زندگی بڑی سادہ سی تھی، جہاں دل کیا چند لوگ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہو جاتے، سڑک پر ہی لڈو، تاش اور دوسرے کھیلوں کی منڈلی سجا لیتے

زندگی بڑی سادہ سی تھی، جہاں دل کیا چند لوگ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہو ...
زندگی بڑی سادہ سی تھی، جہاں دل کیا چند لوگ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہو جاتے، سڑک پر ہی لڈو، تاش اور دوسرے کھیلوں کی منڈلی سجا لیتے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:155
 متفرق کھیل کود
زندگی بڑی سادہ سی تھی۔ جہاں دل کیا، چند لوگ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہو جاتے یا سڑک پر ہی لڈو، تاش اور دوسرے اسی قسم کے کھیلوں کی منڈلی سجا لیتے۔ کچھ تماشائی بن جاتے اورکھلاڑیوں کو مسلسل اپنے مشوروں سے فیض یاب کرتے رہتے تھے۔کئی بار تو یوں بھی ہوتا تھا کہ مدتوں سے بچھڑے ہوئے دو دوست رستے میں ملے، پرانے داؤ پیچ یاد آگئے تو وہیں فٹ پاتھ پر کوئلے سے چند لکیریں لگائیں، آس پاس بکھرے ہوئے کنکروں، لکڑی کے ٹکڑوں یا املی کے بیجوں کی گوٹیاں بنائیں اور کھیل شروع ہو جاتا تھا۔
 لوگوں کے پاس وقت کافی تھا۔ کسی کے گھر شطرنج کی بازی لگ جاتی توپھر صبح تک لگی ہی رہتی۔ اندر سے بیویوں کی چیخ و پکار کے باوجود کوئی بھی کھیل بیچ میں چھوڑنے کو آمادہ ہی نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ان میں سے ایک بجھے دل کے ساتھ اپنی مات قبول کرلیتا اورپھر وہ اس وقت تک ہارے ہوئے لشکر کے سپاہی کی طرح اپنے ”دشمن“سے شرمایا شرمایا سا پھرا کرتا تھا جب تک کہ وہ اس سے اپنی اس ہزیمت کا بدلہ نہ چکا لیتا۔ 
جھاڑ بندر
کراچی کے محلوں میں نیم، برگد، شیشم اور پیپل وغیرہ کے بے شمار درخت ہوا کرتے تھے۔ لڑکے بالے ان پر پھدکتے پھرتے، گھونسلوں سے کوئلوں اور کوؤں کے انڈے نکال پھینکتے تھے۔ جہاں دو چار لونڈے لپاڑے اکٹھے ہو جاتے تو جھاڑ بندر کھیل شروع ہو جاتا جس میں ایک لڑکے کو گلی کے پیچھے دوڑاکر باقی سب درخت پر چڑھ جاتے، اور وہ بیچارہ زمین پر کھینچے گئے ایک دائرے میں ڈنڈا رکھ کر بندروں کی طرح اچھل اچھل کر ان کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔ اس دوران کوئی بھی چپکے سے اتر کر دائرے میں سے ڈنڈا اٹھا لیتا۔اگر کوئی پکڑا جاتا تو اگلی بار اس کی بھاگ دوڑ کرنے کی ذمہ داری آ جاتی تھی۔
گلی ڈنڈا 
جو لڑکے بلوغت کے قدرے قریب ہوتے، وہ گلی ڈنڈا کھیلتے تھے اور گلی کو ٹُل مار کر اس کے پیچھے چلتے چلے جاتے تھے۔ بعض دفعہ تو وہ بلا مبالغہ کئی کئی میل کا سفر طے کر آتے اور آؤٹ نہیں ہوتے تھے۔ہمارے محلے کا ایک بڑا سا لڑکا تو اتنا بڑا ” ٹُل با ز“ تھا کہ اس کے بارے میں مشہور ہو گیا تھا کہ وہ بغیر آؤٹ ہوئے گلی کو ہواؤں میں اُڑاتا ہوا ریلوے لائن کے اس پار بھی لے جاتا تھا جو وہاں سے کم از کم 3 میل دور تھی۔ دوسرے حسرت سے اپنی پدائی ہوتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔
لٹو 
لڑکوں کا ایک ٹولا ہاتھ میں لکڑی کے بنے ہوئی لٹو اٹھائے پھرتا تھا۔ جہاں ذرا سا مزاج کھیل کی طرف مائل ہوا، لٹو کے اردگرد موٹی ڈوری لپیٹی اور پھر ایک خاص ادا سے گھما کر نیچے پھینک کر اس کی ڈوری کھینچ لی جاتی تھی اور وہ لٹو بڑی دیر تک وہاں گھومتا ہی رہتا جس کو دیکھ کر لوگ واہ واہ کرتے تھے۔ لٹو پرچونکہ کئی رنگ چڑھائے ہوتے تھے اس لیے جب وہ گھومتا تو ایسے لگتا جیسے دھنک محو رقص ہے۔ ایک مقابلہ تو یہ بھی ہوتا تھا کہ کس کا لٹو زیادہ دیر تک چلتا ہے۔ کچھ شوخ مگر تجربہ کاربچے زمین پر گھومتے ہوئی لٹو کو ایک خاص ادا سے دو انگلیوں پر اٹھاتے، پھر ہتھیلی پر منتقل کردیتے اور وہ بڑی دیر تک وہاں گھومتا رہتا تھا۔ ایک دو تو اس کو اسی گردشی حالت میں بازو پر چڑھاتے ہوئے کاندھے تک لے جاتے اور پھر اسی روٹ سے واپس لا کر بڑے پیار سے زمین پر بٹھا دیتے تھے، تب بھی وہ گھومتا ہی رہتا تھا۔ پھر یکدم اس کی رفتار سست پڑ جاتی۔ وہ کسی شرابی کی طرح لڑکھڑاتا اور ڈولتا ہوا آخری دوچار چکر لیتا اورپھر دل کا دورہ پڑ جانے والے کسی شخص کی طرح زمین بوس ہو جاتا تھا۔اسی کھیل کے اگلے حصے میں دو یا زیادہ لڑکوں کی ٹیم بن جاتی تھی۔ ذرا سخت زمین پر ایک دائرہ لگا کر ایک لڑکا لٹو گھما کر اس کے اندر چلادیتا۔ فوراً ہی دوسرا لڑکا اپنے لٹو کو گھما کر اس لٹو کا نشانہ لیتا اور اسے دائرے سے باہردھکیلنے کی کوشش کرتا۔ غرض عجب لطف آتا تھا اس کھیل میں جہاں کھلاڑی اور تماشائی یکساں طور پر محظوظ ہوتے تھے۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -