سندھو اور دریائے گلگت کے ملاپ سے پہلے اخروٹ، سیب، شہتوت اور خوبانی کے درختوں سے لدی سایہ دار وادی ”بگروٹ“ آتی ہے، انتہائی دلکش مقام ہے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:64
سندھو اور دریائے گلگت کے ملاپ سے پہلے اخروٹ، سیب، شہتوت اور خوبانی کے درختوں سے لدی ایک بڑی سایہ دار وادی ”بگروٹ“ دریائے گلگت کے کنارے آباد دلکش مقام ہے۔ویسے سبھی پھل اللہ کی نعمت ہیں اور ہر کسی کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہے۔آپ ان علاقوں میں آئیں تو خوبانی ضرور کھائیں۔یہ لذیز اوربہت سے فوائد والا پھل ہے۔ گرمیوں میں اس کا پکا ہوا پھل اور سردیوں میں خشک خوبانی بہت فائدہ مند اور مفید ہے اور اس کی گٹھلیاں توڑ کر اس کا مغز بادام”وٹامن سی“سے بھرپور اور ذائقہ دار ہوتا ہے۔ گری کو پیس کر اس سے آٹا حاصل کیا جاتا ہے جبکہ گری سے تیل بھی نکالا جاتا ہے۔ یہاں ڈھلوانوں پر گندم جو اور باجرہ کے کھیت ہیں اور جہاں کچھ زمین ہموار ہے وہاں مکئی، آلو، شلجم، انگور اور خربوزہ کی فصل اگائی جاتی ہے۔
”میرے ساتھ ساتھ ان چٹانوں پر مکڑی کی طرح پھیلے تنگ راستوں کا جال بنا ہے۔ قدیم زمانے میں ان راستوں پر لکڑی کی سیڑھیاں بنی تھیں اور کہیں لکڑی کی کھو نٹیاں تھیں جن کو پکڑ کر لوگ چلتے تھے۔ راستوں پر رسے کے بنے پل تھے۔ بید مجنوں کے رسوں سے بنے ان پلوں سے گزرنا خود اپنی جان لینے کے مترادف تھا۔ جھومتی رسیوں کو پکٹر کر مجھے کو پار کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ شاہراہ ریشم کی تعمیر نے یہ سفر آسان کر دیا اور اب سی پیک کا دور ہے راستے اور بھی محفوظ اور آرام دہ ہو گئے ہیں۔“ اگر داستان گومیرا ہمسفرنہ ہوتا، مجھ سے باتیں نہ کرتا تو میں یہ کہانی لکھ ہی نہ سکتا تھا۔ ہاں اگر لکھی بھی جاتی تو ہر گز اتنی دلچسپ نہ ہوتی۔
سندھو کی آواز پھر سے مجھے سنائی دی ہے؛”گلگت کے لوگوں کے لئے زندگی صرف کام سے ہی عبارت نہیں ہے کسی دور میں گلگتی عمدہ انگور اگاتے اور شراب بھی کشید کرتے تھے لیکن اب صرف انگور ہی اگاتے ہیں۔ کبھی عقابوں سے شکار کرتے تھے اب عقاب کی جگہ بندوق نے لے لی ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ پولو کا کھیل بھی خوب کھیلتے ہیں۔ اس کھیل کے ایران، وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان موجد ہونے کے دعویدار ہیں لیکن میری وادیوں میں اس کھیل کا اپنا ہی رنگ اور جوش ہے۔ پولو میچ میں کھلاڑیوں کا ہوش اور تماشائیوں کا جوش ایسا سماں باندھتے ہیں جس کی نظیرکم کم ہی ملتی ہے۔“
”گلگت اور اس کے گردو نواح عرصہ دراز سے آباد قدیم مقامات ہیں۔چٹانوں پر کندہ بدھ کے مجسمے، فرمان، مسلمان بزرگوں کے مقبرے، جنگ آزادی کے شہدا ء کی یاد گاریں گزرے وقت کی نشانیاں ہیں۔ گھروں کی ہموار چھتیں سردیوں میں برف سے ڈھکی سفید نظر آتی ہیں تو گرمیوں میں ان پر سکھانے کے لئے رکھی سبز مرچ، پیلی خوبانی کی وجہ سے سرخ یا زرد دکھائی دیتی ہیں۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں ملبوس مرد آج بھی ویسے ہی نظر آتے ہیں جیسے صدیوں قبل تھے۔ بدھ ازم آنے سے پہلے اور حضرت مسیح کی پیدائش سے تقریباََ سو(100)سال قبل تک یہاں کے باشندے مظاہر قدرت کے پجاری تھے یا آتش پرست تھے اور زرتشت کے ماننے والے۔ یہ بھی قیاس اور کچھ داستانیں ہیں کہ سکندری افواج کا گلگت کے کچھ علاقوں سے گزر ہوا۔ ثبوت کے طور پر اس قدیم اصطبل کے کھنڈر بیان کئے جاتے ہیں جس کے بارے میں روایت ہے کہ سکندر اعظم کے گھوڑوں کے لئے بنا تھا۔ ایک دوسرا اور شاید ناقابل تروید ثبوت یہ ہے کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں گلگتی زیادہ صفائی پسند اور سرخ و سفید رنگت کے ہیں۔ یہی دونوں چیزیں انہیں باقی مقامی باشندوں سے ممتاز کرتی ہیں۔یونانی بھی اسی رنگت اور ایسے ہی صفائی پسند تھے۔“
”کیا تم جانتے ہو؟“ سندھو نے مجھ سے پوچھا اورمیرا جواب سنے بغیر ہی بولنے لگا ہے؛ ”گلگتی ہمیشہ سے ہی کشمیریوں سے خوف زدہ رہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ دنیا میں گلگتی اور تبتی فرشتوں کی اولاد ہیں اور جنت کے حق دار بھی۔ ان کے عقیدے کے مطابق جنت کا داروغہ بھی کشمیری ہے جو ان کو جنت میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے۔ مہاراجہ کشمیر جب تک یہاں کا حکمران رہا تو بھی اُن کے نظریات میں تبدیلی نہ آسکی۔ 1877ء میں برطانوی حکومت نے ”گلگت ایجنسی“قائم کی جس کا مقصد مہاراجہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا تھا۔ 1913 ء میں گلگت اسکاؤٹس کا قیام عمل میں آیا جو علاقے میں امن و امان کے ذمہ دار تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)