بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو (مشتاق احمد یوسفی کی مزاح سے بھرپور تحریر )

قسط :1
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابل رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔ اب سگرٹ ہی کو لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگرٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگرٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔ مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگرٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہوکر سگرٹ شروع کردی اور اس کے عادی ہوگئے تو انہوں نے چھوڑ دی۔ کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر میں سگرٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا، وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگرٹ نوشی سے ہوئے تھے۔
ہمیں غور و فکر کی لت لگانے کے بعد انہوں نے آنا جانا موقوف کر دیا جو اس بات کی علامت تھی کہ وہ واقعی تائب ہوگئے ہیں اور کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے، بالخصوص سگرٹ پینے والوں سے۔ (انہی کا قول ہے کہ بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔۔۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔) میں گیا بھی تو کھنچے کھنچے رہے اور چند دن بعد ایک مشترک دوست کے ذریعے کہلوایا کہ ”اگر میں نے بر بنائے مجبوری سگرٹ پینے کی قسم کھا لی تو آپ سے اتنا بھی نہ ہوا کہ زبردستی پلا دیتے۔ میں ہوں مجبور مگر آپ تو مجبور نہیں۔“
سات مہینے تک سگرٹ اور سوسائٹی سے اجتناب کیا لیکن خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ آخر ایک دن جب وہ وعظ سن کر خوش خوش گھر لوٹ رہے تھے تو انہیں بس میں ایک سگرٹ لائٹر پڑا مل گیا۔ چنانچہ پہلے ہی بس اسٹاپ پر اترپڑے اور لپک کر گولڈ فلیک سگرٹ کا ڈبہ خریدا۔ (ہمیں اس واقعہ پر قطعاً تعجب نہیں ہوا۔ اس لیے کہ گزشتہ کرسمس پر انہیں کہیں سے نائلون کے موزے چار آنے رعایت سے مل گئے تھے، جن کو ”میچ“ کرنے کے لیے انہیں ایک دوست سے قرض لے کر پورا سوٹ سلوانا پڑا۔) سگرٹ اپنے جلتے ہوئے ہونٹوں میں دباکر لائٹر جلانا چاہا تو معلوم ہوا کہ اندر کے تمام پرزے غائب ہیں۔ اب ماچس خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ہم نے اکثر یہی دیکھا کہ مرزا پیمبری لینے کو گئے اور آگ لے کر لوٹے۔
اور دوسرے دن اچانک غریب خانے پر گاڑھے گاڑھے دھوئیں کے بادل چھا گئے، جن میں سے مرزا کا مسکراتا ہوا چہرہ رفتہ رفتہ طلوع ہوا۔ گلے شکوے تمام ہوئے تو نتھنوں سے دھواں خارج کرتے ہوئے بشارت دی کہ سگرٹ میرے لیے موجبِ نشاط نہیں، ذریعہ نجات ہے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے چٹکی بجاکے اپنے نجات دہندہ کی راکھ جھاڑی اور قدرے تفصیل سے بتانے لگے کہ سگرٹ نہ پینے سے حافظے کا یہ حال ہوگیا تھا کہ ایک رات پولیس نے بغیر بتی کے سائیکل چلاتے ہوئے پکڑ لیا تو اپنا صحیح نام اور ولدیت تک نہ بتا سکا، اور بفضلہ اب یہ عالم ہے کہ ایک ہی دن میں آدھی ٹیلیفون ڈائرکٹری حفظ ہوگئی۔ مجھےلاجواب ہوتا دیکھ کر انہوں نے فاتحانہ انداز سے دوسری سگرٹ سلگائی۔ ماچس احتیاط سے بجھاکر ہونٹوں میں دبالی اور سگرٹ ایش ٹرے میں پھینک دی۔ ( جاری ہے )
"چراغ تلے " سے اقتباس