھ سمجھ نہیں کہ دفتر سے گاڑی تک جانے ، کمپیوٹر کا پرنٹ آﺅٹ نکالنے ، یہاں تک کہ چائے کافی بنانے کے لیے اپنے معاون اور بسا اوقات معاون کے معاون کو آواز کیوں دی جاتی ہے۔ آغا ناصر نے ، جو پی ٹی وی کے ایم ڈی رہے ، ایک سیکرٹری اطلاعات اور اُن کے پرسنل اسسٹنٹ کا قصہ بیان کیا تھا۔ سرکاری لنچ کے موقعے پر صاحب نے کھانا ڈال کر پی اے سے کہا کہ بھئی ، ذرا گرم گرم پھلکے تو پکڑنا ، پھر پلاﺅ کی پلیٹ سرکانے کی ہدایت کی اور آخر میں یہ کہ تھوڑا سا قہوہ ہو جائے ۔ کھانے سے فارغ ہو کر بولے کہ ذرا واش روم سے ہو آﺅں۔ اِس پر ڈائرکٹر نیوز مصلح الدین کے منہ سے نکلا ”وہاں بھی اِنہی کو بھیج دیں“ ۔
مجھ جیسے ’کمی طبیعت‘ انسانوں پر قدرت مہربان رہتی ہے ، اِس لیے یہ سوچ پیدا ہو گئی کہ زندگی پر گرفت کا سرچشمہ نوکر چاکر نہیں ، آپ کے اپنے رویے ہوتے ہیں۔ عبدالحمید عدم نے کہا تھا کہ ’کہتے ہیں عمرِ رفتہ کبھی لوٹتی نہیں ۔ پانچ سال پہلے عمرِ رفتہ کو قابو میں لانے کا ایک نسخہ میرے ہاتھ آ گیا۔ یہ تھا اپنے بھتیجے حسن ملک کو ہر روز گھر سے بارہ کلو میٹر دُور کالج چھوڑنے کا نسخہ ۔ اِس سے ایک تو علی الصبح اٹھنے کی عادت واپس آ گئی۔ پھر ڈی ایچ اے کے تعلیمی مراکز میں رش کے پاگل پن سے پہلے خالی سڑکیں اور ’وچ مرزا یار پھرے‘ ۔ عمر یوں کم ہو گئی کہ رواں صدی کے آغاز پر اِسی طرح اپنے دو نوں بچوں کو اسکول لانا لے جانا روز کا معمول تھا اور دورانِ سفر میاں محمد بخش کی ’سیف الملوک‘ کا وِرد۔
اب کوئی نہ کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اگر لُٹا ہوا شباب بحال کرنے کا نسخہ ہاتھ لگ ہی گیا تھا تو عمر میں پندرہ کی بجائے پچیس سال کی کمی کیوں نہ کی ، جب آپ کا بیٹا پہلی جماعت میں داخل ہوا تھا ۔ چونکہ بچوں کی تعلیم کا آغاز انگلستان میں ہوا ، لہٰذا اِس پندرہ، پچیس کا جواب وہی ہے جو ایک خاندانی گویے نے ٹھمری اور دادرا کا باہمی فرق بیان کرتے ہوئے دیا تھا ۔ ”دسو ، کِنھوں کِدھے نال ملا دِتا جے ؟ ایہہ مُلک ای ہور ، آب و ہوا ای ہور۔ ٹھمری ٹھمری اے ، دادر دادرا اے۔“ خود میری سمجھ میں ٹھمری اور دادرا کا فرق حسن ملک کا اولین فیس بِل جمع کروا نے سے آیا تھا۔ بیرونِ ملک مَیں اِس تجربے سے نہیں گزرا ۔ ہمارے مقابلے میں انگلینڈ بیک ورڈ ملک سہی مگر وہاں اچھے سرکاری سکولوں میں تعلیم مفت ہے اور نجی ادارے وبائی مرض کی طرح نہیں پھیلے ۔
پچیس سال پیچھے نہ جانے کی ایک وجہ ذرا خفیہ نوعیت کی بھی ہے، یعنی انگلستان کی دوسری جماعت میں میرے بیٹے اسد کا تحریر کردہ اولین مضمون بعنوان ’ میرا دوست ‘۔ ایک روز میرا پیرنٹ ٹیچر میٹنگ پہ جانا ہوا تو کلاس ٹیچر مسٹر او کونر نے یہ ادبی شاہکار نوٹس بورڈ پر آویزاں کر رکھا تھا ۔ آغاز ملاحظہ ہو:
'My friend is my father. He looks like a clown. He makes funny faces to make me laugh. He gives me rides in his car... '
آگے چل کر کبھی کبھی اپنے آفس میں چاکلیٹ کھِلانے اور ایک روز چھ گئیر والی بائیسکل خرید دینے کا ذکر بھی ہے۔ یعنی وہ چھوٹی چھوٹی فیاضیاں جو شاید آج افورڈ نہ کی جا سکیں۔ وقت نے البتہ ذاتی ڈینٹنگ پینٹنگ مناسب حد تک کردی ہے ۔ بدلے ہوئے حالات نے میرا ورلڈ ویو بھی بدل دیا ہے ۔ چنانچہ حسن ملک کی یونیورسٹی میں اپنے شاگردوں کو مَیں تاحال کلاﺅن دکھائی نہیں دیتا ۔