چار گواہ ضروری ہیں
چند ماہ بیتے ایک قلم کار نے عرب و عجم کے مسلم علماء کے معروف موقف سے ”ذرا ہٹ کے“ بلکہ ”کافی ہٹ کے“ڈی این اے کو بنیادی شہادت قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا پسینہ ایک کر دیا۔ پھر چار گواہ ، زنا، ریپ اور ”سنگساری“ کے موضوع پر ”سپرنٹ (دوڑ) ماری“۔ رجم کی سزا کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کی۔ تحریر کو کچھ ایسا رنگ دیا، جس سے چار گواہ ”بے رنگ اوربے اہمیت“ ٹھہرے۔ موصوف قرآن کریم سے رہنمائی کے مدعی ہیں اور لکھتے ہیں ”اللہ کی کتاب سے رہنمائی لینے کا حکم تو خود اللہ کے رسول نے دیا ہے“۔ تسلیم جناب من! لیکن ذرا یہ فرمایئے کہ رسول سے رہنمائی لینے کا حکم بھی تو خود قرآن کریم نے دیا۔ کیا آپ کو یہ تسلیم ہے؟ شادی شدہ مرتکب زنا کو رسول نے رجم کرنے کا حکم دیا اور اس حکم کو ”ابتدائی دور کے چند واقعات“ لکھ کر رسول سے رہنمائی لینے سے انکاری ہیں۔ اگر قرآن مجید میں رجم کا دو ٹوک ذکر نہیں تو رکعات صلوٰة (نماز)، صلوٰة و حج کا مکمل طریقہ اور ترتیب کا ذکر بھی نہیں، پھر کھل کر لکھ دیجئے کہ آپ حدیث کودلیل نہیں مانتے۔
موصوف نے سورة النساءکی آیت نمبر15 اور16 ذکر کی ہیں اور ان کو زنا کے ابتدائی حکم کا ماخذ قرار دیا ہے۔ پھر سورة نور کی آیات 2 اور5 ذکر کی ہیں اور لکھا ہے کہ زنا کے بارے میں دو ٹوک احکامات سورة نور میں نازل کئے گئے۔ اس کے بعد سورة نور کی آیت نمبر9 ذکر کی ہے اور لعان کا حکم بیان فرمایا ہے۔ پھرلکھتے ہیں: "ان آیات سے پانچ باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ پہلی زنا بالرضا جسے انگریزی میں adultery کہتے ہیں کی سزا قرآن نے سو کوڑے مقرر کی ہے۔ یہاں ”معصوم محقق“ سے سوال ہے کہ کیا قرآن میں دو ٹوک ”زنا بالرضا“ کے الفاظ ہیں؟ اگر نہیں، تو مجرد ”زنا“ کےالفاظ میں ”بالجبر“ کوبھی شامل کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ دوسری بات یہ کہ قرآن کے اولین شارح اور مفسر رسول نے حدیث میں زنا کی سزا تفصیل سے بیان کر دی کہ سو کوڑے کنوارے مرد و عورت کے لئے ہیں، جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رجم کی سزا ہے۔ صحیح بخاری میں عمر ؓفرماتے ہیں: ”مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ایک دور ایسا نہ آئے کہ کوئی کہنے والا کہے کہ مَیں رجم کی آیت کو کتاب اللہ میں نہیں پاتا، تو وہ ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائے۔ خبردار! رجم بر حق ہے، جب کوئی شخص شادی شدہ ہو اور گواہ قائم ہو جائیں یا حمل ظاہر ہو جائے یا وہ اعتراف کر لے۔ رسول نے خود رجم کیا اور ہم نے بھی آپ رسول کے بعد رجم کیا“۔
جناب کی دوسری بات سے اتفاق ہے، لیکن جناب نے قذف کے لئے ڈی این اے کو ”بنیادی شہادت“ قرار دینے کے حوالے سے اپنی جدید تحقیق ذکر نہیں فرمائی! لکھتے ہیں:”تیسری، شوہر اگر اپنی بیوی پر الزام لگائے، تو اسے قسم کھا کر ثابت کر سکتا ہے، مگر بیوی بھی جواب میں اللہ کی قسم کھا کر اس کا الزام رد کر سکتی ہے، اس صورت میں کوئی سزا نہیں“۔ توضیح کی جاتی ہے کہ اس صورت میں ان دونوں کے درمیان مستقل علیحدگی کروا دی جائے گی اور بطور میاں بیوی ان کا رشتہ برقرار نہیں رہے گا۔ ویسے جناب نے بیوی پر الزام زنا کی صورت میں بھی ڈی این اے سے استفادہ کا ذکر نہیں فرمایا۔ شاید بھول گئے، لیجئے، یاد کروادیتے ہیں۔ چشم شوق اب ”تحقیق دقیق“ کی منتظر ہے۔ لکھتے ہیں:”چوتھی، عورت کے ساتھ بداخلاقی، یعنی ریپ کی صورت میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اسے ثابت کرنے کے لئے عورت کو چار گواہ پیش کرنے ہوں گے“۔ جناب! قرآن کریم نے ثبوت زنا کے لئے چار گواہوں کا نصاب مقرر کیا۔ الزام زنا کے بعد چارگواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں قذف کی سزا ہے۔ قذف کی سزا کے آپ بھی قائل ہیں، تو اعتراض کیسا؟
لکھتے ہیں: ”پانچویں بات یہ ہے کہ رجم جسے انگریزی میں stone to death کہتے ہیں ، کی سزا کا بیان قرآن میں کہیں نہیں، بہت سارے علماءبشمول مولانا مودودی کا یہ کہنا ہے کہ شادی شدہ افراد کے لئے رجم کی سزا اجماع امت سے ثابت ہے۔ پھرموصوف نے سورة النساءکی آیت نمبر 25 کا ترجمہ پیش کیا اور اعتراض اٹھایا: ”اب اگرشادی شدہ عورت کے لئے رجم کی سزا ہوتی تو اس صورت میں اس کی آدھی سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟“ آئیے جواب کی طرف، پہلی بات: شادی شدہ مرتکب زنا کے لئے رجم کی سزا سنت سے ثابت ہے۔ اجماع کا ذکر تائیداً کیا جا سکتا ہے۔ تفہیم القرآن میں سورة النور کی متعلقہ آیت کی تفسیر پر نظر ڈالیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مودودی ؒ صاحب نے روایات (یعنی احادیث) کا ذکر کیا ہے اور اجماع کو بطور ثبوت ذکر نہیں کیا۔ اگر جناب کے پاس اس کے علاوہ کوئی حوالہ ہے، تو اطلاع دے کر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔
جہاں تک سورةالنساءکی آیت کا تعلق ہے اس میں ”فاذا احصن“ سے مراد لونڈی کا حصار نکاح میں آنا ہے اور”محصنات“ سے مراد کنواری آزاد/ خاندانی خاتون ہے۔ گویا شادی شدہ لونڈی پر کنواری آزاد/ خاندانی عورت کے لے مقررسو کوڑوں کی سزاکا نصف نافذ کیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ کہ موصوف نے غالباً تفہیم القرآن (مودودیؒ) سے ترجمہ منتخب کیا اور ترجمہ میں ”محصنات“ کا وہی معنی ذکر کیا ہے، جو ہم بیان کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے اعتراض کے مطابق ”محصنات“ کا ترجمہ ”خاندانی“ کی بجائے ”شادی شدہ“ہونا چاہئے تھا۔ دین میں دخل درمعقولات کرنے پر داغ تولگے گا، چاہے کوئی ”جیک آف آل ٹریڈز“ بنتا پھرے۔ موصوف اگر تفسیر طبری پر ہی نظرالتفات کر لیتے، تو شاید جواب پا لیتے۔ کتب حدیث میں بھی زنا میں ملوث ہونے والی لونڈی کی سزا کا بیان ہے۔
اب سوال ہے ریپ کا شکار عورت کی دادرسی کا؟ تو جناب شریعت اس کی داد رسی کرے گی۔ کنوارے مرد وعورت کے لئے شریعت میں زنا بالجبرکی سزا سوکوڑے، جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رجم کی سزا ہے، جس مرد یا عورت پر جبر کیا گیا اس پر کوئی سزا نہیں۔ اگر اقرار یا چار گواہ نہ ہوں تو قرائن کی موجودگی میں تعزیری سزا لاگو ہو سکتی ہے۔ ایک طرف تو موصوف کہتے ہیں کہ ”جاوید و جید علمائ“ کی ”سو فیصد درست“ آرا کے مطابق جرم ثابت ہونے پر تعزیر لاگو ہو گی۔ دوسری طرف لٹھ لے کر حدود آرڈیننس میں بیان کردہ تعزیر کے پیچھے دوڑتے ہیں،بہت خوب۔ حدود آرڈیننس دفعہ 10 کے مطابق زنا بالجبرکے مجرم کو 25 سال قید اور 30 کوڑوں کی سزا دی جا سکتی ہے۔
”معصوم محقق“ نے سیکشن 8 سے صرف اپنی پسند کی ملائی اتار لی ،پورے سچ سے اجتناب کیا اور یوں میدان تحقیق میں نئے جھنڈے گاڑ دیئے۔ وومن پروٹیکشن ایکٹ 2006ءسے پاکستان ”ریپ فری کنٹری“ بن گیا، تمام مجرموں کو سزا مل گئی اور ”نیک دل بادشاہ کے دور میں سب ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے“۔ زنا بالجبر دوستی و آشنائی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک ہی واقعہ میں ایک فرد بالرضا کا مجرم ہو سکتا ہے اور دیگربالجبرکے۔ ایک فرد بھی زبردستی کر سکتا ہے اور ایک گروہ بھی۔ مجبور کو اغوا بھی کیا جا سکتا ہے اور قتل بھی۔ زنا بالجبر کی بہت سی ممکنہ صورتیں ہیں۔ انتہائی صورتوں میں تعزیراً موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے، جیسا کہ حدود آرڈیننس میں ذکر کیا گیا ہے۔
موصوف، عربی اردو ترجمہ سے فائدہ اٹھائیں تو جائز۔ ”اسلامی نظریاتی کونسل“ انگریزی اردو ترجمہ سے استفادہ کرے تو ناجائز۔ بتلایئے، عربی میں ”ریپ“ کے لئے کیا لفظ مستعمل ہے ؟ امید ہے جب تک جناب ”سرچ انجن“ کی مدد سے عربی سیکھیں گے، تب تک اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ بھی انگریزی کے لفظ ”ریپ“ کو سمجھ جائیں گے۔ موصوف کے خیال میں ”ریپ“ چونکہ صرف انگریزی ہی میں ہو سکتا ہے، تو کرہ¿ ارض کی تمام مظلوم خواتین سے عرض ہے کہ سانحہ کے بعد جا کر انگریزی میں ”ریپ“ کا بتائیں، انصاف کے حصول کو ممکن بنائیں اور ”محقق“ کی شکر گزار ہوں۔ ”محقق“ سے گزارش ہے کہ اس تحریرکو پڑھنے کے بعد یخ بستہ ”فریش جوس“ کے دو گلاس نوش فرمائیں۔ غیظ و غضب کی قربت سے مکمل پرہیزکریں۔ ”استاد جی“ کو میرا سلام کہیں۔ آپ کے لئے دُعا گو۔