جدید تہذیب اور قدیم اسلامی روایات؟

جدید تہذیب اور قدیم اسلامی روایات؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


معاشرے کو خوشحال اور خوشگوار بنانے کے لیے روزِ ازل سے کئی منصوبے بنائے گئے، باہمی محبت کی فضا پیدا کرنے کے لیے کئی جتن جتائے گئے، ہزار کوششیں کی گئیں کہ انسانیت کو پر کیف زندگی بسر کرنے کو ملے، لیکن تاریخِ عالَم گواہ ہے کہ خوشیوں کے چمن میں بہار نہ آسکی، تہذیب و تمدن کے نام نہاد علمبرداروں کے کھوکھلے نعروں میں صداقت کی کوئی رمق نظر نہ آئی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ مطلب پرستی، دھوکا دہی اور خود فریبی کو خوب فروغ ملا، حضرتِ انسان کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی۔ بالآخرقدرت کا وعدہ، بعثت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنما صورت میں رونما ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فطرتِ انسانی کو خالقِ انسانیت کے اصولوں کے سانچے میں ڈھالا۔ حالات کا رخ ابتری سے ترقی کی طرف موڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا محبت کے جھونکوں سے مہک اٹھی۔ اُنس، بھائی چارگی، اخوّت، رواداری، ہمدردی اور باہمی الفت کے پھول کِھل اٹھے۔آپ کی سنہری تعلیمات نے انسانیت کو بھائی بھائی ہونے کا احساس دلایا اور قابلِ رشک معاشرہ تشکیل دیا اور معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نمایاں کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں عالم گیر اصول ہائے جہاں بانی ارشاد فرمائے وہاں پر نجی زندگی کی گتھیاں بھی سلجھائیں۔ خوشگوار رہن سہن کے حصول کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایک دوسرے کو ملتے وقت مسکراہٹ کا مظاہرہ کرنا چاہیے، تاکہ دوسرے کے دل میں رنجشیں ختم ہوں اور محبت کے جذبات پیدا ہوں، جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کا آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر فرمایا اور خندہ پیشانی سے ملنے کا دنیوی اصول بھی سمجھایا اور اس پر اخروی اجر بھی بتایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم اس نبوی اصول کو نظر انداز کرتے ہوئے بھنویں چڑھا کر، تیور بدل کر ملتے ہیں اور غیر مسلم اقوام اسے اپنا کر خوش اخلاق بنی ہوئی ہیں۔
 خوشگوار معاشرے کے قیام کے لیے آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاشرے میں اچھی باتوں کو عام کیا جائے تاکہ لوگوں کے اخلاق اچھے بنیں اور باہمی محبت کو فروغ ملے، جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں کر دی تھی: یعنی لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرنے سے دنیاوی فوائد بھی ملیں گے اور اخروی ثمرات بھی۔ معاشرے میں ہر مزاج کے انسان مل جل کر رہتے ہیں، بعض کے اخلاق عمدہ ہوتے ہیں تو بعض کے بے ہودہ۔ خوشگوار معاشرے کے لیے آج کی دنیا اس بات پر متفق ہے کہ اچھی باتیں سکھانے کے ساتھ ساتھ بری باتوں سے روکنا بھی ضروری ہے ورنہ معاشرتی جرائم کی شرح میں اضافہ ہوگا جس سے دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں کر دی تھی: یعنی برائی سے روکنا دنیا سے معاشرتی جرائم کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور اخروی انعامات کے حصول کا وسیلہ بھی ہے۔ آج کی دنیا کے اداروں میں جائیں تو پہلے پہل استقبالیہ والے خیر مقدم کریں گے اور آپ کی رہنمائی کریں گے،کوئی قافلہ کہیں جائے تو اس کو گائیڈ کرنے والے افراد مہیا ہوں گے، جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں کی تھی: یعنی بھولے بھٹکے شخص کو راستہ دکھانا.... اس سے جہاں مثالی معاشرہ قائم ہوتا ہے وہاں پر اخروی ثواب بھی ملتا ہے۔ آج کی دنیا میں متمدن قومیں وہ کہلاتی ہیںجو دوسروں کا خیال رکھیں۔ بصارت سے محروم نابینا افراد کو اگر کوئی سڑک پار کرادے یا اس کو منزلِ مقصود تک پہنچا دے تو ایسے لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں کر دی تھی: یعنی حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے سے جہاں معاشرتی اخلاقی فریضہ ادا ہوتا ہے وہاں پر خدا کی خوشنودی کی بدولت آخرت میں اجر بھی ملتا ہے۔
آج کی دنیا شاہراہوں، گلی کوچوں، چوک چوراہوں، محلوں اور شہروں کو صاف ستھرا رکھتی ہے اور اسے اپنی تہذیب گردانتی ہے ،جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کا ذکر آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں کر دیا تھا: یعنی راستوں کو صاف ستھرا رکھنا جہاں سکون و راحت کا باعث ہے وہاں پر اللہ کی طرف سے انعام کا بھی باعث ہے۔ آج کی دنیا انسانیت کی خدمت کے لیے سماجی اور رفاہی کاموں پر زور دیتی ہے،اور جذبہ¿ ایثار و ہمدردی کو اجاگر کرنے کی تعلیم دیتی ہے ،جبکہ اہلِ اسلام کے لیے اس بات کی نشان دہی آج سے چودہ صدیاں قبل ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان الفاظ میں کر دی تھی: یعنی اپنی ضروریات پر اپنے بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دینا جہاں باہمی محبت کا باعث ہے وہاں پر خدائی محبت کا حقدار بھی بناتی ہے۔ مشکوٰةالمصابیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی بے وقعت نہ سمجھو۔ 
مذکورہ بالا باتیں بظاہر دیکھنے میں بہت ہلکی سی معلوم ہوتی ہیں لیکن روزِ محشر ان کا وزن ہمارے نیکیوں والے پلڑے کو جھکا دے گا۔ باقی رہا صدقہ!اس بارے میں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ صدقہ اپنے مال سے کرنا فرض و واجب ہوتا ہے جیسے زکوٰة، عشر، فطرانہ قربانی اور کبھی مستحب جیسے نفلی صدقہ۔ مال کے صدقے کے علاوہ بھی اللہ کے پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالا امور کو صدقہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ حدیث پاک میں صدقے کے دو بنیادی فوائد ذکر کیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو ناگہانی اور حادثاتی موت سے محفوظ رکھتا ہے۔
٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -