ملک کے باسیوں کوفوری اور سستا انصاف مہیا کرنے کے لئے حکومتیں عدالتی افسروں کا تقرر کرتی ہیں۔یہ افسر قانون شکنوں کو سزا دیتے ہیں، جس سے قانون شکنی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، معاشرے میں امن و امان قائم ہوتاہے اور انتظامیہ کے لیے قانون کی عملداری میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ اگر کسی ملک کی عدالتیں لوگوں کو انصاف مہیا کر رہی ہوتی ہیں تو وہ ملک ناقابل تسخیر بن جاتا ہے۔میرا بطور عدالتی افسر ذاتی تجربہ بھی یہی کہتا ہے کہ اگر ہمارے ملک کی عدالتیں صحیح معنوں میں انصاف مہیا کرنا شروع کر دیں تو یہاں جرائم کی شرح میں تقریبا 80 فیصد تک کمی آ جائے گی۔
آج کے کالم میں ہم پاکستان کی عدلیہ میں ججز کی تقرری کو زیر بحث لائیں گے۔ہمارے ہاں تین طرح کے عدالتی افسروں کا براہ راست (ڈائریکٹ) تقرر کیا جاتا ہے۔جن میں سول جج کم جوڈیشل مجسٹریٹ، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان شامل ہیں۔ سول جج بھرتی ہونے والے جج کی ترقی بطور سینئر سول جج، ایڈیشنل سیشن جج اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک ہوتی ہے، ان میں سے شاید ہی کسی جج صاحب کی ترقی بطور جسٹس ہائی کورٹ ہوتی ہو۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھرتی ہونے والے جج صاحبان کی ترقی بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہوتی ہے۔ان میں سے کوئی قسمت والا جج ہی ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج بنتا ہے۔اگر خدانخواستہ بن بھی جائے توعام طور پربطور ایڈیشنل جج ہی ریٹائر ہو جاتا ہے۔لیکن جو جج صاحبان ڈائریکٹ ہائی کورٹ کے جج بنتے ہیں وہی بعد میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز، سپریم کورٹ کے ججز اور چیف جسٹسز بنتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ ہائی کورٹ رولز کے مطابق ان عدالتی افسروں کی تقرری کا طریقہ کار اورمعیار کیا ہیں؟ سول جج کم جوڈیشل مجسٹریٹ کے لئے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ لاء گریجوایٹ ہو، کم از کم دو سال بطور وکیل پریکٹس کا تجربہ رکھتا ہو، اس اسامی پر سلیکشن کے لئے کل 700 نمبروں کا تحریری امتحان لیا جاتا ہے۔ تحریری امتحان میں کامیاب امیدواروں کانفسیاتی اور رحجانیاتی ٹیسٹ لیا جاتا ہے،پھران امیدواروں سے 300 نمبروں کا انٹرویو لیا جاتا ہے اور میرٹ کے مطابق سلیکٹ ہونے والوں کی جوڈیشل اکیڈمی میں ٹریننگ کی تکمیل کے بعد سول جج /جوڈیشل مجسٹریٹ تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ امتحان اتنا مشکل ہوتا ہے کہ سن 2023 میں 159 خالی آسامیوں کے لیے وکلاء کا تحریری امتحان لیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں وکلاء نے یہ امتحان دیا لیکن تحریری امتحان میں کل 27 امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان کا نفسیاتی اور رحجانیاتی ٹیسٹ اور انٹرویو لیا گیا تو صرف26 امیدواروں کامیاب ٹھہرے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک عظیم میں سب سے جونئیر کیٹیگری کا جج بننے کے لیے امید واروں کو کتنے سخت اور کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس کے بعد ہم آتے ہیں ڈائریکٹ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی آسامیوں پر بھرتی کی طرف۔ اس عہدہ کے لئے لاء گریجوایٹ ہونا اور قانون کی پریکٹس کا دس سالہ تجربہ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔امیدواروں سے 800 نمبروں کا تحریری امتحان لیا جاتا ہے، پھر ان کا نفسیاتی اوررحجانیاتی ٹیست لیا جاتا ہے، آخر میں 300 نمبروں کا انٹرویو لیا جاتا ہے۔کامیاب ہونے والے امیدواروں کی جوڈیشل اکیڈمی میں کامیاب ٹریننگ کے بعد انہیں بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تعینات کیا جاتا ہے۔ آپ اس امتحان کے بھی مشکل ہونے کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سن 2021 میں کل 654 وکلاء نے امتحان دینے کے لئے درخواستیں دیں۔،404 وکلاء نے امتحان دیا۔ صرف چار، جی ہاں صرف چار امیدوار تحریری امتحان میں کامیاب ہوئے، اسی طرح سن 2023 میں صرف 12 وکلاء تحریری امتحان میں کامیاب ہو سکے۔ ان امیدواروں کا نفسیاتی اور رحجانیاتی ٹیسٹ کے بعد انٹرویو لیا گیا۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ انٹرویو میں صرف اور صرف10 وکلاء کامیاب قرارپائے۔ تیسری کیٹیگری میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تقرری آتی ہے۔ مائی لارڈ/مسٹر جسٹس آف دی ہائی کورٹ بننے کے لئے وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہ تو کوئی تحریری امتحان لیا جاتا ہے، نہ ہی نفسیاتی اور رحجانیاتی ٹیسٹ، اور نہ ہی کوئی باقاعدہ انٹرویو۔ جبکہ ہمارے ملک میں جونئیر کلرک، سٹینو گرافر اور پٹواری وغیرہ جیسے جونئیر ترین عہدوں پر تقرری کے لئے بھی تحریری امتحان اور انٹرویو لیا جاتا ہے۔حتیٰ کی نائب قاصد بھرتی کرنے کے لیے بھی ایک نام نہاد میرٹ لسٹ تیار کی جاتی ہے۔لیکن ایک جسٹس بنانے کے لئے اس طرح کا کوئی تردد نہیں کیا جاتا۔ایک دن پہلے تو وکیل صاحب ماتحت عدالت میں کھڑے ہو کر پریذائیڈنگ افسر کو مائی لارڈ یا سر کہہ رہے ہوتے ہیں،لیکن اگلے ہی روز وہ خود مائی لارڈ یا سر بن کر عدالت میں رونق افروز ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے جسٹس بننے سے ایک دن قبل ماتحت عدلیہ کے جن پریذائیڈنگ آفیسرزکے پاس ریلیف لینے کے لئے پیش ہو رہے ہوتے ہیں، اگلے ہی دن ان کے باس بن جاتے ہیں اور ان کے انسپیکٹنگ ججز مقرر ہو جاتے ہیں۔
اب ذرا ان معزز جسٹس صاحبان کی تقرری کا طریقہ کار بھی ملاحظہ فرمالیں۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 93 کی رو سے ہائی کورٹ کا جج بننے کے لئے امیدوار کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کا شہری ہو، اس کی عمر کم از کم 45 سال ہو، لاء گریجوایٹ ہو اور ہائی کورٹ کی وکالت کا10 سال کا تجربہ رکھتا ہو۔آئین پاکستان کی اٹھارہویں اور انیسویں ترمیم کی روشنی میں آرٹیکل 175-اے۔میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس کے چیئرمین ہوں گے، اس کے ممبران میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز،ایک سپریم کورٹ کا سابقہ چیف جسٹس، اٹارنی جنرل آف پاکستان، وفاقی وزیر قانون اور سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کا ایک سپریم کورٹ کا سینئر وکیل شامل ہو گا۔یہ کمیشن بغیر کوئی امتحان لیے وکلاء میں سے ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے نامزد گیاں کرکے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے گا۔ پارلیمانی کمیٹی میں میں چار ممبران قومی اسمبلی سے اور چار ممبران سینٹ سے ہوں گے، اس میں حکومت اور اپوزیشن کے برابر برابر اراکین شامل ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی اپنی تجاویز وزیر اعظم پاکستان کو بھیجے گی۔ وزیر اعظم صاحب یہ نامزدگیاں جناب صدر پاکستان صاحب کو ارسال کردیں گے۔ صدر پاکستان پر لازم ہے کہ وہ ان نامزدگیوں کی رسمی منظوری دے دیں۔ اس طرح بغیر کسی امتحان، بغیر نفسیاتی اور رحجانیاتی ٹیسٹ کے اور بغیر کسی باقاعدہ انٹرویو کے عمومی طور پر سیاست میں حصہ لینے والے وکلاء، ججز کے چیمبر فیلوز اور رشتہ دار، سیاستدانوں کے چہیتے اور رشتہ دار،وکلاء تنظیموں اور بار کونسلز کے عہدے دار ان اور حکومتی و طاقتور حلقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے وکلاء صاحبان کو جسٹس آف دی ہائی کورٹ بنا دیا جاتا ہے۔(جاری ہے)