ریاست پاکستان کی بدولت کامیاب ہانے کی دلیل!

ریاست پاکستان کی بدولت کامیاب ہانے کی دلیل!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے باعث پیدا ہونے والے معاشی بحران نے ملک میں مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ آئے روز افراطِ زر میں ہونے والی کمی کے باعث مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف مافیا کی ملی بھگت سے ہونے والی خودساختہ مہنگائی کے سبب ہر گلی، محلے اور بازار میں دکاندار گاہکوں سے من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ایک ہی محلے میں مختلف دکاندار ایک ہی چیز کی الگ الگ قیمتیں وصول کر رہے ہیں، جس کے باعث عام آدمی کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل دستیاب ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے عوام کے ان مسائل کا ادراک کرتے ہوئے، پاکستان میں معیشت کی بحالی اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے ایک قومی منصوبہ تشکیل دیا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لئے وزیراعظم،آرمی چیف اور چاروں وزرائے اعلیٰ کے درمیان مل کر کام کرنے پر اتفاق بھی ہو گیا ہے جس کی روشنی میں سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل قائم کی گئی ہے جو ملک میں مہنگائی کے بتدریج خاتمے سمیت ملک میں معیشت کی بہتری کے لئے اپنی بھرپور صلاحیتیں استعمال کرے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدارت کونسل کے پہلے اجلاس میں آرمی چیف، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراءاور اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ کونسل کے اعلامیے کے مطابق اس کا مقصد قومی حکمت ِعملی طے کرنا ہے تاکہ ملک کو درپیش موجودہ معاشی مسائل سے خوش اسلوبی سے نجات دلائی جائے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ بھی ہموار ہو۔ اس منصوبے کے تحت زراعت ، بائیو سٹاک ، معدنیات ، کان کنی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستان کی حقیقی صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔اِن شعبوں کے ذریعے مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔منصوبے کے تحت ایک حکومت اور ایک اجتماعی حکومت کے تصور کو فروغ دیا جائے گا تاکہ سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔اس منصوبے کو کسی حکومت نہیں بلکہ ریاست کا منصوبہ قرار دیا گیا ہے تاکہ پالیسی کا تسلسل حکومت بدل جانے کے بعد بھی جاری رہے۔کونسل سرمایہ کاروں کی مدد کے لئے ون ونڈو کی سہولت فراہم کرے گی۔ منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اشتراکِ عمل پیدا کیا جائے گا۔طویل اور وقت کے ضیاع کا باعث بننے والے دفتری طریقہ کار اور ضابطوں میں کمی لائی جائے گی جبکہ سرمایہ کاری اور منصوبوں کے لئے بروقت فیصلہ سازی بھی یقینی بنائی جائے گی۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی معیشت کی بحالی کے لئے حکومتی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور اِسے پاکستان کی سماجی اور معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم میں جائز مقام حاصل کرنے کی بنیاد سمجھتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ حکومت کو ورثے میں تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت ملی جسے دلیرانہ فیصلوں کے ذریعے بحران سے نکال کر تعمیر و ترقی کی طرف واپس لایا جا رہا ہے، لیکن ابھی بھی اتحادی حکومت کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، مشترکہ کاوش سے ہی ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ”پلان بی“ پر بھی غور کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات میں ملکی صورتِ حال اور معاشی اعداد پر بھی تبادلہ خیال کیا۔اجلاس میں ملک کی مجموعی معاشی صورتِ حال، قرضوں کی ادائیگی، عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ پاکستان کے معاملات اور آئی ایم ایف کے حالیہ مطالبات پر بھی گفتگو کی گئی۔ شرکاءنے اِس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات تسلیم کیے جانے کے باوجود مالیاتی ادارے کی طرف سے سٹاف لیول پر معاہدے سے گریز کیا جا رہا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اِس حوالے سے جلد قوم کو اعتماد میں لیں گے جبکہ دوست ممالک کے ساتھ بھی فوری بات چیت کی جائے گی تاکہ30جون تک کی ادائیگیوں میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ دریں اثناءچین کے ساتھ 1200میگاواٹ کے چشمہ فائیو جوہری بجلی گھر کی تعمیر کی مفاہمتی یاد داشت کی تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے لگ بھگ ساڑھے تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری مثبت قدم ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے انکار کے بعد چین نے ہی پاکستان کی مدد کی۔
پاکستان اِس وقت بری طرح معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ اِن مشکل حالات میں پاکستان نے اگلے دو ہفتوں میں اہم ملکی و غیر ملکی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف ہے جو تمام شرائط پوری کر دیئے جانے کے باوجود سٹاف لیول پر معاہدہ کرنے سے انکاری ہے جبکہ دوسری جانب سیاسی عدم استحکام ہے جو قابو میں نہیں آ رہا۔ صوبوں میں باہمی تعاون تو ہے تاہم اِسے آئیڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ڈالر کی بلند پرواز نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اِن مشکل معاشی حالات میں تمام خطرات اور چیلنجوں کو مد َ ِنظر رکھتے ہوئے کچھ فیصلے ” آو¿ٹ آف دی باکس“ کیے جانے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کا قیام اِس حوالے سے تاریخی فیصلہ ہے ۔اگر اِس منصوبے پر صدقِ دِل سے اس کی روح کے مطابق عمل کیا گیا تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے معاشی مسائل پر قابو نہ پا سکے۔اقتصادی بحالی کا یہ منصوبہ موجودہ حالات میں ملک کے لئے ”گیم چینجر“ ثابت ہو سکتا ہے۔ماہرین کے مطابق اِس معاشی منصوبے پر عمل کر کے اگلے چند برسوں میں اربوں ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری پاکستان لائی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف گرتی معیشت کو سنبھالا جا سکتا ہے بلکہ مہنگائی اور بے روز گاری جیسے مسائل حل کرنے میں بھی آسانی پیدا ہونے کا امکان ہے۔ دنیا کے تمام کامیاب ممالک میں ”ایک حکومت اور اجتماعی حکومت“کے تصور ہی نے سرمایہ کاروں کو اپنی جانب کھینچا اور اِن ممالک کی قسمت دیکھتے ہی دیکھتے بدل گئی۔ چین کی معیشت کو اِس کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ماضی میں یہاں آنے والے سرمایہ کاروں کو کس طرح بیورو کریسی نے دفتری ضابطوں میں ا±لجھا کر مایوس لوٹ جانے پر مجبور کیا۔ خبروں کے مطابق اِس منصوبے پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو 2035ءتک پاکستان اربوں نہیں بلکہ کھربوں ڈالر کی مضبوط معیشت بن سکتا ہے۔ معاشی بحالی منصوبے کی ذمہ داری فوج نے اٹھاتے ہوئے اس کی ”اونر شپ“ لی ہے جو کوآرڈینیشن اور مینجمنٹ پر بھرپور توجہ دے گی۔ یہ منصوبہ کامیاب ہونے کی صورت میں آئندہ پانچ برسوں میں 15 سے 20 لاکھ براہِ راست نوکریاں اور75 لاکھ سے ایک کروڑ اِن ڈائریکٹ ملازمتوں کے مواقع میسر آ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اِس منصوبے کے تحت براہ ِراست بیرونی سرمایہ کاری (فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ) میں 100ارب ڈالر کا اضافہ متوقع ہے جبکہ ملکی برآمدات کو بھی 100ارب ڈالر تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔جیو پولیٹیکل صورتِ حال، سیاسی کھینچا تانی اور کچھ ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کے غیر ضروری بیانات نے ملک کی معاشی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچایا؛ تاہم اِس بات کی داد دی جانی چاہئے کہ تمام تر نامساعد حالات اور آئے روز کے پراپیگنڈے کے باوجود پاکستان نے ڈیفالٹ نہیں کیا۔بہرحال دیر آید، درست آید، کے مصداق اربابِ اختیار نے آخر درست سمت میں قدم اٹھا ہی لیا ہے۔ ہمیں اپنے وسائل اور صلاحیتوں پر یقین رکھنا چاہئے، آخر کبھی تو بیساکھیوں کے بغیر چلنا سیکھنا ہی ہو گا تو پھر اس کی شروعات آج سے ہی کرنی چاہئے۔اِس منصوبے کو پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اہتمام کرنا چاہئے تاکہ معاشی مالی اور خود انحصاری ممکن ہو سکے۔
اقتصادی بحالی کا یہ منصوبہ پاکستان کے لئے اس حوالے سے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں افواجِ پاکستان کا کردار بنیادی نوعیت کا ہے۔ ویسے بھی پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر ایک صفحے پر ہوں تاکہ تسلسل کے ساتھ بلارکاوٹ ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں ، تبھی یہ منصوبہ 2035ءتک ملک کو تخمینے کے مطابق 10کھرب ڈالر نہیں بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑی معیشت بنا سکتا ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی کی دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ منصوبہ حکومت کا نہیں بلکہ ریاست ِپاکستان کا منصوبہ ہے جس کا تسلسل حکومتیں تبدیل ہونے پر بھی جاری رہے گا۔ یعنی آنے والی کوئی بھی حکومت اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکے گی ، سادھے الفاظ میں اسے
 " میثاق معیشت" کہا جا سکتا ہے ، جس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔اندریں حالات یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ معاشی بحالی کا یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہو کر ملک کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ ، اقوام ِعالم میں نمایاں مقام بھی دلائے گا۔
      ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -