پہاڑوں کی شمالی ڈھلانیں شاہ بلوط کے سرسبز درختوں سے اٹی پڑی تھیں!

پہاڑوں کی شمالی ڈھلانیں شاہ بلوط کے سرسبز درختوں سے اٹی پڑی تھیں!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وادی¿ بوم
جلد بازی اور الل ٹپ کام کرنا میرے لیے گویا اجنبی لفظ ہیں۔ اَن جانے خطرات مجھے بے آرام کر جاتے ہیں۔ احتیاط اور غور و فکر کے ساتھ کسی کام کی منصوبہ بندی کرکے مجھے نہایت مسرت حاصل ہوتی ہے۔ اسی احتیاط بینی لیکن سست روی کی بدولت بعض اوقات کئی ایسے سنہرے مواقع میرے ہاتھ سے نکل گئے کہ میں جن سے بروقت فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کے برعکس میرے تمام کام اور مہم جوئیاں ایک حد تک نپی تلی کامیابی کی صورت میں ظاہر ہوتی رہیں۔ یوں میری ناکامیاں بہت کم ہوئیں اور وہ بھی ایسی نوع کی تھیں جن کا جلد ازالہ ہوسکتا تھا۔
اس محتاط تیاری سے مراد کوئی ایسا منصوبہ ہرگز نہیں کہ جس کی ایک ایک تفصیل اور تمام تر جزئیات نہایت تفکر اور تدبر کے بعد تیار کی گئی ہوں۔ اس قسم کا پلان کامیابی سے کبھی ہم کنار نہیں ہوتا۔ مجھے جو چیز پسند ہے وہ یہ ہے کہ میں کسی بھی پلان کی بجا آوری سے قبل میدانوں، پہاڑوں اور وادیوں میں خود موقع پر جاﺅں، تمام جغرافیائی نقوش کا مشاہدہ کروں، ریت، چٹان اور کیچڑ تک کو بچشم خود دیکھوں، مقامی لوگوں کی گپ شپ کی سُن گُن لوں، دشمن کے بارے میں معلومات حاصل کروں کہ اس کے مشاغل کیا کیا ہیں، میرے دوست کون کون ہیں اور میری کس حد تک مدد کرسکتے ہیں اور کون کون سے ایسے تحائف ہوں گے جو ان کے لیے وجہ ¿ مسرت بن سکیں گے وغیرہ وغیرہ.... اس کے بعد جب میں اپنے آدمیوں میں واپس آﺅں اور ہم اس منصوبے پر عمل پیرا ہوں تو پھر حالات اور واقعات کو ان کے اپنے رحم و کرم پر چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے۔ اگر حالات کی ایک عمومی تصویر میرے ذہن میں محفوظ ہو، اگر اپنے مقصد کا واضح منظر میرے پیش نگاہ رہے، اگر مجھے یہ علم ہو کہ اس پہاڑی کے پار کون اور کیا ہے اور اس کے مزید بعد کیا ہے تو پھر مجھے کسی بھی تشویش کی کوئی ضرورت نہیں.... روبہ عمل آنے والا منصوبہ اپنی دیکھ بھال خود کر لیا کرتا ہے۔اس بات کو مد نظر رکھ کر جب میں اپنے آدمیوں کو جغبوب (Jaghbub) کے نخلستان تک لے آیا تو انہیں جبل ا خضر میں چھوڑ کر خود، صرف سعد علی رحوما، ایک عرب سپاہی حامد، سیگریٹوں، چائے، چینی اور سفید کالیکو (Calico) کو وافر مقدار میں ساتھ لے کر ایک ریکی مشن پر روانہ ہوگیا۔
ان ایام میں جس کسی کو بھی دشمن کے مقبوضہ علاقے (سارنییکا) میں جانا ہوتا تھا وہ لانگ رینج ڈیزرٹ گروپ کی بس سروس سے استفادہ کیا کرتا اور اس طرح چور راستوں سے دشمن کے علاقے میں پہنچ جاتا تھا۔ جبل اخضر کے سرسبزو شاداب کوہستانی سلسلے درنا سے لے کر بن غازی تک ایک سو ستر (170) میل کے علاقے میں بحیرئہ روم کے ساحل کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ پہاڑ سمندر سے دفعتاً عمودی چٹانوں کی صورت میں بلند ہوتے ہیں اور تین ہزار فٹ کی بلندی تک ابھرتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کی بلندی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے اور کوئی پچاس میل جنوب میں یہ سلسلے صحرا کی وسعتوں میں جا کر گم ہو جاتے ہیں۔ ان پہاڑوں کی شمالی ڈھلانیں شاہ بلوط کے لہلہلاتے اور سرسبز درختوں سے اٹی پڑی ہیں۔ یہاں خاصی بارشیں ہوتی ہیں (اور ایک دفعہ جنوری کی ایک صبح میں نے برف کی ایک باریک سی تہہ بھی انہی سلسلوں میں دیکھی تھی) اطالوی آباد کاروں کے لیے جہاں جہاں درخت کاٹ کر زرعی زمینوں کے لیے جگہ بنائی گئی ہے، وہاں شاہ بلوط کے کم گھنے جھنڈ اُگے ہوئے ہیں۔ جوں جوں شمال سے جنوب کی طرف بڑھیں تو یہ درخت کم ہوتے جاتے ہیں۔ پھر یہ جھاڑیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور آخر کار خشک وادیوں میں جھاڑ جھنکار کی صورت میں ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مزید جنوب کی طرف آئیں تو ریتلے میدان اور نوکیلی چٹانیں نظر آتی ہیں۔ اس علاقے میں موسم بہار میں جنگلی پھولوں کی خوشبو سے سارا ماحول معطر ہو جاتا ہے۔ یہ صحرا جس میں کوئی آبادی نہیں آٹھ سو میل تک مزید جنوب میں پھیلتا چلا گیا ہے اور آخر میں تبستی (Tibesti) کی بلند پہاڑیوں سے جا ملتا ہے جہاں قدیم قبائل کے چند چرواہے اپنے ریوڑوں کو چراتے نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد مزید آٹھ سو میل کا بنجر ریگستانی علاقہ ہے جو فرانسیسی استوائی افریقہ میں جھیل چاڈ (Chad Lake)تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے بعد ساحل سمندر سے پانچ سو میل کی دوری پر کفرہ (Kufra)کا چھوٹا سا نخلستان ہے جو ایک نشیبی علاقے میں واقع ہے اور جہاں استوائی بارانی پٹی سے ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے میٹھا پانی چشموں کی صورت میں باہر اُبل پڑتا ہے اور جس سے کھجور کے نخلستان اور کنگنی کے باغات سیراب ہوتے ہیں۔
درنا اوربن غازی کے ساحلی شہروں میں پتھر کے بنے ہوئے گھروں میں عرب آباد ہیں۔ ساحل سے دور اندرونی علاقوں میں المرج (El Merj) کے زرخیز اور پیالہ نما میدان میں بھی آبادیاں ہیں۔ اطالوی اس علاقے کو بارص (Barce) کا نام دیتے ہیں۔ جبل کا باقی ماندہ حصہ اور جنوب کی پہاڑیاں عرب بدوﺅں کی رہائش گاہیں ہیں۔ یہ لوگ حقیقی معنوں میں خانہ بدوش ہیں۔ یہ ایک کنویں سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک منتقل ہوتے اور اپنے ریوڑ چراتے رہتے ہیں۔ جالو (Jalo) اور کفرہ کے معروف تجارتی راستوں کے علاوہ یہ خانہ بدوش کبھی بھی جنوب میں ان علاقوں میں نہیں جاتے کہ جہاں پانی نہ ہو اور مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کے لئے چراگاہیں نہ ہوں۔صحرا کی یہی بے آب و گیاہ وسعتیں تھیں جو لانگ رینج ڈیزرٹ گروپ کے سفروں میں استعمال میں لائی جاتی تھیں۔ اس گروپ کا پورا نام لکھنا خاصا لمبا ہو جاتا اس لیے میں نے اگلے صفحات میں اس کا صرف مختصر نام استعمال کیا ہے۔ یعنی ایل آر ڈی جی (LRDG)۔ کیونکہ اس کا ذکر بار بار میری داستان میں آئے گا۔
ایل آر ڈی جی نے صحرائی سفر کی بہت ساری مشکلوں کا حل تلاش کیا اور پھر مصر سے تریپولی تک بارہ سو میل لمبے علاقے میں نہایت باقاعدگی کے ساتھ موٹر سوار گشتی دستوں کو جاری رکھا۔ دشمن کے ساتھ جھڑپوں کے علاوہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس گروپ نے کبھی اپنی منزل مقصود گم کی ہو یا اس کا کوئی ٹرک ضائع ہوا ہو۔ یہ لوگ آزاد منش، حال مست، باصلاحیت اور محنتی اشخاص کا ایک گروہ تھا۔ سب کی داڑھیاں تھیں اور یہ میرے بہترین دوستوں اور رفیقوں میں سے تھے۔ یہ لوگ سلطنتِ برطانیہ کی مختلف نو آبادیوں سے لیے گئے تھے۔ نیوزی لینڈ سے لے کر رہوڈیشیا تک اور خود اہل برطانیہ سے گارڈ رجمنٹ تک کے لوگ اس میں شامل تھے۔ نیوزی لینڈ کے باشندے جو اپنی سول زندگی میں کھیتی باڑی کرتے تھے جلد ہی اس دشت پیمائی کے عادی ہوگئے۔ ابتدائے کار ہی سے ان لوگوں نے اعتماد و یقین کا ایک ایسا معیار قائم کیا جسے بعد میں دوسرے لوگوں نے بھی اختیار کر لیا۔
کرنل باگنولڈ (Bagnold) طبعاً ایک شرمیلا اور دانشور قسم کا شخص تھا۔ اس نے جنگ کے بالکل ابتدائی ایام میں ایل آر ڈی جی کو تشکیل دیا۔ اس کے ساتھ چند لوگ اور بھی تھے مثلاً پرینڈرگاسٹ (Prendergast)، شا (Shaw) اور کلیٹن (Clayton) وغیرہ۔ یہ لوگ جنگ سے پہلے باگنولڈ کے ہمراہ صحرائی سفروں میں اس کے دیرینہ رفیق تھے۔ اس نے شمسی قطب نما ایجاد کیا اور ستاروں کی مدد سے راستہ تلاش کرنے کے فن کو ترقی دی جس سے صحرائی سفر آسان ہوگئے۔ اپنے ٹرکوں کے لیے اس نے پہیوں کی بجائے فولادی چین (Chain)بھی ایجاد کئے، جن کی مدد سے یہ ٹرک صحرا کی تمام رکاوٹوں سے بآسانی گزر جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک اور ایجاد ایک ایسا کنڈنسر تھا جس سے ان ٹرکوں کے انجن نسبتاً زیادہ فاصلہ طے کرسکتے تھے۔
اس کا دوسرا بڑا کارنامہ اس کی عسکری خدمات تھیں جو اس نے اس ایل آر ڈی جی (LRDG) کے توسط سے انجام دیں۔ یہ اس کی قیادت ہی کا اعجاز تھا کہ اس نے گارڈز (برطانوی فوج کے وہ سپاہی جو اپنی عجیب و غریب حرکات و سکنات لیکن شاندار فوجی روایات کے سبب عسکری بانکے کہلانے کے حق دار تھے) میں بھی نظم و ضبط کی ایک انمٹ روح پھونک دی۔ ایل آر ڈی جی کے گشتی دستے پانچ پانچ 30 ہزار ہنڈرڈ ویٹ ٹرکوں پر مشتمل ہوتے تھے جن میں پانچ پانچ آدمی سوار ہوتے تھے۔ مصر سے باقاعدہ جنوبی صحرا میں چلتے ہوئے (کہ جہاں بلاشرکت غیرے ان کا تسلط تھا) ایک ہزار میل کا فاصلہ طے کرکے دشمن کے مقبوضہ ساحلی علاقوں میں جانمودار ہوتے۔ تریپولی سے جھیل چاڈ تک کے علاقے میں ان کے مشنوں (Missions) کی نوعیت مختلف ہوتی تھی۔ ان میں زیادہ تر ریکی (Recce) اور سروے کے مشن ہوتے تھے۔ اس کی دشت نوردیوں کا یہ تسلسل بعض اوقات دشمن کی کارروائیوں کی بدولت ٹوٹ بھی جاتا۔ لیکن ان کے سازوسامان اور ان کے ارباب کار کی صلاحیت و اہلیت کا عالم یہ تھا کہ کبھی بھی نہ تو کوئی جغرافیائی رکاوٹ اور نہ کوئی مشینی نقص ان کی راہ میں حائل ہوا۔ ہر قافلے کے ہمراہ ایک وائرلیس سیٹ ہوتا تھا جس کا رابطہ ہیڈ کوارٹر کے ساتھ قائم رہتا۔ 
25 اپریل 1942ءکی شام کو ہم لوگ سیوا (Siwa) سے کیپٹن ہنٹر (Hunter) کے قافلے کے ہمراہ روانہ ہو کر پانچ دن کی مسافت کے بعد جبل اخضر کی چوٹیوں کو دیکھ رہے تھے۔ افق پر یہ بھورے رنگ کے پہاڑی سلسلے کتنے بھلے معلوم ہو رہے تھے!.... اگلی صبح ہم ایک معمولی سی چڑھائی کے بعد ایک ایسے میدانی علاقے میں اترے جو پھولوں اور جنگلی جھاڑیوں سے مزین تھا۔ یہ جگہ یعنی حقفت جلجاف (Haqfat Juljaf) کے نواح میں وادی¿ غلطا (Ghelta)میں تھی۔ اس جگہ بکریاں، بھیڑیں اور کچھ اونٹ ان خوشبو دار جھاڑیوں کو کھائے جا رہے تھے۔ سیوا (Siwa) سے روانگی کے بعد تین سو اسی (380) میل کی مسافت کے اختتام پر یہ پہلی آبادی تھی جو ہمیں نظر پڑی۔ یہاں پہنچ کر ایک وادی کے کنارے خیموں کا ایک گاﺅں دکھائی دیا۔ ہم نے یہاں گاڑیاں روک لیں اور میں نے سعد علی رحوما کو ان عربوں سے بات چیت کے لیے بھیجا۔
ایک گھنٹے کے بعد سعد علی تقریباً نصف درجن عربوں کو ساتھ لے آیا۔ ہم لوگ ایک گھنے جنگلی کیکر کے سائے تلے بیٹھ گئے۔ سعد علی نے مجھے ایک طرف لے جا کر سمجھا دیا تھا کہ یہ لوگ کوئی خاص اہمیت کے حامل نہیں اس لیے ان پر زیادہ وقت اور تحائف صرف نہ کیے جائیں۔ سعد علی کا اپنا سراپا بھی مضحکہ خیز تھا۔ اس پر جو کی (گھڑ سوار) ہونے کا گمان گزرتا تھا۔ اس نے برطانوی افسروں کی سی ایک میلی کچیلی اور غیر استری شدہ جیکٹ زیب تن کر رکھی تھی جس پر ملٹری کراس کا میلا کچیلا سفید و سرخ رنگ کا ربن لگا ہوا تھا۔ فوجی ٹوپی (Cap Comforter) کے اندر سے اس کا گندمی چہرہ خوب جھلکتا تھا۔ اس کی آنکھوں سے ذہانت اور ذکاوت ٹپکتی تھی۔ اس کے چہرے پر ہر وقت ایک شریر سی مسکراہٹ کھیلتی رہتی جس کی وجہ سے یہ چہرہ جھریوں سے بھر گیا تھا۔ وہ بلا کا حاضر جواب اور حاضر دماغ تھا۔ جب بھی گفتگو میں اس کا پلہ بھاری ہوتا تو اس کی باچھیں کھل جاتیں اور ایک معصوم بچے کی مانند رخسار تمتما اٹھتے۔ اس کے کئی روپ تھے اور ہر روپ جاذب نظر تھا۔ خود میں نے بھی اس سے ایک عادت سیکھی تھی ۔وہ یہ کہ جب بھی میں کسی نفرت انگیز شرارتی حیرت کا اظہار کرتا تو میرے چہرے پر بھی ایک عجیب تاثر پھیل جاتا۔
ہمارے مہمان، ایک گمنام سے قبیلے سے تعلق رکھنے والے چرواہے تھے۔ ان کی وضع قطع سے معلوم ہوتا تھا کہ ان کے آباﺅ اجداد ،زمانہ ¿ خوش حالی میں ترکوں کی سی جیکٹ اور پتلون پہنتے ہوں گے۔ لیکن آج جنگ کو شروع ہوئے دو سال ہوگئے تھے اور وہ اس عرصے میں اپنے اس گاﺅں میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ان لوگوں کے لباس کٹے پھٹے اور میلے کچیلے تھے جن پر مرورِزمانہ سے تین قوموں کی افواج کی وردیوں کا امتزاج ملتا تھا۔ یہ تین قومیں ان کے علاقے میں یکے بعد دیگرے آتی جاتی رہی تھیں۔ ان کے اپنے لباس کا بھرم صرف جرد (Jerd) سے قائم تھا۔ جرد ایک ایسا لباس ہے جو ایک مستطیل کپڑے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی چودہ (14) فٹ اور عرض چار (4) فٹ ہوتا ہے اور جسے سارنییکا کا ہر عرب باشندہ پہنتا اور اپنے جسم کے گرد ٹوگا کی طرح لپیٹ لیتا ہے۔ سعد علی نے ایک مرتبہ کہا تھا: ”اطالویوں نے ایک بار ہمیں ایک فلم دکھائی تھی جس میں اہلِ روم کا جاہ و جلال دکھایا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں اس جاہ و جلال کے امین اطالوی نہیں، ہم عرب ہیں کیونکہ ہم آج بھی انہی کی طرح کا لباس پہنتے ہیں۔“ .... سعد ٹھیک کہتا تھا۔ جرد اورٹوگا (Toga) میں کوئی فرق نہیں تھا۔
میں نے اپنے مہمانو ں کو سگریٹ پیش کیے۔ اس پر ان تمام حضرات کے چہرے دمک اٹھے ۔ لیکن سعد علی سگریٹ کے بارے میں بلانوش تھا اور ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ اتنی اچھی برانڈ کا یہ ذخیرہ اس طرح ختم ہوتا رہے۔ اس نے حاضرین کو مخاطب ہو کر آواز اٹھائی اور گویا ہوا: ”عالی جناب میجر صاحب، قابلِ احترام دوستو اور بھائیو! یہ ہمارے تمام مہمان براسی (Baraci) قبیلے کے معزز اور محترم شیوخ ہیں۔ یہ خالص عرب ہیں اور بڑے اچھے سنوسی ہیں اور تمباکو نوشی نہیں کرتے ۔وہ اتنے غیر مہذب اور اخلاق سے بے بہرہ نہیں کہ اپنے میزبان کے عطا کردہ تحائف کو قبول نہ کریں۔ لیکن میری گزارش ہے کہ میجر صاحب اس بات پر اصرار نہ کریں کہ وہ ان مضر صحت سگریٹوں کو سلگائیں بھی۔ ہر قوم اور ہر ملک کے اپنے اپنے رسوم و رواج ہوتے ہیں اور جو چیز انگریزوں کے لیے قابل فخر و مباہات ہو، ضروری نہیں کہ سنوسی بھی اسے اسی نظر سے دیکھیں“.... اس تقریر کے بعد تمام لوگوں کے چہرے ڈھلک گئے انہوں نے بڑے شاہانہ کروّفر کے ساتھ ایک ایک کرکے تمام سگریٹ سعد کے حوالے کر دیئے۔ سعد نے ان کو اکٹھا کیا اور اس مالِ غنیمت پر پھولا نہ سمایا.... اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا اور اپنی مخصوص شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیر دی۔
حامد ہمارا ملازم تھا اور ہمارے ساتھ تھا۔ وہ ایک ایلومینیئم کی چھوٹی سی کیتلی اٹھا لایا۔ اس کا چوتھائی حصہ چائے کی پتی سے بھر دیا ،پھر چائے دانی میں پانی ڈال کر سوکھی شاخوں کو ماچس دکھا کر یہ کیتلی ان پر رکھ دی۔ پھر ایک ٹرے میں چھوٹے چھوٹے پیالے قطار اندر قطار رکھ کر لے آیا۔ جب پانی اُبل گیا تو اس سے ان پیالوں کو باری باری بڑی پھرتی اور مشاقی سے ہاتھ کی ایک ہی حرکت سے بھرتا گیا۔ پھر پیالوں کی تمام چائے کو واپس کیتلی میں انڈیلا اور اسے انگاروں پر رکھ دیا۔ یہ عمل اس نے دوبار دہرایا ۔تیسری بار ایک پیالے میں تھوڑی سی چائے ڈالی، اسے چکھا اور پھر آگ پر ٹکا دیا۔ آخر کار اس محلول کو پیش کرنا شروع کیا۔ حسبِ مراتب ایک ایک پیالے میں چائے انڈیل کر دی جانے لگی۔ پہلے مہمانوں کو، پھر مجھے، پھر سعد کو، پھر حامد اور بعد میں اونٹوں کے نوکر کو۔ ہم اونچی اونچی آواز سے چسکیاں لے کر پینے لگے تو باقی پتی پر کچھ چینی ڈال کر اور پانی سے بھر کر حامد نے کیتلی دوبارہ آگ پر رکھ دی۔ دوسرا دور بھی پہلے کی طرح پورا کیا اور تیسری بار پھر چینی اور پانی ڈال کر اسی طرح کا عمل کیا۔ فرق یہ تھا کہ اب کی بار پودینے کی ٹکیاں بھی اس میں ڈال کر اُبال دی تھیں۔ جب تین دور مکمل ہوگئے تو گویا ہماری میزبانی پوری ہوگئی۔ ہم سنبھل کر بیٹھ گئے اور موضوع مطلوبہ پر بات چیت شروع کر دی۔
چائے نوشی اب میرے لیے صرف مہمان نوازی کی ایک رسم نہیں رہی تھی بلکہ یہ گرم گرم، شیریں اور کچھ نیم تلخ سا مشروب مجھے اس قدر لذیذ لگا کہ جب تک ہمارے پاس خشک راشن ہوتا ، میں دن میں دو تین بار اس چائے نوشی کا لطف اٹھاتا تھا۔ رات کو جب گھوڑے کی پشت پر تمام دن کی سواری کے بعد میں واپس آتا اور بھوک لگی ہوتی تو اس مشروب کو نوش جان کرنے کے بعد تمام تھکن دور ہو جاتی اور دماغ روشن ہو جاتا۔ میرے تقریباً تمام برطانوی دوست جو میرے ساتھ ان سفروں پر جاتے، اس چائے کے اس قدر عادی ہوگئے کہ تمباکو نوشی سے بھی زیادہ اس کی طلب کرتے اور حظ اٹھاتے۔ میں اس مشروب کے ذائقے کی تفصیل بتانے کی کوشش نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ مروجہ انگریزی طریقہ¿ چائے سازی اور چائے نوشی اور اس عرب طریقہ¿ چائے سازی اور چائے نوشی میں کوئی بھی چیز مشترک نہیں۔
ہماری اس پہلی ٹی پارٹی کے بعد حامد پیالوں کو دھونے میں لگ گیا اور دھوتے دھوتے پانچ پیالے پتھروں پر گرا کر توڑ دیئے۔ حامد کی اس بیوقوفی نے سعد علی کو ہمیشہ کے لیے اپنا مخالف بنالیا۔ وہ کہنے لگا: ”حامد کوئی اچھا آدمی نہیں۔ اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بے وقوف بھی ہے اور اچھا سپاہی بھی ہرگز نہیں۔ یہ ایک دن ہمارے لیے مشکلات پیدا کرے گا۔“.... سعد کی یہ رائے بعد میں بالکل درست ثابت ہوئی۔
ہمیں اپنے ان مہمانوں سے ماسوائے اس خبر کے اور کچھ حاصل نہ ہوا کہ اس سال اس طرف دشمن کا کوئی بھی گشتی دستہ (پٹرول) نہیں آیا تھا۔ اس خبر میں ہمارے لیے کوئی حیرت کا عنصر نہیں تھا۔ دشمن کے اس جگہ آنے کا کوئی بھی تو محل نہیں تھا! 26اپریل کی اس شام ایل آر ڈی جی کے ٹرک ہمیں اس مقام تک لے گئے جو ان کی آخری حد تھی۔ ان لوگوں نے مجھے ، سعد علی رحوما، حامد اور ایک برطانوی افسر جس کا نام شیولیئر (Chavelier) تھا، کو وادی¿ شغران (Sheghran) کی پتھریلی چٹانوں پر اتار کر خدا حافظ کہا اور رخصت ہوگئے۔ (جاری ہے)

مزید :

ایڈیشن 1 -